من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

وہ جانتا تھا، اسے اس سے کیا کہنا تھا۔
”جو بھی ہوا، اس کے لیے مجھے افسوس ہے۔ مجھے تمہاری ہر بات پر اعتبار ہے۔ میں اب بھی تم سے پہلے جیسی محبت کرتا ہوں۔ آؤ، میرے گھر والے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔”
بس میں بیٹھے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے اس نے اپنے جملوں کو ترتیب دے لیا تھا۔ بہترین لفظوں میں معذرت… مناسب ترین لفظوں میں اظہارِ اعتماد… خوبصورت ترین لفظوں میں اظہار ِمحبت اور بہت ڈرامائی ترین لفظوں میں اسے واپس اپنے گھر تک لے جانا۔
بس کے اندر سیٹوں پر بیٹھے لوگ کیا کررہے تھے۔ اور باہر سڑک پر کیا ہو رہا تھا، وہ مکمل طور پر اس سے بے خبر تھا۔
اس نے آج تک زندگی میں جتنے لفظ پڑھے یا سنے تھے، وہ ان میں سے بہترین لفظوں کا انتخاب چاہ رہا تھا جو ایک گھنٹہ پہلے اس کے گھر میں اس سے کہے گئے لفظوں کی بدصورتی، بھیانک پن اور اذیت کو کم کر سکیں۔
”یہ بہت مشکل کام ہے۔” اس نے اعتراف کیا۔
”ایک ملین ڈالر بنانا آسان ہے، بے حد آسان … مگر زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کی اذیت کو مدھم کرنا یا مٹا دینا بے حد مشکل ہے۔”
بس نے یک دم بریک لگائے، وہ چونک کر اپنی سوچوں سے باہر نکل آیا۔ اس کا مطلوبہ اسٹاپ آچکا تھا۔ وہ اتنی بار اس کے ساتھ اس روٹ پر سفر کر چکا تھا کہ آنکھیں بند کر کے بھی اس راستہ پر اس کے گھر پہنچ جاتا۔
بس کا دروازہ کھلتے ہی اس نے بے اختیار جھرجھری لی اور پھر اسے یاد آیا وہ اپنا لانگ کوٹ جلدی میں گھر پر ہی بھول آیا تھا۔ بس سے نیچے اترتے ہوئے اس نے ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈال لیے۔ موسم کی پہلی برف باری ہو چکی تھی۔ اگرچہ وہ بہت مختصر وقت کے لیے ہوئی تھی مگر محکمہ موسمیات نے اگلے چند گھنٹوں میں مزید اور طویل برف باری کی پیش گوئی کی تھی۔
فٹ پاتھ پر برف کی بے حد ہلکی اور معمولی سی تہہ نظر آرہی تھی جس نے فی الحال لوگوں کی زندگیوں کو مفلوج کرنا اور انہیں عمارتوں کے اندر رکنے پر مجبور کرنا شروع نہیں کیا تھا۔




وہ فٹ پاتھ بھی اس کے لیے شناسا تھا۔ اس کے گھر تک وہ دونوں اتنی بار اس پر چلتے رہے تھے کہ اس فٹ پاتھ پر بیٹھے پانچ بھکاری تک ان کے شناسا بن گئے تھے۔ وہ اب باقاعدہ بھیک لیتے ہوئے ان سے مسکراہٹوں اور greetings کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ اسے شک تھا، وہ ان دونوں کا نام بھی جانتے تھے اور نام نہیں تو کم از کم یہ تو ضرور جانتے تھے کہ وہ پاکستانی ہیں، انڈین نہیں۔ اور ان دونوں کا رشتہ…؟ شاید اس کے بارے میں بھی انہیں اندازہ تھا۔
اس کا پاؤں یک دم پھسلا، سوچوں سے واپس آتے ہوئے اس نے بے اختیار خود کو سنبھالا۔ کنکریٹ کے اس فٹ پاتھ پر وہ گرتا تو اسے کتنی بری چوٹ آسکتی تھی۔ وہ ہر بار اس فٹ پاتھ پر اسی جگہ پھسل جاتا تھا۔ ہر بار وہ ساتھ چلتے ہوئے اسے بے اختیار پکڑ کر سہارا دیتی۔ شروع میں وہ اس پر ہنستی اور وہ شرمندہ ہوتا۔ جب اس کا یہ پھسلنا معمول بننے لگا تو وہ ناراض ہونے لگی اور وہ مزید شرمندہ… اور اب کچھ عرصے سے وہ فٹ پاتھ پر مخصوص جگہ آنے سے پہلے ہی اس سے کہنا شروع کر دیتی۔
”پھسلنے والی جگہ آنے لگی ہے، اب دھیان سے پاؤں رکھنا۔”
وہ بے حد محتاط ہونے اور اس کی اس تنبیہہ کے باوجود وہاں کئی بار پھسلا تھا اور وہ بے اختیار اس کو سہارا دیتے ہوئے کہتی۔
