من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

دائیں ہاتھ سے تسبیح کے دانوں کو گراتی وہ اپنی گود میں رکھے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتی رہی۔ بہت ہلکی سی اس سونے کی انگوٹھی میں ایک بہت ہی معمولی قسم کا فیروزی پتھر لگا ہوا تھا۔ اس انگوٹھی کا ڈیزائن اور اس میں نظر آنے والی خامیاں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی بہت چھوٹے جیولر کی دکان سے خریدی گئی تھی۔ کوئی بھی نفاست پسند اور حسن پرست لڑکی کسی جیولر کی دکان پراس انگوٹھی پر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہ کرتی مگر یہ صرف زینب تھی جو گھنٹوں اس انگوٹھی کو اسی محبت بھرے انداز میں دیکھ سکتی تھی۔ اس پر ڈالنے والی ہر نظر اسے کسی کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دلاتی تھی۔ کسی کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے لے آتی تھی۔
وہ رات کے اس پچھلے پہر تہجد کے بعد صحن میں بچھائے مصلے پر بیٹھی دائیں ہاتھ میں تسبیح لیے اور اس انگوٹھی پر نظریں جمائے بہت کچھ پڑھا کرتی تھی۔ وہ مصلے پر جیسے دو ہاتھوں میں دونوں دنیائیں لیے بیٹھی ہوئی تھی۔
رات کے اس پہر ہر طرف خاموشی تھی، اس مختصر صحن کے بیچوں بیچ مصلے پر بیٹھے اس نے تسبیح کا آخری دانہ گراتے ہوئے سجدے میں جا کر سب سے پہلے اسی کے لیے دعا کی جس کے لیے وہ ہمیشہ کرتی تھی۔
دعا کے بعد بھی وہ اگلے دس پندرہ منٹ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے دائیں گھٹنے پر ٹھوڑی ٹکائے وہیں پر بیٹھی رہی۔ یہ بھی اس کا معمول تھا۔ وہ اس وقت وہاں بیٹھ کر فضا میں پھیلے ہوئے سکون کو جیسے اپنے اندر اتاراکرتی تھی۔ ہوا میں اب خنکی آگئی تھی۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اس نے بیٹھے بیٹھے اپنی سیاہ چادر کو اپنے پیروں پر پھیلا لیا۔ اس کے سرد ہوتے ہوئے پیروں کو ہلکی سی حرارت ملی۔
تب ہی اس نے گھر کے دو کمروں میں سے ایک کے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ وہ مصلے کا کونہ پلٹتے ہوئے مصّلے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”موسم بدل رہا ہے زینی، اب اندر کمرے میں تہجد پڑھا کرو۔” ضیا نے باہر نکلتے ہی اسے دیکھا تو ہلکی سی فکر مندی کے ساتھ کہا۔
”کچھ نہیں ہوتا ابو! آپ بھی تو پڑھتے ہیں۔” اس نے باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”مجھے تو تیس سال سے عادت ہے بیٹا! سردی گرمی مجھ پر اثر نہیں کرتی۔”




انہوں نے اپنی بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کی اولاد میں دوسرے نمبر پر تھی اور ان کے دل کے قریب ترین تھی۔
”مجھے بھی کچھ نہیں ہوتا ابو! سردی گرمی مجھ پر بھی اثر نہیں کرتی۔” زینی باورچی خانے کا چولہا جلاتے ہوئے بولی۔ ضیا اس کی بات پر ہلکا سا ہنس کرباتھ روم کی طرف چلے گئے۔ ہر موسم میں آنے والی ذرا سی تبدلی پر اس گھر میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بیمار ہونے والی وہی ہوتی تھی۔
