من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”شیراز بیٹا ابھی جوتے مت اتارنا۔ مجھے چائے کا کچھ سامان لا دو۔” اس سے پہلے کہ نسیم اپنی بات مکمل کرتیں، شیراز نے ان کی بات کاٹ دی۔
”کیوں آج پھر نزہت کو دیکھنے کوئی آرہا ہے؟” وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر میں داخل ہوا تھا اور ابھی اپنے کمرے میں آکر جوتے اتارنے ہی والا تھا کہ نسیم اندر چلی آئیں۔
”اور اب یہ آج آنے والے کون ہیں؟” اس نے والٹ نکالتے ہوئے اندر رکھے نوٹوں کو چیک کیا۔
”پتا نہیں۔ آئیں گے تو پتاچلے گا۔ لڑکا شاید کسی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔”
”شہر بھر کا ہر گھٹیا رشتہ اس گھر میں میری بہنوں کے لیے آتا ہے۔ کوئی فیکٹری میں مزدور ہے۔ کوئی حجام ہے۔ کوئی میکنک ہے۔ خالہ رشیدہ کو کوئی اور فضول رشتہ نہیں ملتا۔” اس نے بے حد ناراضی کے عالم میں رشتہ کروانے والی عورت کا نام لیا۔
”اب میٹرریڈر کے گھر میں اسی طرح کے رشتے آئیں گے، کسی لینڈلارڈ کا رشتہ تو نہیں آئے گا اور جن رشتوں کو تم گھٹیا کہہ رہے ہو۔ وہ بھی کون سا پسند کر جاتے ہیں نزہت کو۔”نسیم نے بھی ناراضی سے کہا۔
”اچھا کرتے ہیں نہیں پسند کرتے۔ ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں جانے کا فائدہ؟”
”اس طرح مت کہو۔ بہنیں کہیں نہ کہیں تو بیاہنی ہیں نا تمہیں۔ ”نسیم نے اسے ٹوکا۔
”جانتا ہوں میں۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سے کتنی بار کہا ہے ۔ میرے امتحان کا رزلٹ آلینے دیں۔ میٹرریڈر کی بیٹیوں کے لئے جیسے مرضی رشتے آتے ہوں، سرکاری افسر کی بہنوں کے لیے ایسے رشتے نہیں آئیں گے۔”
”کھانا کھالو۔ پھر جانا۔” نسیم نے جان بوجھ کر بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”کھانے میں کیا ہے؟”
”دال بنی ہے۔”




”رہنے دیں۔ مجھے بھوک نہیں۔” اس نے بیزاری سے کہا۔
”تمہیں انڈا بنا دیتی ہوں۔”نسیم نے جلدی سے کہا۔
”میں انڈے اور دالیں کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں۔”
”میں ساتھ والوں کے گھر سے پوچھتی ہوں، صفیہ نے آج آلو گوشت پکایا تھا۔” شیراز نے ماں کو بات مکمل کرنے دی۔
”شور بے کے تالاب میں ایک بوٹی نما چھیچڑا اور آلو ڈھونڈنے میں جتنی دیر لگے گی۔ اتنی دیر میں رات کے کھانے کا وقت ہو جائے گا۔” وہ تلخی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
زینب بس سے اتر کر اپنے محلے میں داخل ہوئی۔ آج اتفاقاً اس کے ساتھ محلے سے کالج جانے والی دو لڑکیاں نہیں تھیں۔
پہلی گلی میں داخل ہوتے ہی اس کا دل بے اختیار دھک سے رہ گیا۔ دو ہفتے کے وقفے کے بعد وہی لڑکا ایک بار پھر وہیں کھڑا تھا۔ زینب کو گلی میں آتا دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرایا اور یک دم الرٹ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ پھینک دیا تھا۔
زینب کو گلی سے بے حد خوف آتا تھا۔ کیونکہ دوپہر کے اس وقت یہ گلی عام طور پر بالکل سنسان رہتی تھی۔ اور اس لڑکے نے اسی گلی میں آکر اس سے بات کرنا شروع کی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے وہ صرف اس جگہ سے زینب کا پیچھا کیا کرتا تھا جہاں زینب محلے کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ بس سے اترا کرتی تھی۔ کچھ عرصہ وہ چپ چاپ اس کے پیچھے آتا رہا۔ پھر یک دم بس اسٹاپ کے بجائے اس گلی میں کھڑا ہونے لگا اور زینب سے بات کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اگلی گلی میں پہلے شیراز کا گھر آتا تھا۔ پھر زینب کا او روہ گلی سنسان نہیں ہوتی تھی۔ وہاں اکثر محلے کی خواتین باہر کھڑی یا بیٹھی ایک دوسرے سے بات کر رہی ہوتی تھیں۔
جیسے ہی زینب، اپنی گلی کا موڑ مڑتی تھی وہ لڑکا غائب ہو جاتا تھا۔ مگر اس گلی سے آج کل گزرنا زینب کے لیے پل صراط سے گزرنے کے برابر تھا۔
”السلام علیکم!” اس نے حسب عادت زینب کے پاس آتے ہی کہا۔ اب وہ زینب کے تقریباً ساتھ چل رہا تھا۔ زینب نے اپنا آدھا چہرہ اسی چادر میں ڈھانپا ہوا تھا۔ جسے اس نے اوڑھا ہوا تھا۔ اس کی صرف آنکھیں ماتھے اور ناک کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا مگر اس کے باوجود ایک ہی نظر میں اس خوف کو محسوس کرنا مشکل نہیں تھا جو اس کی آنکھوں میں جھلکنے لگا تھا۔ وہ بے حد تیز اور بے حد ناہموار قدموں سے چل رہی تھی، اگر اس وقت کوئی اسے روک دیتا تو وہ اس کے جسم کی کپکپاہٹ اور لرزش کو بہت آسانی سے محسوس کر لیتا۔
”کبھی تو سلام کا جواب دے دیا کریں۔ مسلمان نہیں ہیں کیا؟” وہ اب ہمیشہ کی طرح جملے پھینک رہا تھا۔ ”یہی پوچھ لیں کہ بندہ دو ہفتے کہاں رہا؟”
وہ چلتی رہی، وہ جیسے اپنے قدم گن رہی تھی۔
”آپ نے سوچا، آپ کی جان چھوٹ گئی۔ بندہ کہیں مرکھپ گیا۔” اس نے اب قہقہہ لگا کر کہا۔ زینب کو بے اختیار رونا آگیا۔ وہ واقعی چاہتی تھی کہ وہ کہیں مر کھپ گیا ہو۔
”زینب جی!”