”مجھے لگتا ہے، تم اس لیے یہاں پھسلتے ہوتاکہ میرا ہاتھ پکڑ سکو۔”
”تمہارا ہاتھ پکڑنے کے لیے مجھے پھسلنے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ جھنجلا کر کہتا۔ وہ رک جاتی اور اس سے چند قدم دور ہو کر بے حد تیکھے انداز میں اس سے کہتی۔
”اچھا…؟ تمہارا کیا خیال ہے۔ بغیر وجہ کے اتنی آسانی سے ہاتھ پکڑا دوں گی تمہیں؟”
”میں ہاتھ پکڑانے کی بات نہیں کر رہا، ہاتھ پکڑنے کی بات کر رہا ہوں۔” وہ کچھ اور جھنجلاتا۔
”اتنی ہمت ہے؟ ذر اپکڑ کے تو دکھاؤ۔”
وہ بے حد ناراضگی کے عالم میں ا پنے دونوں ہاتھ اپنے عقب میں کر کے اس کو چیلنج کرتی۔ وہ چند لمحے اس کو گھورتا۔ وہ جانتی تھی، وہ اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کرے گا اور اسے بھی پتا تھا کہ وہ یہ بات جانتی ہے۔ دو منٹ کی اس لڑائی کے بعد دونوں ہمیشہ کی طرح ساتھ ساتھ چلنے لگتے۔
اس کے پچھتاوے میں کچھ مزید اضافہ ہوا۔ جیب سے سیل فون نکال کر اس نے ایک بار پھر اس کو کال کرنے کی کوشش کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس کی کال ریسیو نہیں کرے گی۔ وہ راستے میں پندرہ دفعہ اسے کال کر چکا تھا۔ ہر بار بیل ہوتی رہی تھی۔
سولہویں بار پھر اس نے کسی موہوم سی امید کے تحت کال ملائی۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس نے آج ایک دوسری جگہ سے ٹھوکر کھائی تھی۔ سیل فون کان سے لگائے بے یقینی کے عالم میں اس کے قدم رک گئے۔ دوسری طرف بیل ہو رہی تھی اور پہلے کی طرح کسی نے کال ریسیو نہیں کی تھی۔ اس کے پیروں کو روک دینے والی یہ چیز نہیں تھی بلکہ اس کے سیل فون کی رنگ ٹون تھی جو اس کے آس پاس کہیں بج رہی تھی۔
If tomorrow never comes کی وہ رنگ ٹون اس سیل فون میں اس کی منتخب کردہ تھی۔ بیل جس تواتر سے ہو رہی تھی، وہ رنگ ٹون اسی تواتر سے گونج رہی تھی۔
اس نے کال ختم کر دی۔ وہ جان گیا تھا، فون کہاں ہو سکتا تھا مگر وہاں کیوں تھا؟
وہ چند قدم آگے بڑھ کر ایک سیکنڈ میں اس فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے پانچ بھکاریوں میں سے پہلے کے پاس پہنچ گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے سیل فون اپنے ہاتھ میں بلند کیے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کے سامنے کھڑا اس قیمتی سیل فون کو دیکھ رہا تھا۔ یہ سیل فون چند ہفتے پہلے ہی اس نے اسے گفٹ کیا تھا۔ وہ جانتا تھا، اس سیل فون کی میموری میں محفوظ واحد نام اور کانٹکٹ نمبر اس کا تھا۔
”واحد تمہارا نام ہے جسے دیکھ کر مجھے کچھ ”محسوس” ہوتا ہے، باقی ہر نام کے ساتھ صرف ”یادیں” جڑی ہیں اور میں ان یادوں سے فرار چاہتی ہوں۔ تمہارا نام کافی ہے میرے لیے۔” اس نے سیل فون میں اس کا نام محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اسے یقین تھا، اس سیل فون میں اور کسی کا نام نہیں تھا۔ اس کی فون بک اس کے نام سے شروع ہو کر اسی کے نام پر ختم ہو جاتی تھی۔
