من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”بہت اچھی بات ہے۔ ڈرا کرو۔ ساری عمر بس ڈر ڈر کر گزار دینا لوئر مڈل کلاس ذہنیت ہے تمہاری۔”
وہ اس کی بات پر ناراض ہو گیا۔
”تمہارے سامنے میرے ماں باپ میری بہنوں کے لیے رشتے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اللہ پر ہی بھروسا کر کے ڈھونڈ رہے ہیں تو کیا ہوا اب تک؟ کوئی نتیجہ نکلا نہیں۔ جو آتا ہے، وہ لڑکی کی بات نہیں کرتا۔ باپ اور بھائی کے کام اور آمدنی کی تفصیل پوچھنے بیٹھ جاتا ہے۔ تمہیں میں مل گیا نہ ملتا اور تمہیں میر ی بہن کی طر ح دو دو ٹکے کے لوگوں کے سامنے آکر بیٹھنا پڑتا تو پھر میں تم سے پوچھتا کہ اللہ پر کتنا بھروسا ہے تمہیں۔”
وہ اب بے حد تلخ ہو گیا تھا۔ زینب نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ جانتی تھی وہ نزہت کی شادی کے مسئلے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔
”میں نعیم کی بات کر رہی تھی۔ انہیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ زہرہ آپا کا اس میں کوئی قصور نہیں۔”
زینب نے جان بوجھ کر موضوع بدلا۔
”نعیم بھائی اور پھوپھو کو زہرہ پر غصہ نہیں، چچا پر غصہ ہے۔” شیراز نے صاف اور دو ٹوک انداز میں کہا۔
”ابو پر کیوں؟ ابو نے کیا کیا ہے؟” زینب ہکا بکا اسے دیکھنے لگی۔
”انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ یہی تو سارا مسئلہ ہے۔ ان کی جگہ کوئی اور انکم ٹیکس میں کلرک ہوتا تو لاکھوں میں کھیل رہا ہوتا۔ زہرہ کو جہیز میں سب کچھ دیا ہوتا تو اتنے گِلے تو نہ ہوتے نعیم بھائی کو چچا سے۔ مگر چچا کو کیا، انہیں تو بس اپنی ایمان داری سے مطلب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں، لوگ بڑی تعریفیں کرتے ہوں گے ان کی۔ حالانکہ ان کے محکمہ کے لوگ ان کو بے وقوف سمجھتے ہوں گے۔” شیراز بے حد تلخی سے کہہ رہا تھا۔ ”میرا باپ تو چلو میٹرریڈر تھا۔ پھر بھی جتنے مواقع ملے، انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ تم لوگوں سے بہتر ہے گھر ہمارا۔ بہتر سامان ہے یہاں پر، ابو نے بہنوں کے لیے بھی تھوڑا بہت جمع کر ہی لیا ہے۔ لیکن چچا نے کون سے تیر مار لیے ہیں؟”
”وہ اوور ٹائم کرتے ہیں، جتنی محنت کر سکتے ہیں وہ۔۔۔۔”
زینب نے باپ کی صفائی دینے کی کوشش کی۔
شیراز نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”میں اوور ٹائم کی بات نہیں کر رہا، اور نہ ہی یہاں پر محنت کی بات ہو رہی ہے۔ دس روپے کے لیے خون پسینہ بہانے کو میں بے وقوفی سمجھتا ہوں، محنت نہیں۔ چچا آخر پیسہ کیوں نہیں بناتے؟ بنائیں پیسہ، یا تو یہ ہو کہ انسان کے پاس موقع نہ ہو۔ انکم ٹیکس کے کلرک اور حالت یہ ہے کہ سائیکل پر دفتر آتے ہیں۔ کوئی اور آتا ہے ان کے دفتر میں سائیکل پر؟”




”شیراز! آپ ابو کے بارے میں اس طرح کی باتیں مت کریں۔” زینب کا دل بری طرح دکھا۔
”تم باپ کی حمایت بند کرو۔” شیراز نے اسے ڈانٹا۔ ”تمہاری بات کبھی نہیں ٹالتے چچا۔ تم اگر ان سے یہ سب کہتیں تو وہ ضرور مانتے لیکن تم نے کبھی انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔”