زینب کوبے حد اختیار ٹھوکر لگی۔
”سنبھل کے۔ آپ گریں گی تومجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھانا پڑے گا۔ وہ آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔”
اس لڑکے نے بے ساختہ کہا۔ زینب کی کنپٹیوں سے اب پسینہ بہنے لگا تھا، اس سے پہلے وہ ہمیشہ اس کا نام پوچھتا تھا۔ آج اس نے نام پوچھنے کی بجائے سیدھا اس کا نام لیا تھا۔ اب نہ جانے وہ آگے کیا کرتا۔ زینب کو لگ رہا تھا اس کا دل بہہ جائے گا۔
گلی کا موڑ آگیا تھا۔ ”چلیں پھر کل ملیں گے، میں توچاہتا ہوں، آپ کے ساتھ آپ کے گھر تک جاؤں۔ مگر یہ ظالم سماج۔۔۔۔” اس لڑکے نے اب ایک مصنوعی آہ بھری۔ زینب گلی کا موڑ مڑ گئی۔ وہ جیسے آج پل صراط کے دوسرے سرے پر پہنچ گئی تھی۔
گھر کا دروازہ ربیعہ نے کھولا تھا، زینب بے حد غصہ اور صدمے کے عالم میں گھر میں داخل ہوئی تھی۔ پچھلی گلی کا خوف اب غصے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اپنا بیگ صحن میں پڑے تخت پر پھینک کر وہ جوتے اتارتی وہیں بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا؟” ربیعہ نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر کہا۔
”میرا دل چاہتا ہے، میں اس لڑکے کو گولی مار دوں۔” زینب نے بے حد طیش کے عالم میں کہا۔
”وہ پھر آگیا؟” ربیعہ نے بے حد ساختہ پوچھا۔
”ہاں… آج پھر کھڑا تھا۔” زینب کی آنکھوں میں اب آنسو آنے لگے تھے۔
”شکل دیکھی ہے اس نے اپنی۔ ان کے گھر بہنیں نہیں ہوتیں کیا؟”
”دفع کرو… مت ٹینشن لو۔”
”میں تنگ آگئی ہوں۔ روز روز کے اس پیچھا کرنے سے۔ میرا تو کالج جانے کو دل نہیں چاہتا، جب میں اس کی منحوس صورت دیکھتی ہوں۔”
”اچھا ختم کرو بات کو۔ سلمان اندر کمرے میں ہے۔ سن لے گا۔” ربیعہ نے اس سے کہا۔
”جرأت دیکھو خبیث کی۔ آج میرا نام لے رہا تھا۔”
زینب نے مدھم آواز میں دانت پیستے ہوئے بے بسی کے عالم میں کہا۔ وہ ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں کو پونچھ رہی تھی۔
” چپ ہو جاؤ، سلمان آرہا ہے۔” زینب نے اند رکمرے سے آتے سلمان کے قدموں کی چاپ سن لی تھی۔ زینب نے بے حد تیزی سے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور بیگ اٹھا کر سلمان سے نظریں ملائے بغیر کمرے میں چلی گئی۔
سلمان نے پاس سے گزرتی زینب کو حیرانی سے دیکھا۔
”انہیں کیا ہوا؟” اس نے ربیعہ کی طرف اپنی شرٹ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ وہ بٹن لگوانے آیا تھا۔
”کچھ نہیں۔ بس طبیعت خراب ہے۔” ربیعہ نے شرٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے ٹالا۔
”صبح تو ٹھیک تھیں۔” سلمان نے کہا۔ ”تم نے زہرہ آپا کے بارے میں بتایا ہو گا۔”
”نہیں، ابھی نہیں بتایا۔” ربیعہ نے بے حد مدھم آواز میں کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!