من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”میں ابو سے کہتی ہوں، وہ کچھ انتظام کر دیتے ہیں۔”
”نہیں، چچا سے مت کہنا۔” شیراز نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ ”میں کہیں اور سے دیکھتا ہوں۔”
اس نے اس سے کہہ کر بات بدل دی تھی مگر زینی اس کی پریشانی کو ذہن سے نہیں نکال سکی۔ رات کو اسے ان چوڑیوں کا خیال آیا تھا اور یک دم جیسے سارا بوجھ اس کے کندھوں سے اتر گیا تھا۔ وہ چوڑیاں بنوانے کے لیے پچھلے دو سال سے ٹیوشنز کے پیسوں کو بچا رہی تھی اور اب دوسرے دن وہ انہیں لے کر اس کے پاس موجود تھی۔
”آپ انہیں بیچ دیں۔” وہ رسانیت سے کہہ رہی تھی۔
”نہیں زینی! میں یہ نہیں کر سکتا۔”شیراز نے بے ساختہ کہا۔ ”یہ تمہاری ہیں۔”
”آپ کے اور میرے بیچ تمہارا اور میرا کب سے ہونے لگا؟” زینی نے بے حد برا مان کر کہا۔
”نہیں زینی! میں۔۔۔۔” زینی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”آپ نہیں لیں گے تو بھی میں ادھر ہی چھوڑ کر جاؤں گی زینب کی جوشے آپ کے کام نہ آئے، وہ زینب کے کس کام کی۔”
شیراز چند لمحے بول نہیں سکا۔
”اور یہ بھی رکھ لیں، پندرہ سو روپے ہیں۔” اس نے اپنی مٹھی میں بھینچے پانچ سو کے تین بالکل مڑے تڑے نوٹوں کو تپائی پر چوڑیوں کے پاس رکھ دیا۔
”ناشتہ کریں۔ یہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔”زینی کو یک دم فکر ہوئی۔
مگر شیراز مسلسل چوڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کسی نے یک دم جیسے اس کے سر کا بوجھ ہلکا کر دیا تھا۔ ایک نیا جوڑا، ایک نئی ٹائی، ایک نیا جوتا، بجلی کے بلوں کی ادائیگی، گھر میں آنے والا کچھ راشن، اسلام آباد کا کرایہ، رہائش، کھانا، پینا۔ وہ چوڑیاں سب کچھ تھیں۔ وہ واقعی زینب کا بے حد مشکور تھا۔
”کیا سوچ رہے ہیں؟” زینی نے اسے چونکایا۔
”تم یاد رکھنا زینی! میں تمہارے اس احسان کا بدلہ ضرور چکاؤں گا۔” شیراز نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔




”احسانوں کے بدلے تب چکائے جاتے ہیں، جب تعلق توڑنا ہو۔ جہاں محبت ہو، وہاں احسان کیا جاتا ہے اور احسان رکھا جاتا ہے۔” زینی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”میں جب سول سروس جوائن کرلوں گا تو اپنی پہلی تنخواہ سے تمہیں چوڑیاں بنا کر دوں گا۔ ساتھ کچھ قرض لوں گا اور دو نہیں چھ چوڑیاں بنا کر دوں گا۔” اس نے بے حد جذباتی انداز میں کہا۔
”میرے لیے آپ کا ساتھ کافی ہے۔ زیور کی کوئی بات نہیں۔ محبت باقی رہنی چاہیے۔” زینی نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
”زیور بھی ضروری ہوتا ہے۔” شیراز نے اپنی بات پر زور دیا۔
”زینب ضیا کے لیے نہیں۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”ہاں، زینب خود ہر زیور سے قیمتی ہے۔” شیراز نے بے اختیار کہا۔
وہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسی۔ ”چائے لاتی ہوں آپ کے لیے اور آپ باتیں بند کر کے ناشتہ کریں۔”
زینی نے ایک بار پھر اس کی توجہ ناشتے کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔ شیراز نے چوڑیاں اٹھا کر دیکھیں، وہ بے حد ہلکی تھیں مگر اس کو یقین تھا، وہ اس کے اس ماہ کے تمام مسائل کا حل نکال سکتی تھیں۔ اسے زینی پر بے اختیار پیار آیا۔ وہ واقعی بہت خوش قسمت تھا۔ اس نے بے حد پرسکون انداز میں پراٹھے کی طرف ہاتھ بڑھایا، تب ہی اسے یاد آیا، وہ ہمیشہ کی طرح زینی کو کھانے کی دعوت دینا بھول گیا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس کے لیے کچھ پراٹھا چھوڑ دے گا مگر پراٹھا اتنا لذیذ تھا کہ وہ ہاتھ نہیں روک سکا۔ جب تک وہ واپس آئی، وہ پراٹھا ختم کر چکا تھا۔ زینی نے خالی پلیٹ کو بے حد خوشی سے دیکھتے ہوئے پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھ دیا۔
****




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!