وہ اب زینب کے بھی لتّے لے رہا تھا۔
”میں کیا کہتی ان سے کہ وہ رشوت لیا کریں؟” زینب نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں، ٹھیک ہے۔ا یسے ہی کہہ دیتیں ان سے۔ مگر کچھ کہتیں تو۔ گھر میں پیسہ آتا تو تمہیں فرق پتا چلتا۔”
”پر شیراز! ہمیں کیا کرنا ہے پیسے کا۔ ہمارے پاس تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔”
زینب نے بے حد سادگی سے کہا۔ شیراز کا جی چاہا، وہ اپنا سر پکڑ لے۔
”تمہارے پاس ”سب کچھ” کیا ”کچھ بھی” نہیں ہے۔ اس بار ڈیفنس میں رمشہ کے گھر جاؤ تو آنکھیں کھول کر دیکھنا کہ ”سب کچھ” کس کو کہتے ہیں۔”
”میں دوسروں کی قسمتوں اور ان کی چیزوں کو نہیں دیکھتی۔”
زینب نے بے اختیار برا مان کر کہا۔
”میں دیکھتا ہوں۔ اور آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں اور تم دیکھنا، ایک دن سب کچھ ہو گا میرے پاس، میں تمہارے ابا کی طرح ماتھے پر خالی نماز کا نشان لے کر نہیں پھروں گا۔”
زینب بے حد دل گرفتہ سی اسے دیکھتی رہی۔ وہ یہاں دل کا بوجھ ہلکا کرنے آئی تھی۔ مگر بوجھ اور بڑھ گیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ شیراز آج کل تایا کے معطل ہونے کی وجہ سے بے حد پریشان تھا۔ اس کی چند ٹیوشنز بھی ختم ہو گئی تھیں اور پریشانی کے دنوں میں وہ بے حد تلخ ہوجاتا، پھر اسی طرح کی چبھتی ہوئی باتیں کرتا، مگر آج اس کی باتیں پہلے کی نسبت زیادہ تلخ تھیں یا پھر وہ جس ذہنی حالت میں تھی، اسے یہ باتیں زیادہ محسوس ہوئی تھیں۔
مزید کچھ کہے بغیر وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”اب ناراض ہو گئی ہو؟” شیراز کو ہمیشہ کی طرح بات کہہ دینے کے بعد خیال آیا۔
”نہیں… میں کیوں ناراض ہوں گی۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔”
وہ کہتے ہوئے اس سے نظریں چرا کر باہر نکل آئی۔ شیراز نے اسے آواز دے کر روکا نہیں۔
٭٭٭

”زہرہ کیسی ہے؟” ضیا کو رات گھر آنے پر زہرہ کی بیٹی کے بارے میں پتا چلا تھا۔ وہ اگر پریشان یا مایوس ہوئے بھی تھے تو انہوں نے اپنے چہرے سے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
وہ کھانا کھانے بیٹھے تھے۔ جب نفیسہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
”کیسی ہو گی؟ رو رو کر حالت خراب کر لی تھی اس نے۔ ” نفیسہ نے گلو گیر لہجے میں کہا۔
”تم نے تسلی دینی تھی اسے۔” ضیا نے کھانا کھاتے کھاتے ہاتھ روک لیا۔
”کس بات کی تسلی؟ پہلی بیٹی پر تسلی۔ دوسری پر تسلی۔ اب تیسری پر تو۔۔۔۔”
ضیاء نے ناگواری سے نفیسہ کی بات کاٹ دی۔
”تمہاری ان ہی باتوں کی وجہ سے بچیاں پریشان ہوتی ہیں۔ ربیعہ اور زینی دونوں کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ بیٹی ہے تو کیا…؟ اتنا کم ہے کہ صحت مند اولاد ہے؟ تمہیں تو مبارک باد دینا چاہیے تھی زہرہ کو۔”
”اب میں آپ کی طرح بیٹیوں کی پیدائش پر مبارکبادیں دے کر مذاق نہیں بنوا سکتی اپنا۔” نفیسہ نے بے حد ناراض ہو کر کہا۔
