من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پینل کے سامنے پچھلے بیس منٹ سے موجود تھا۔ بورڈ کے ممبرز نے اس سے ہر موضوع پر سوال کیے تھے۔ اس کے سبجیکٹ سے لے کر کرنٹ افئیرز تک، جیوگرافی سے ہسٹری تک، اسپورٹس سے اس دن کی مین ہیڈ لائنز تک۔
وہ مشینی انداز میں جواب دے رہا تھا۔ پر اعتماد انداز میں بے حد روانی سے، بغیر کسی جھجک اور پریشانی کے۔ وہ ان کی باڈی لینگوئج اور چہرے کے تاثرات سے بتا سکتا تھا کہ وہ اس سے متاثر ہو رہے تھے اور یہ احساس اس کے اعتماد کو اور بڑھا رہا تھا۔ وہ اندر جاتے ہوئے جتنا ٹینس تھا، بیس منٹ گزرنے اور اپنی اس طرح کی پرفارمنس کے بعد بے حد مطمئن ہو گیا تھا۔
مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پر اس سے کوئی ایسا سوال پوچھا جائے گا جس پر وہ اٹک جائے اور وہ سوال پوچھ لیا گیا تھا۔ اور اب وہ چند لمحوں کے لیے گنگ چئیر مین کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جس پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ تھی اور ایسی ہی مسکراہٹ بورڈ کے دوسرے ممبرز کے چہروں پر تھی۔
”کیوں، مشکل سوال ہے؟” چیئر مین نے اس کی فائل بند کرتے ہوئے انگریزی میں پوچھا۔ یہ انٹرویو کے اختتام کا اشارہ تھا۔
شیراز نے مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اب انٹرویو کے اختتامی چند منٹوں میں اس سے کچھ غیر رسمی قسم کی گفتگو کرنے لگے تھے۔ اس کے ایک دو جوابات پر چئیر مین نے چند ریمارکس دیے اور ان ریمارکس پر کمرے میں کچھ قہقہوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ ماحول اچانک بے حد بے تکلف اور خوشگوار ہو گیا تھا اور اسی ماحول میں بورڈ کے ایک ممبر نے اس سے پوچھا۔




”What is your most valuable asset in life?” (تمہاری زندگی کا اثاثہ کیا ہے؟)
شیراز نے بے ساختگی سے جواب دیا۔
”My intelligence” (میری ذہانت)
”No 2?” (دوسرے نمبر پر؟) اسی ممبر نے دوبارہ پوچھا تھا۔
شیراز نے اسی روانی سے کہا۔
”My academic record” (میرا تعلیمی ریکارڈ)
”No 3?” (نمبر تین) اسی ممبر نے ایک بار پھر پوچھا۔
شیراز کے پاس جوابات کی کمی نہیں تھی۔
”My ambition” (میرا مقصد)
”No 4?” (نمبر چار) بورڈ کا وہ ممبر جیسے اب اسے زچ کرنے پر تلا ہوا تھا۔
”My passion for my ambition” (اپنے مقصد کے لیے میرا تحمل)
”No 5?” (نمبر پانچ)
اس بار پوچھنے والا دوسرا ممبر تھا۔ بورڈ کے سب ممبرز اب اس کے ساتھ جیسے کوئی کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گئے تھے۔
شیراز کے انداز میں تبدیلی نہیں آئی۔
”My practicality”
”آپ نے اپنے اثاثوں میں محبت یا اپنی فیملی کا ذکر نہیں کیا؟”
اس بار بورڈکے چیئر مین نے جیسے اسے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
شیراز نے بے ساختہ کہا۔
” Comes at No.6” (وہ نمبر چھ پر آتا ہے)
چیئر مین نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”Which one? love or family” (کون سی چیز، محبت یا فیملی؟)
شیراز نے جواب دیا۔
”Both”( دونوں۔)
“Are you engaged?”
شیراز نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”Yes sir. I am engaged.” (جی سر! میری منگنی ہو چکی ہے۔)
As a result of some love affair?( کسی لو افئیر کے نتیجے میں؟)
چیئر مین کا انداز برقرار تھا۔
Kind of. She is my cousin. (جی، وہ میری کزن ہے)
”Why do you love her?” (تم اس کو کیوں چاہتے ہو؟)
شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”She is very pretty.” (وہ بہت خوبصورت ہے)
”So is that the only reason?” (صرف اس وجہ سے؟) چئیر مین نے پوچھا۔
اس بار شیراز پہلی بار الجھا۔ سولاات اتنے سیدھے اور سادہ نہیں تھے جتنے وہ سمجھ رہا تھا، وہ اب اس سے کچھ اور اگلوانے کے موڈ میں تھے۔
”No, there are many others” (نہیں کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔)
چیئر مین نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”Like?” (مثلاً)
” She is caring, loving, honest, loyal, sincere and selfless.” شیراز نے بے حد نپے تلے انداز میں زینی کی خوبیاں گنوائیں۔ یہ وہ خوبیاں تھیں جو صرف وہ نہیں، زینی کو جاننے والا کوئی بھی شخص گنوادیتا۔ اس کے جواب نے چیئرمین کی مسکراہٹ کو کچھ اور عجیب کر دیا تھا۔ شیراز اب اس سے اگلے سوال کی توقع کر رہا تھا اور اس نے بالآخر وہ سوال کر دیا تھا جس نے چند لمحوں کے لیے شیراز کو گنگ کر دیا تھا۔
What will you prefer? A beautiful woman with all these qualities or a beautiful woman with loads of cash?