وہ جب تک باتھ روم سے باہر صحن میں لگے نلکے کے پاس آئے وہ ایک برتن میں نیم گرم پانی اور تولیہ لے کر ان کو وضو کروانے آگئی تھی۔ ہر روز رات کے اس پہر اس گھر میں صرف وہی دونوں باپ بیٹی جاگ رہے ہوتے تھے۔ وہ تہجد کے لیے باپ سے پہلے بیدار ہوتی تھی۔ ضیا کچھ دیر سے تہجد پڑھتے اور پھر فجر تک صحن میں بیٹھے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے جبکہ وہ تہجد پڑھ کر دوبارہ جا کر سو جاتی مگر آج وہ اندر کمرے میں نہیں گئی بلکہ صحن کے تخت پر بیٹھی باپ کو تہجد کی نماز پڑھتے دیکھتی رہی۔
ضیانے نماز کے دوران صحن میں اس کی موجودگی کو محسوس کر لیا تھا۔ مگر وہ ان کے عقب میں تھی انہوں نے ٫پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
نماز ختم کر کے سلام پھیرتے ہی وہ ان کے پاس آکر فرش پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی۔
”کیا بات ہے زینی؟ آج سوئیں کیوں نہیں جا کر؟” ضیا نے قدرے تشویش سے کہا۔
”آپ شیراز کے لیے دعا کریں ابو! وہ آج اسلام آباد جا رہے ہیں۔” اس نے باپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
”اس کے لیے دعا کروانے کی خاطر اتنی دیر سے بیٹھی ہوئی تھیں؟” ضیا بے اختیار مسکرا دیے۔
”جی۔” وہ بھی مسکرا دی۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کرم کرے گا۔” ضیا نے بڑے پیار کے ساتھ اس کا سر تھپتھپایا۔
”آپ دعا کریں گے تو اللہ زیادہ کرم کرے گا۔”
اس نے بے ساختہ کہا۔
”کیوں دعا نہیں کروں گا میں، تم جا کر سو جاؤ۔ میں خاص دعا کروں گا اس کے لیے کہ اللہ اسے انٹرویو میں کامیابی عطا فرمائے۔” انہوں نے زینی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”میں آپ کے پاس بیٹھتی ہوں۔ آپ دعا کر لیں۔”
ضیاء نے اس بار اس سے کچھ نہیں کہا بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھا دیے۔ پانچ منٹ کے بعد جب انہوں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے کیے تو وہ تب بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں نے بہت دعا کی ہے اس کے لیے بھی اور اپنی زینی کے اچھے نصیب کے لیے بھی۔” ضیا نے اپنی بیٹی کے چہرے پر پھونک مارتے ہوئے کہا۔
”ان کا نصیب اچھا ہو گا تو میرا تو خود بخود ہی اچھا ہو جائے گا۔” وہ اطمینان سے کہتے ہوئے ان کے پاس سے اٹھ گئی۔
”آپ کو قرآن پاک لا دوں؟”
