من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”اب کیا کرتے وہ؟ جس جس سے قرض مانگ سکتے تھے، مانگ لیا انہوں نے۔ پرجب سے معطل ہوئے ہیں، ہر ایک پیسے دینے سے کترانے لگا ہے۔” نسیم پاس بچھی ہوئی چار پائی پر بیٹھ گئیں۔
”آپ نے ضیا چچا سے بات کی؟”
”ہاں، آج بھی گئے تھے ضیا کے پاس۔ پر اس کا افسر چھٹی پر گیا ہوا ہے۔ اب وہ آئے تو ہی کوئی بات بنے۔ پر کہہ رہا تھا۔ بحال کروا دوں گا۔” نسیم نے پر امید انداز میں کہا۔
”اور یہ افسر کتنے دن چھٹی پر رہے گا؟” شیراز نے تلخی سے کہا۔
”اب افسروں کی چھٹی کا کس کو پتا ہوتا ہے۔ جب چاہے آئے، نہ چاہے تو نہ آئے۔”
”چاہے دوسرا سولی پر لٹکا رہے۔” شیراز کے لہجے میں زہر تھا۔ ”ابو کو بھی پوری دنیا میں سب کچھ چھوڑ کر میٹرریڈر ہی بننا تھا۔”
”اب اتنا پڑھ کر کیا کمشنر لگ جاتے؟” نسیم نے شوہر کی حمایت کی۔
”کمشنر نہ لگتے، کمشنر کے دفتر میں کلرک لگ جاتے ضیا چچا کی طرح میز کرسی والی نوکری تو ہوتی۔”
”ضیا نے کلرک بن کر کون سے تیر مار لیے ہیں؟ تمہارا باپ میٹر ریڈر ضرور ہے مگر تمہارے چچا سے اچھا کھلایا پلایا ہے اس نے اپنی اولاد کو۔ ضیا نے کون سی جاگیریں بنا لی ہیں کلرک بن کر؟” نسیم نے تنقید کرتے ہوئے کہا۔
”جاگیریں کہاں سے بنا لیتے۔ اس خاندان کے سارے مرد بزدل ہیں۔ کچھوے کی طرح اپنے خول میں سکڑے سمٹے بیٹھے رہتے ہیں۔ کسی کو آگے بڑھنا ہی نہیں آتا۔ ایک سے دوسری دوسری سے تیسری نسل کلرکی اور میٹرریڈری کر کے ختم ہو رہی ہے۔ پر مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔ اس محلے میں پیدا ہو کر یہیں مر جائیں گے یہ سب لوگ۔”




شیراز کا انداز بے حد زہریلا تھا۔ وہ ان تمام سوچوں کو رات کے اس پہر اپنی ماں کے سامنے زبان دے رہا تھا جو چوبیس گھنٹے اس کے ذہن میں کلبلاتی رہتی تھیں اور نسیم اس کی زبان سے یہ سب کچھ سننے کی عادی تھیں۔ خاندان کی اکلوتی لائق فائق اولاد ان کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ وہ اس بات پر جتنا غرور کرتیں، کم تھا۔
وہ بچپن سے سرکاری اسکول میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ اسکالر شپ پر پڑھتا رہا تھا۔ پرائمری سے ماسٹرز تک اس نے ہر امتحان میں ٹاپ کیا تھا اور یونیورسٹی میں اکنامکس میں ماسٹرز میں ٹاپ کرنے کے باوجود شیراز اچھی طرح جانتا تھا کہ جاب مارکیٹ اس کے لیے کس قیمت کی کون سی جاب لیے بیٹھی تھی۔ یونیورسٹی میں چند ہزار کی ایک لیکچرر شپ یا کسی آفس میں اسی تنخواہ کی ایک اور میز کرسی والی نوکری جس پر صبح سے شام تک بیٹھ کر فائلوں کے انبار دیکھتے دیکھتے پہلے اس کی آنکھیں جواب دیتیں پھر ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ناکارہ ہونے لگتے مگر اس کی مالی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ وہ رات کے باسی سالن کاٹفن کیرئیر لنچ کے لیے لے کر جاتا اور باقی سارا دن بدمزہ سیاہ چائے کے کپ اپنے اندر انڈیل انڈیل کر اپنے اندر امڈتی بھوک اور خواہشات کے سیلاب کے جھاگ کو بٹھاتا رہتا یا پھر اپنے پاس آنے والے کسی ملاقاتی سے چائے پانی کے نام پر کچھ پیسے لیتا اور فائل پاس ہونے کی خوشی میں کسی سے مٹھائی مانگتا۔
وہ چودہ سال کی عمر سے اپنی زندگی کے اگلے متوقع 54 سال کا ایک ایک دن دیکھتا آرہا تھا۔ اور ہر تصور اس کے جسم میں جھرجھری اور کپکپی دوڑا دیتا۔ اسے زندگی بھیڑ کا حصہ بن کر نہیں گزارنا تھی۔ اسے سب سے آگے ہونا تھا۔ سرپٹ بھاگنا تھا اور بس بھاگتے ہی جانا تھا۔ اتنی رفتار سے کہ اسے اپنے پیچھے کسی کا سایہ تک نظر نہ آئے۔
