من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”تمہیں کیا ہوا؟” زینب کپڑے بدل کر کھانا کھانے کے لیے کچن میں آکر بیٹھی تھی۔ ربیعہ نے اسے کھانا نکال کر دیا اور خود اس کے پاس ہی چوکی پر بیٹھ گئی۔ چپاتی کا پہلا لقمہ توڑتے ہی زینب کی نظر ربیعہ کے چہرے پر پڑی اور وہ چونک گئی۔ ربیعہ بے حد پریشا ن لگ رہی تھی۔
”کچھ نہیں۔ تم کھانا کھاؤ۔” ربیعہ نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔
”امی کہاں ہیں؟” زینب نے اس کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ آپا کی طر ف گئی ہیں۔”
”کیوں خیریت ہے؟”
”ہاں۔ خیریت ہی ہے۔ تم کھانا کھاؤ، سالن ٹھنڈا ہو رہا ہے۔” ربیعہ نے ایک بار پھر اسے کھانے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی۔
”مجھے صاف صاف بتاؤ، کیا ہوا ہے؟” زینب یک دم پریشان ہو گئی تھی۔
ربیعہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھراس نے کہا۔
”زہرہ آپا کے ہاں پھر بیٹی ہوئی ہے۔”
زینب سن ہو گئی۔ اس کی بھوک یک دم غائب ہو گئی تھی۔ اس کی بڑی بہن کے ہاں یہ تیسری بیٹی تھی۔
ہاتھ میں پکڑا نوالہ اس نے واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”کھانا کیوں چھوڑ دیا؟” ربیعہ نے اسے ٹوکا۔
”تم نے کھایا؟” زینب نے پوچھا۔ ربیعہ نے جواب نہیں دیا۔ وہ چپ بیٹھی رہی۔




زہرہ زینب سے چار سال بڑی تھی۔ پانچ سال پہلے اس کی شادی ضیا کی اکلوتی بڑی بہن فہمیدہ کے بیٹے نعیم سے ہوئی تھی۔ اور شادی کے پہلے سال ہی زہرہ اس گھر میں بہت سے مسئلوں کا شکار تھی۔ نعیم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے گھر بھجوا دینے کا عادی تھا۔ ہر تین ماہ کے بعد ایک بار وہ ضرور کسی نہ کسی بات پر گھر سے نکالی جاتی۔ پھر جو چند دن وہ ا پنے میکے میں رہتی، وہ زینب کے سارے گھر والوں کے لیے بے حد تکلیف دہ ہوتے تھے۔ ان کا پورا گھر یک دم بے سکونی کا شکار ہو جاتا تھا۔ پھر ضیا نعیم کے پاس جا کر فہمیدہ اور نعیم سے بلاوجہ معذرت کرتا یا پھر ان کا کوئی مطالبہ دفتر سے قرض لے کر پورا کرتا اور زہرہ واپس اپنے گھر جاتی۔
لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ سسرال میں زہرہ کی زندگی بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ ایک بیٹی کی پیدائش نے صورت حال کو اور مشکل کر دیا۔ اب اس بار نعیم اور اس کی ماں پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ بیٹی ہونے پر وہ نعیم کی دوسری شادی کر دیں گے۔ اور اب زہرہ کے تمام میکے والوں کی دعاؤں کے باوجود ایک اور بیٹی اس کے گھر آگئی تھی۔
ربیعہ اور زینب بہت دیر تک اس طرح چپ چاپ باورچی خانے کی چوکیوں پر سوچوں میں الجھی بیٹھی رہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک جملے کا بھی تبادلہ نہیں ہوا تھا دونوں اس وقت زہرہ کی ذہنی حالت اور اس کے سسرال والوں کے رویے کے بارے میں سوچ کر خوف زدہ ہو رہی تھیں۔
وہاں بیٹھے بیٹھے زینب کو یک دم زندگی بے کار لگنے لگی تھی۔ وہ باورچی خانے سے اٹھ کر کمرے میں آگئی اور بستر پر لیٹ کر بے مقصد چھت کو گھورنے لگی۔ اسے زندگی میں کبھی اپنی غربت کے احساس نے بے بس یا پریشان نہیں کیا تھا سوائے اس وقت کہ جب زہرہ کوسسرال سے واپس بھجوا دیا جاتا تھا۔ صرف وہ دن ایسے ہوتے تھے جب اسے بار بار اپنی اور اپنے گھر والوں کی بے مائیگی اور بے قدری کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ اس کے لیے یہ بات بھی بڑی اذیت ناک ہوتی تھی کہ کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی ہر بار اس کا باپ نعیم اور اس کی ماں سے معافی مانگ کر آتا تھا۔ صرف اس لیے کہ زہرہ کا گھر برباد نہ ہو۔