”ہاں۔” وہ چند لمحوں میں قرآن پاک لاکر انہیں تھما گئی۔ ضیا قرآن پاک ہاتھ میں پکڑے اسے اندر جاتے دیکھتے رہے۔ وہ واقعی ان کی آنکھوں کا نور تھی۔ وہ جس دن زینی کو نہ دیکھتے، انہیں لگتا جیسے سورج طلوع نہیں ہوا۔ انہیں چاروں بچوں سے پیار تھا مگر زینی میں جیسے ان کی جان تھی۔ وہ دو سال کی عمر سے ان کے گھر آنے پر ان کے لیے پانی کا گلاس لا رہی تھی اور ضیا نے پچھلے اٹھارہ سال سے زینی کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ سے پانی نہیں پیا تھا۔ زینی کے علاوہ کبھی کوئی اور بیٹی یا بیوی ان کو پانی لا کر دیتی تو وہ گلاس پکڑ کر اسی طرح رکھ دیتے۔ خود زینب کو بھی باپ کے ساتھ چپکے رہنے کی عادت تھی۔ ضیا گھر میں کوئی چیز لانے پر اس کا حصہ تو اسے دیتے ہی تھے مگر اپنے حصے میں سے بھی اسے حصہ دیتے تھے۔ ان کی جیب میں ہر روز نکلنے والا کوئی سکہ بھی زینب ہی کی ملکیت بنتا تھا۔ اور یہ سکہ اس جیب خرچ کے علاوہ ہوتا تھا، جو وہ ہر روز دوسرے بچوں کی طرح اسے دیا کرتے تھے۔
آفس میں اوور ٹائم سے ملنے والی رقم بھی وہ زینی کے بڑا ہونے پر اسی کے پاس بچت کے طور پر رکھوانے لگے تھے۔ زینب نے ہمیشہ ان پیسوں کو بڑی ایمان داری کے ساتھ رکھا تھا۔ وہ باپ کی قلیل آمدنی اور اپنے حالات سے بخوبی واقف تھی۔
ضیا انکم ٹیکس میں کلرک تھے، ان کی جگہ کوئی دوسرا کلرک ہوتا تو وہ اس وقت متوسط طبقہ کے اس محلے کے اس دو کمروں پر مشتمل چار مرلے کے گھر کے بجائے کسی بہتر علاقے میں جدید سہولتوں سے آراستہ کسی بڑے گھر میں بیٹھا ہوتا مگر ضیا اپنی تنخواہ کے چند ہزار پر ہی قانع تھے اور صرف قانع نہیں تھے، وہ رزق حلال کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ آفس میں ان کے دوسرے ساتھی ان کے پیٹھ پیچھے اس فخر پر بے شک مذاق اڑاتے ہوں مگر ان کے سامنے کوئی انہیں رزق حرام کی ترغیب دینے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لوگ ان سے ڈرتے نہیں تھے، ان کی عزت کرتے تھے۔
اور ان کے باقی بچوں کی طرح زینب کو بھی اس رزق حلال پر فخر تھا۔ اس نے باپ سے ”شکر” وراثت میں پایا تھا۔ باپ ”مذہبی” نہیں تھا ”دین دار” تھا۔ اور زینب نے چیزوں پر ”لیکچر” نہیں سنے تھے، اس نے ماں باپ کو ”عمل” کرتے دیکھا تھا اور اس ”کرنے ” نے اسے اور اس کے بہن بھائیوں کو ہر چیز بہت واضح طور پر سکھا دی تھی۔
٭٭٭
اس نے کتاب بند کر کے بے اختیار جماہی لی، وال کلاک پر رات کے ڈھائی بجنے والے تھے۔ اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے اس نے کتاب میز پر رکھ دی۔ کچھ دیر بے مقصد کرسی پر بیٹھا وہ اسٹڈی ٹیبل پر جلنے والے لیمپ کے بلب کو دیکھتا رہا پھر اپنے بالوں میں بائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیرنے لگا۔ وہ مضطرب انداز میں گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
کچھ دیر وہ اسی طرح بیٹھا رہا پھر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ چھوٹے سے اس کمرے میں ایک چار پائی پر اس کا باپ گہری نیند میں خراّٹے لے رہا تھا۔ دوسری چار پائی خالی تھی۔
وہ کمرے میں ایک کونے میں رکھی الماری کے پاس گیا اور اس نے الماری کے اوپر پڑا ایک سفری بیگ اتار لیا۔ الماری کا دروازہ کھول کر اس نے اندر سے دو شرٹس اور ٹراؤزر نکال لیں۔ کچھ دیر وہ تنقیدی نظروں سے ان کپڑوں کو جانچتا رہا پھر ہلکی سی خفگی اور مایوسی کے عالم میں اس نے ان کپڑوں کو بیگ میں ڈال لیا۔