”ہم خود تین بیٹیوں کے والدین ہیں نفیسہ۔” ضیاء نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اس آزمائش سے گزری ہوں۔ اسی لیے تو اس اذیت کو جانتی ہوں۔ کس کس کی باتیں نہیں سنیں میں نے تین بیٹیوں پر۔ وہ تو بس اللہ کا شکر ہے کہ آپ جیسا شوہر تھا۔ نعیم جیسا ہوتا تو مر گئی ہوتی اب تک میں۔” نفیسہ نے بے اختیار کہا۔
”تمہیں اللہ کے رسول حضرت محمد ۖ کی حدیث یاد ہے نا کہ جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی پرورش کر کے بیاہ دے تو قیامت کے دن وہ میرے اس طرح قریب ہو گا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔”
ضیا نے بڑی رسانیت سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر نفیسہ نے بے حد تلخی سے ان کی بات کاٹ دی۔
”یہ دنیا ہے ضیا صاحب! یہاںلوگ قرآن ہاتھ میں لے کر ماتھے اور سینے سے چاہے لگاتے ہوں۔ حضورۖ کا نام سننے پر انگلیاں ہونٹوں سے لگا کر چاہے چومتے ہوں، مگر کرتے وہی ہیں جو ان کی اپنی مرضی اور خواہش ہوتی ہے۔ کس نے نہیں سنی ہو گی یہ حدیث ، کس نے نہیں پڑھا ہو گا قرآن۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے ضیا صاحب! یہاں لوگ قرآن پر کٹ مرتے ہیں، مگر قرآن کے مطابق جیتا کوئی نہیں۔”
”جہالت ہے نفیسہ، کیا بیٹے کیا بیٹیاں، سب نے یہیں ختم ہو جانا ہے۔ اگلی دنیا میں آدمی اپنے اعمال لے کر جائے گا۔ بیٹے لے کر جائے گا کیا؟” ضیا نے کہا۔
”بیٹوں سے نسل چلتی ہے۔ اور مجھے کیا سمجھا رہے ہیں۔ اپنی بہن اور بھانجے کو جا کر بتائیں یہ ساری باتیں۔”
”جاؤں گا میں صبح نعیم کی طرف۔ سمجھاؤں گا اسے بھی اور آپا کو بھی۔”ضیاء نے دوبارہ کھانا شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اللہ کا شکر ہے۔ زہرہ جیسی قسمت میری زینی کی نہیں ہے۔ اس کے سسرال والے قدر کرنے والے لوگ ہیں ورنہ میں تو مر ہی جاتی۔ اور آپ نے اکبر بھائی کے معاملے میں کیا کیا؟” نفیسہ کوبات کرتے کرتے یاد آیا۔
”ایک دو دن میں میرا افسر آجائے گا تو بات کروں گا ان سے، پر نفیسہ مجھے تو اب بہت شرم آتی ہے بار بار سفارشیں کرواتے ہوئے… پچھلی بار معطل ہونے پر بھی میں نے اکبر بھائی سے کہا تھا کہ اب رشوت نہ لیں۔ لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی میری۔ اب تو میرا دل بھی نہیں چاہتا ان کی سفارش کرنے کو۔” ضیا نے بے حد ناگواری سے کہا۔
”ضیا صاحب! آپ کے صرف بڑے بھائی نہیں ہیں وہ۔ آپ کی بیٹی کے سسر بھی ہیں۔ ابھی تو بھائی بن کر مدد مانگ رہے ہیں آپ سے۔ اگر دوسرے رشتہ کا خیال آگیا انہیں تو آپ کی یہ شرافت بیٹی کے لیے مسئلہ بنا دے گی۔” نفیسہ نے جیسے تنبیہہ کی۔
”جانتا ہوں، زینب کی وجہ سے ہی کر رہا ہوں یہ سب کچھ۔ ورنہ تو میں کبھی سفارش نہ کرتا ان کی۔ شیراز کا رزلٹ آجائے اور وہ نوکری پر لگ جائے تو میں تو اکبر بھائی سے کہوں گا کہ وہ ویسے ہی نوکری چھوڑ دیں۔ تب اگر معطل ہوئے تو شیراز بے چارے کے لیے بھی کتنی بدنامی ہو گی۔” انہوں نے گہرا سانس لے کر کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!