پورے محلے میں ضیا کی بے حد عزت تھی اور زینب اس بات پر فخر بھی کرتی تھی۔ اس کا باپ بااخلاق، شریف، ایمان دار اور دوسرں کے کام آنے والا شخص تھا۔ محلے کی مسجد کے امام جب کبھی غیر حاضر ہوتے تو ضیاء سے ہی نماز کی امامت کروانے کے لیے کہا جاتا تھا۔ مگر جب زہرہ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا تو جیسے ان کی غربت اس کے باپ کو یک دم کینچوابن جانے پر مجبور کر دیتی تھی۔ گھر میں کوئی اور اس چیز کے بارے میں سوچتا تھا یا نہیں مگر زینب ضرور سوچتی تھی۔ اور بہت دنوں تک سوچتی رہتی تھی۔
اور اب حالات جیسے بالکل ہی نازک موڑ پر آگئے تھے۔
شام کو نفیسہ گھر آئیں تو وہ بھی بے حد پریشان تھیں۔ وہ زہرہ کی دونوں بیٹیوں مائرہ اور ماہا کو اپنے ساتھ گھر لے آئی تھی۔
”پتا نہیں، اللہ کو اب اور کون سا امتحان مقصود ہے زہرہ کا؟”
زینب اور ربیعہ ماں کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
”پھپھو اور نعیم بھائی کا رویہ کیسا ہے؟ آپ سے کچھ کہا انہوں نے؟” زینب نے بے ساختہ ماں سے پوچھا۔
”نعیم تو بیٹی کو دیکھنے ہی نہیں آیا۔ اور فہمیدہ نے خاموش تھوڑی رہنا تھا اس نے باتیں بنائیں۔”
”آپ نے ان کا جواب دیا؟” زینب نے پوچھا۔
”میں کیا کہتی۔ خاموشی سے بے عزتی کرواتی رہی۔ بیٹیوں کی ماؤں کے منہ میں زبان کہاں ہوتی ہے، ایسے موقعوں پر۔” نفیسہ بات کرتے کرتے رونے لگیں۔
”جب سے شادی ہوئی ہے، میری بچی بس تکلیف ہی دیکھ رہی ہے اس گھر میں۔ پتا نہیں کیسا مقدر بنایا ہے اللہ نے اس کا۔ اتنی خوبصورت سگھڑ اور تہذیب والی بچی تھی میری، میں نے تو نعیم سے شادی کرتے ہوئے اس کی شکل وصورت تک نہیں دیکھی اور ان لوگوں نے اس کا جینا حرام کر دیا ہے۔”
”آپ کو پتا تھا پھو پھو کا اور نعیم بھائی کا بھی۔ پھر کیوں آپ نے آپا کی وہاں شادی کی۔ اتنی خوبصورت تھیں وہ، کہیں بھی شادی ہو جاتی ان کی۔” زینب کو ماں سے شکایت ہوئی۔
”شادی نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ دیکھے بھالے خاندان کے لوگ تھے۔ باہر کرتے تو سو مسئلے ہوتے، مجھے کیا پتا تھا خاندان کے لوگ باہر والوں سے بھی زیادہ برے نکلیں گے۔ فہمیدہ نے صاف کہہ دیا مجھ سے کہ وہ نعیم کی دوسری شادی کرے گی اب۔۔۔۔”
زینب مزید کچھ نہ سن سکی۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کا دل یک دم بہت زیادہ گھبرانے لگا تھا۔
چھوٹی ماہا کو ساتھ لے کر وہ شیراز کے گھر چلی آئی۔
”ارے زہرہ آئی ہے کیا؟” نسیم نے ماہا کو دیکھتے ہی خوشی کا اظہار کیا۔
”نہیں۔ آپا نہیں آئیں۔ امی آپا کے گھر گئی تھیں۔ واپسی پر انہیں لے آئیں۔” اس نے بے حد اداسی کے ساتھ کہا۔
”زہرہ ٹھیک ہے نا؟” نسیم نے قدرے تشویش کے ساتھ پوچھا۔
”آپا کی ایک اور بیٹی ہوئی ہے۔” زینب نے افسردگی سے بتایا۔
”میرے اللہ۔” نسیم نے بے اختیار دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر جیسے چیخ دبائی۔ زینب کو ایک کانٹا سا چبھا۔
”فہمیدہ نے تو قیامت اٹھا دی ہو گی۔”
زینب کچھ کہنے کے بجائے افسردگی سے ماہا کو دیکھتی رہی۔ وہ صحن کے ایک کونے میں رکھے ڈربے کے پاس کھڑی اندر موجود مرغیوں کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔
”فہمیدہ تو پہلے سے کہہ رہی تھی کہ اس بار بیٹی ہوئی تو وہ زہرہ کو طلاق دلوا کر گھر بھجوا دے گی” نسیم نے بے حدتشویش سے کہا۔ ”پرتو فکر نہ کر، میں اور تیرے تایا جائیں گے اس کی طرف۔ سمجھائیں گے اس کو۔ تو دل چھوٹا نہ کر۔” نسیم کو زینب کے چہرے سے اس کی حالت کا اندازہ ہورہا تھا۔