الماری کے اندر سے ایک ٹائی اور موزے نکال کر بھی اس نے اسی بیگ میں ڈال دیے۔ بیگ کی زپ کو بند کرتے ہوئے اس نے دوبارہ الماری کے اوپر رکھا اور چار پائی کے نیچے پڑا بوٹوں کا ایک جوڑا نکال کر ہاتھ میں لے لیا پھر اسٹڈی ٹیبل پر پڑا سگریٹ کا پیکٹ اور ماچس اٹھائی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر صحن میں آگیا۔
بوٹوں کو صحن میں پڑے ایک اسٹول کے سامنے رکھتے ہوئے وہ سیڑھیوں کے نیچے پڑی پالش کی ڈبیا اور برش اٹھا کر صحن کے اسٹول پر آکر بیٹھ گیا۔ ایک سگریٹ جلا کر ہونٹوں میں دباتے ہوئے اس نے ایک جوتا اٹھا کر برش کے ساتھ کچھ پالش لگائی اور جوتے کو رگڑنے لگا۔ جوتا چند لمحوں میں چمکنے لگا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے اگلے حصے میں پڑی ہوئی بہت ساری لکیریں بھی بے حد نمایاں ہو گئی تھیں۔ اس نے چند لمحوں کے لیے برش رکھ کر سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر دھواں باہر نکالتے ہوئے ایک اور کش لیا۔ دوبارہ سگریٹ ہونٹوں میں دباتے ہوئے وہ ایک بار پھر برش اٹھا کر جوتا پالش کرنے لگا مگر جوتے پر پڑی سلوٹیں جیسے اس کے ماتھے پر جھلکنے لگی تھیں۔ جوتے کو پالش کرنے کے بعد اس نے پلٹ کر ایک نظر اس کے کونے کو دیکھا، وہ آگے سے بری طرح گھس چکا تھا۔ چند بار اور پہنے جانے پریقینا اس میں چھید ہوجاتا۔ اس نے بے حد بے زاری اور جھنجلاہٹ کے عالم میں جوتے کو پھینکا او ردوسرا جوتا اٹھا کر اسے بھی اس طرح پالش کرنے لگا۔ پالش کرنے کے دوران اس نے پہلے کی طرح ہی سگریٹ کا کش لیا اور اس بار سگریٹ کو فرش پر پھینکتے ہوئے پاؤں میں پہنی چپل سے اس کو مسل دیا۔
”تو اس وقت کیا کر رہا ہے شیراز؟” اس نے اپنے عقب میں ماں کی آواز سنی۔ وہ دوسرے کمرے میں اس کی بہنوں کے ساتھ سو رہی تھیں اور یقینا صحن میں ہونے والی کھٹر پٹر کی آوازوں کو سن کر باہر آئی تھیں۔
”اپنی قسمت پر ماتم کر رہا ہوں۔” اس نے بے حد تلخی سے جواب دیا۔
”ہائے ہائے… کیا ہو گیا…؟ طبیعت تو ٹھیک ہے تیری؟” نسیم نے یک دم ہڑبڑا کر کہا۔
”ٹھیک ہے طبیعت… طبیعت کو کیا ہونا ہے؟” اس نے بے حد بے زاری سے پالش کی ڈبیا کو بند کرتے ہوئے کہا۔
”ارے تو کیوں جوتے پالش کر رہا ہے؟ مجھے کہتا… بہنوں میں سے کسی کو جگا دیتا… ہٹ ادھر سے، میں کرتی ہوں۔”نسیم جلدی سے آگے آئیں۔
”کر لیے ہیں میں نے جوتے پالش۔ اب تو رکھنے والا تھا یہ برش اور پالش۔” اس نے ماں کو روکتے ہوئے کہا۔ اور خود سیڑھیوں کے نیچے پالش اور برش رکھ آیا۔
”سوچا تھا، ابو پیسے لے آئیں گے تو ایک سوٹ اور نئے جوتے لے لوں گا لیکن ابو بھی عین وقت پر۔۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور دوبارہ اسٹول پر بیٹھ گیا۔




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!