”رات کے اس وقت کیوں آکر بیٹھ گئے ہو یہاں؟ کل اسلام آباد جانا ہے تمہیں، سفر کرنا ہے۔” اکبر شیراز کے کمرے سے نکل کر باہر صحن میں آگئے تھے۔
”کیا باتیں کرر ہے ہو اس وقت تم دونوں؟” وہ بھی نسیم کے پاس آکر چار پائی پر بیٹھ گئے۔
”یہ پریشان ہو رہا ہے، پیسے نہ ملنے کی وجہ سے۔”
نسیم نے انہیں بتایا۔
”میں صبح ایک دو اور لوگوں سے بھی بات کروں گا تم فکر مت کرو۔” اکبر نے شیراز کو تسلی دی۔
”معطل نہ ہوا ہوتا میں تو دو منٹ میں لوگ پیسے دے دیتے مجھے۔”
”بس حسد کرتے ہیں، لوگ کھاتا نہیں دیکھ سکتے کسی کو۔” نسیم بے اختیار خفگی سے بڑبڑائیں۔
”میں جانتا ہوں، یہ سب میرے اپنے محکمے کے لوگوں کی سازش ہے۔ انہوں نے ہی اس آدمی کو کہہ کر میرے خلاف رشوت کی شکایت کروائی، ورنہ اس آدمی کی کہاں یہ جرأت تھی کہ ایسا کچھ کرتا۔” اکبر اب جیسے اپنی صفائی دے رہے تھے۔
”کون نہیں لیتا رشوت آج کے زمانے میں۔ باقی میٹرریڈر کیا دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ محکمہ والوں کو وہ نظر کیوں نہیں آتے۔ ہر بار آپ کو ہی معطل کر دیتے ہیں۔” نسیم جیسے بلبلائیں۔
”میں کمزور ہوں نا۔ میرے آگے پیچھے کوئی نہیں، اس لیے۔” اکبر نے تلخی سے کہا۔
”کوئی بات نہیں، بس اب بیٹا افسر بننے والا ہے۔ ایک بار میرا بیٹا افسر بن جائے پھر میں دیکھوں گا، کون میرے بارے میں زبان کھولتا ہے۔” اکبر نے یک دم شیراز کو دیکھ کر بڑے فخر یہ انداز میں کہا۔
”میں افسر بن کر سب سے پہلے تو آپ سے یہ جاب چھڑاؤں گا۔ بہتیری ذلت کمائی آپ نے اس کام میں۔ چار پیسوں کے لیے مارے مارے گھر گھر پھرنا۔” شیراز نے بے حد بے زاری سے کہا۔
”ارے تم کیا چھڑاؤ گے، مجھے خود یہ کام نہیں کرنا۔ میں کوئی پاگل ہوں کہ خواہ مخواہ ذلیل ہوتا پھروں۔ پھر تو افسر کا باپ ہوں گا۔ آرام سے گھر بیٹھ کر راج کروں گا۔”
اکبر نے بے حد سرخوشی کے عالم میں کہا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے۔ شیراز اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”میں سونے جارہا ہوں۔ صبح جلدی اٹھنا ہے مجھے۔”
”ہاں ہاں، بیٹا! تو جا… جا کر سو… میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی۔” نسیم نے بے اختیار کہا۔
”تم نے زینب سے پیسوں کی بات کی؟”
شیراز نے اکبر کی بات پر یک دم پلٹ کر انہیں دیکھا۔
٭٭٭
”تمہیں کالج نہیں جانا کیا؟” ربیعہ نے اسے کچن میں مصروف دیکھ کر کہا وہ کالج یونیفارم میں ملبوس تھی۔
”نہیں ۔” زینب نے بڑے اطمینان سے ضیاء کے لیے ٹفن تیار کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟” ربیعہ کچھ حیران ہوئی۔
”خالہ کے پاس جانا ہے مجھے۔” زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”شیراز بھائی سے ملنے؟” ربیعہ نے فوراً اندازہ لگایا۔ ”وہ توکہیں سہ پہر کو اسلام آباد جائیں گے، تم کالج سے آکر ملنے چلی جاتیں۔ کالج سے چھٹی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
ربیعہ کو اعتراض ہوا، وہ خود آج کسی ٹیسٹ کی تیاری کے لیے گھر پر تھی۔
”بس ایسے ہی۔ مجھے کچھ اور بھی کام تھا۔” زینب نے گول مول انداز میں بات کی اور ٹفن اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔ ”ابو کو دے آؤں۔ تم ناشتہ کر لوتب تک ۔ میں نے چپاتیاں بنا دی ہیں۔”
زینب نے اس سے کہا اور اس چھوٹے سے کچن سے باہرنکل گئی۔
”شیراز کتنے بجے جا رہا ہے؟” ضیا نے زینب سے ٹفن لیتے ہوئے کہا۔
”سہ پہر میں۔” زینب نے بتایا۔