”تو جا شیراز کے پاس بیٹھ تھوڑی دیر کو۔ ابھی ٹیوشنز کرنے چلا جائے گا۔ نہ میری دھی، تو کیوں رو رہی ہے۔ چپ میرا بچہ۔” زینب رونے لگی تھی۔
نسیم نے اٹھ کر زینب کو گلے لگا کر چادر سے اس کے آنسو پونچھے۔
اندر چائے پیتے شیراز نے قدرے بے چین ہو کر چائے کاکپ نیچے رکھ دیا۔ زینب کو ہر چھوٹی بڑی بات پر رونے کی عادت تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کا رونا اسے ہمیشہ بے چین کر دیتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر باہر جاتا، زینب اندر آگئی تھی اس کا گال اور آنکھیں فی الحال خشک تھیں مگر آنکھوں کی سرخی بتا رہی تھی کہ وہ دن میں پہلے بھی روتی رہی تھی اور ابھی پھر رو پڑنے کے لیے اس کو زیادہ کوشش نہیں کرنا پڑی تھی۔
”تم مجھے ایک بات بتاؤ زینی! کہ تم خوا مخواہ دوسروں کے مسئلوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا دماغ کیوں خراب کرتی رہتی ہو۔”
شیراز نے اس کے اندر آتے ہی بلاتوقف کہا۔ ”زہرہ کی تیسری بیٹی ہو گئی ہے تو تمہیں اس سے کیا۔ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔”
زینب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔ ”وہ میری بہن ہے۔”
”تو…؟” شیراز نے اسی انداز میں کہا۔
”نعیم بھائی نے اسے طلاق دے دی یا دوسری شادی کر لی تو۔۔۔۔”
شیراز نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تو بھی یہ تمہارے ماں باپ کا اور زہرہ کا مسئلہ ہے تمہارا نہیں۔ تم اپنے اور میرے بارے میں سوچا کرو۔ بس۔۔۔۔” شیراز نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”کل کو اگر میری بھی بیٹیاں ہوئی تو آپ میرے ساتھ اسی طرح کریں گے؟” زینب نے بے حد مدھم آوازمیں کہا۔
”بس ساری الٹی باتیں تم ہی سوچا کرو زینب۔” شیراز نے سر جھٹک کر کہا۔
”میں سوچتی نہیں، مجھے خود خیال آتا ہے۔” زینی نے بے چارگی سے کہا۔
”تم اچھی باتیں سوچا کرو۔”
”آپ بتائیں نا۔ آپ کیا کریں گے؟” زینب نے اصرار کیا۔
”تمہیں گارنٹی چاہیے مجھ سے؟ چلو ٹھیک ہے۔ بے فکر رہو۔ بیٹیاں ہو یا بیٹے، مجھے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہ ایک سرکاری افسر کے بچے ہوں گے۔ اور تم ایک سرکاری افسر کی بیگم کوئی تمہیں یا میری اولاد کو ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔ بس خوش۔”
زینب کی نم آنکھوں میں بے اختیار چمک آئی، وہ اب مسکرا رہی تھی۔
”مسئلہ بیٹی یا بیٹے کا نہیں ہوتا۔” شیراز اب یک دم سنجیدہ ہو گیا تھا۔ ”سارامسئلہ غربت کا ہوتا ہے۔ نعیم بھائی کے پاس پیسہ ہوتا تو بیٹیاں انہیں اتنی بڑی مصیبت نہ لگتیں۔ تمہیں پتا توہے، خود انہوں نے اپنی بہنوں کی شادیاں کتنی مصیبتوں سے کی ہیں۔ اب بیٹیوں کی شکل میں انہیں ایک بار پھر وہی مسئلے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے جوانی بہنوں کے رشتوں اور شادیوں کے لیے دھکے کھا کھا کر خراب ہوئی۔ اور اب بڑھاپا بیٹیوں کی شادیوں کے لیے ذلتیں اٹھا اٹھا کر خراب ہو گا۔ وہ بھی کیا کریں۔”
”اللہ نے پیدا کیا ہے… کوئی جوڑ بھی تو بنایا ہو گا۔ انسان اللہ پر تو بھروسا کرے۔”
زینب نے بے ساختہ کہااور شیراز اس کی بات پر بری طرح چڑا۔
”کیا اللہ پر بھروسا کرے۔ تمہاری ایسی باتوں پر مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ تم پڑھی لکھی ہو۔ اللہ پر بھروسا، اللہ کو امیروں کو سہولتیں دینے سے فرصت ملے تو اللہ غریبوں کے مسئلے حل کرنے آئے۔”
”آپ کی ایسی باتوں سے مجھے ڈر لگتا ہے شیراز۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!