(اچھا یہ بتاؤ کہ تمہاری ترجیح کیا ہو گی ایک خوبصورت عورت ان تمام خوبیوں کے ساتھ یا ایک خوبصورت عورت کروڑوں کیش کے ساتھ۔)
پورے انٹرویو میں اس نے پہلی بار توقف کیا تھا۔ پھر اس نے اپنے سامنے پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ لیا۔ چیئر مین اور ممبرز کے درمیان نظروں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔
اس وقت پہلی بار شیراز کو احساس ہوا کہ وہ ان فارمل گفتگو کے دوران بہت بُری طرح جاپھنسا ہے۔ وہ اس کے لیے ان فارمل گفتگو تھی وہ میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے ان فارمل نہیں تھی۔ وہ پہلے سوال کے جواب سے پھنسا تھا۔ دوسرا تیسرا، چوتھا، پانچواں جواب اسے اور پھنساتے گئے تھے۔ وہ اس کا لاشعور تھا جو اس وقت بول رہا تھا مگر اب وہ مکمل طور پر ہوشیار ہو چکا تھا۔
محبت یا خاندان کو چھٹے نمبر پر رکھ کر اور ذہانت، تعلیمی ریکارڈ Ambition, passion, اور Practicality کو سرفہرست رکھنے کے بعد وہ جانتا تھا کہ وہ کسی عورت کا انتحاب کرے گا تو وہ اس کی جان ان سوالوں سے چھوٹ جائے گی۔ وہ بالآخر جواب دینے کے تیار ہو گیا تھا۔ وہ اس جواب کو اس وقت نپا تلا سمجھ رہا تھا مگر کمرے سے نکلتے ہوئے ایک بار پھر اپنے دل میں وہ سوال دہراتے ہوئے اسے یک دم احساس ہوا وہ وہی جواب تھا جو چئیر مین کے سوال پوچھنے پر بے اختیار اس کے ذہن میں آیا تھا، وہ عورت اس کا لاشعوری انتخاب بھی تھی۔
”مسٹر شیراز اکبر! آپ انتخاب میں جتنی دیر لگا رہے ہیں۔ اتنی دیر میں تو دونوں عورتیں چلی جائیں گی۔”
بورڈ کے ایک ممبر نے ہلکی سی خوش مزاجی کے ساتھ کہا، چیئر مین اور دوسرے ممبرز ہلکا سا ہنسے۔ شیراز مسکرایا۔ پھر اس نے بے حد اعتماد سے کہا۔
”ہاں۔ مگر ایک عورت کے ساتھ میں بھی ہوں گا۔”
”اور وہ کون سی عورت ہو گی؟”
چیئر مین نے بے حد دلچسپی کے ساتھ اسے دیکھا۔ وہ تحریری امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد انٹرویو سے گزرنے والا آخری امیدا وار تھا۔ اور شیراز کے علاوہ وہاں بیٹھا ہر شخص جانتا تھا کہ وہ پہلی دو پوزیشنز میں سے کسی ایک پوزیشن کے لیے مضبوط ترین دو امیداروں میں سے ایک تھا۔ مقابلے کے اس امتحان کے نتیجے میں چئیر مین کا ہر سال شیراز اکبر کے Caliber (معیار) کے کسی نہ کسی سیلف میڈ نوجوان سے سامنا ضرور ہوتا تھا۔ مگر پچھلے چار سالوں میں کبھی ایک بار بھی اس کے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی لڑکا سی ایس ایس کے امتحان میں ٹاپ نہیں کر سکا تھا۔ اس کے باوجود کہ پہلی دو پوزیشنز کے درمیان چند مارکس سے زیادہ کا فرق نہیں ہوتا تھا۔ اور ان چند مارکس کا فرق ہمیشہ چئیر مین کی وجہ سے ہی پیدا ہوا تھا۔
ہر بار شیراز جیسا کوئی نوجوان کسی ایک آدھ جواب کی وجہ سے مار کھاتا تھا۔ اس بار شیراز اس پوزیشن میں تھا اور چیئر مین کی خواہش تھی کہ اس بار دوسری پوزیشن پر آنے کی روایت ٹوٹ جائے۔ اور اسے یقین تھا وہ روایت ٹوٹ جائے گی۔ وہ اس کا فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین کے طور پر آخری سال تھا اور شیراز ان پچھلے چاروں سالوں کے امیدواروں سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں سامنے آیا تھا۔ چئیر مین کو یقین تھا اس بار روایت ٹوٹ جائے گی۔
”تو مسٹر شیراز اکبر! کون سی عورت ہو گی وہ؟”
چئیر مین نے بالآخر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!