”میں پھر اکبر بھائی کی طرف سے ہوتا ہو اجاؤں گا۔” ضیا نے اپنی سائیکل دروازے سے باہر نکالتے ہوئے کہا۔
”اتنی صبح صبح انہیں جگادیں گے ابو! آپ کو پتاہے، وہ ساری رات بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔” زینب نے بے حد تشویش سے کہا۔
”نہیں، اسے جگاؤں گا نہیں۔ اگر اٹھا ہوا ملا تو خدا حافظ کہہ دوں گا اسے، ورنہ اکبر بھائی اور بھابھی سے مل کر چلا جاؤں گا۔”
ضیا نے جیسے اسے تسلی دی۔ وہ اس کی ہر چیز کا کتنا خیال رکھتی تھی، وہ جانتے تھے۔
وہ میٹرک میں تھی جب شیراز کے ساتھ اس کی نسبت طے ہوئی تھی اور اس نسبت میں دونوں خاندانوں کے ساتھ ساتھ شیراز کی پسند کا بہت زیادہ دخل تھا۔ زینب کو شیراز میں دلچسپی اس نسبت کے طے ہونے کے بعد ہوئی تھی۔ وہ اس کا خالہ زاد اور تایا زاد تھا۔ دونوں کے گھر ایک ہی گلی میں تھے اور چوبیس گھنٹوں میں کئی بار وہ ایک دوسرے کے گھر جاتے۔ وہ خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی اور شیراز خاندان کا سب سے ذہین لڑکا۔
ایم اے اکنامکس میں یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے کے بعد اس نے ابھی حال ہی میں سی ایس ایس کا تحریری امتحان کوالیفائی کیا تھا اور اب انٹرویو کے لیے اسلام آباد جا رہا تھا۔
اس امتحان سے پہلے تک ہر ایک کو شیراز کی قسمت پر رشک آتا تھا جسے اچھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی مل رہا تھا اور خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی بھی اس کی بیوی بننے والی تھی لیکن اس امتحان میں کامیابی نے یک دم ہر ایک کو زینب کی قسمت پر رشک کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ مستقبل میں ”افسر” بننے والے خاندان کے پہلے مرد کی بیوی بننے جا رہی تھی۔ اس کا مستقبل اس محلے سے باہر کسی بہت اونچی، بہت اچھی، بہت بہتر جگہ پر نظر آرہا تھا اور جس مرد کا ساتھ اس کو ملنے والا تھا، وہ اس پر جان چھڑکتا تھا۔ زینب کے علاوہ شیراز کو کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس سے بدتر حال زینب کا تھا۔ اور یہ سب کچھ محلے اور خاندان میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
وہ صحن کا دروازہ بند کر کے واپس باورچی خانہ میں آگئی۔ ربیعہ ابھی وہاں بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ زینب نے توا چولہے پر رکھتے ہوئے رات کا پکا ہوا قیمہ نکال لیا اور پراٹھے بنانے لگی۔ ربیعہ نے اس کی ساری سرگرمیوں کو دیکھا پھر کہا۔
”شیراز بھائی کے لیے بنا رہی ہو؟”
”جب تمہیں پتا ہے تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟” زینب نے بڑے انہماک سے پراٹھا بناتے ہوئے اسے دیکھے بغیر کہا۔
ان کے گھر میں مہینے میں ایک بار قیمہ پکتا تھا اور زینب اپنے حصے کا قیمہ نکال کر رکھ دیتی پھر وہ اگلی صبح شیراز کے لیے قیمے والا ایک پراٹھا بنا کر اسے دے آتی۔ یہ روٹین اتنے عرصے سے جاری تھی کہ ربیعہ کو ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ ہاں، اسے یہ ضرور احساس تھا کہ وہ عید قربان کے سوا پورا سال قیمے کے ذائقہ سے ناآشنا ہی رہتی تھی۔ ربیعہ اس کی اس روٹین کو نہیں بدل سکتی تھی۔ یہ وہ جانتی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے حصے کے سالن کو ہمیشہ بانٹنے کی کوشش کی مگر زینب اس پر بھی تیار نہیں تھی۔
”میں اپنا حصہ لے چکی، تمہارا حصہ کیوں لوں؟”




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!