اور اب وہ قیمتی فون سڑک پر بیٹھے اس بوڑھے بھکاری کے ہاتھ میں تھا جوہر روز وہاں بیٹھا تاش کے پتوں سے مختلف چیزیں بناتا رہتا تھا یا اکیلا بیٹھا تاش کھیلتا رہتا۔ آج وہ تاش کھیل رہا تھا۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ وہ تاش کے پتے کھڑے نہیں کر سکتا تھا، وہ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے کئی بار اس کے پاس بیٹھ کر تاش کھیلنا شروع کر دیتی اور وہ احمقوں کی طرح فٹ پاتھ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اس کو یکے بعد دیگرے بازی پر بازی ہارتے دیکھتا رہتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر وہ آخری لمحوں میں بازی ہار جاتی تھی۔ بہت دفعہ اس کا جی چاہتا، وہ اسے ٹوک کر کی جانے والی غلطی کے بارے میں بتا دے۔ اگرچہ یہ غلط ہوتا پھر بھی وہ اس کو اتنی بری طرح ہارتے نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن وہ اسے زبان سے کچھ نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ وہ بوڑھا بھکاری برا مان جاتا اور کسی اشارے کی مدد سے بھی نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ وہ تاش کھیلتے ہوئے ایک بار بھی سر نہیں اٹھاتی تھی۔ کسی مدد، کسی داد، کسی آس سے اس کی طرف نہیں دیکھتی تھی۔ سرجھکائے وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی تاش کھیلتی پھر آخری بازی کے بعد ایک گہرا سانس لے کر مسکراتی اور بوڑھے کو دیکھتی جو فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا ہوتا پھر وہ جیب سے چند ڈالر نکالتی اور اس کے ڈبے میں ڈال کر اٹھ کھڑی ہوتی۔
”میں اچھا کھیلی نا؟” وہ ساتھ چلتے اس سے پوچھتی۔
”ہاں۔” وہ مختصراً کہتا۔
”لیکن ہار گئی۔”
وہ جانتا تھا، وہ اس جملے میں کیا کہہ رہی تھی۔
”معمولی غلطی سے۔” اسے بھی پتا تھا کہ وہ ان تین لفظوں میں اسے کیا جتا رہا تھا۔
وہ ایک دوسرے کو دیکھتے، چند لمحوں کے لیے سر جھٹکتے۔ گہری نظروں کا تبادلہ کرتے، نظریں چراتے پھر قدم بڑھا دیتے۔
”She gave it to me” (یہ اس نے مجھے دے دیا۔) بوڑھے بھکاری کی آواز نے اسے یک دم چونکا دیا۔ وہ جھریوں بھرے چہرے پر پیلے دانتوں کی نمائش کرتا اسے دیکھ رہا تھا۔
اس نے اپنے جسم میں کپکپاہٹ محسوس کی۔ یہ سردی نہیں تھی، کچھ ”اور” تھا۔ وہ اس کے دیے ہوئے تحفے کو فٹ پاتھ پر بیٹھے بھکاری کو کیسے تھما سکتی تھی؟
اس نے بے یقینی اور شاک کے عالم میں قدم آگے بڑھائے۔ کچھ دور آگے گٹار بجاتے ہوئے اگلے سیاہ فام بھکاری نے مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔
وہ دونوں ہمیشہ وہاں کھڑے ہو کر کچھ دیر خاموشی سے اس کے گٹار کو سنا کرتے تھے پھر جیسے بجائی جانے والی دھن پہچاننے کی کوشش کرتے اور اکثر اس میں کامیاب ہو جاتے۔ پھر وہ اس سیاہ فام کو کوئی دوسری دھن بجانے کے لیے کہتے۔ ایک دفعہ پھر اسے پہچاننے میں لگ جاتے۔
اس سیاہ فام کی انگلیاں آج بھی بڑی تیزی سے گٹار بجا رہی تھیں مگر وہ آج وہاں کسی دھن کو بوجھنے نہیں آیا تھا، وہ اس کے ڈبے میں پڑے سکوں اور نوٹوں میں اس چیز کو دیکھنے آیا تھا جو وہاں وہ پھینک کر گئی تھی اور وہ چیز سامنے ہی پڑی تھی۔ Gucci کی وہ گھڑی جو اس نے اس کی پچھلی سالگرہ پر دی تھی۔
”تم اسے پہنو گی تو وقت قیمتی ہو جائے گا۔”
وہ گھڑی کا کیس ہاتھ میں پکڑے اس پر ایک نظر ڈال کر مسکرائی۔ ”کس کا وقت؟ میرا یا تمہارا؟”
”تمہارا۔” وہ بھی مسکرایا۔
”لیکن میرے پاس تو وقت ہے ہی نہیں۔” اس نے لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پتا ہے، میں نے زندگی میں کبھی ریسٹ واچ نہیں پہنی۔”
”کیوں؟” اس نے دلچسپی لی۔
”مجھے وقت کو کلائی پر باندھنے کی بجائے مٹھی میں قید رکھنا زیادہ آسان لگتا ہے۔”
اس نے عجیب سے لہجے میں اس کی دی ہوئی بیش قیمت گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!