من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”میری سمجھ میں نہیں آرہا، کہاں گئی۔” وہ رات کے تین بجے اس کے اپارٹمنٹ پہنچنے کے بعد اب اپنی جیکٹ اور اوورکوٹ کی ایک ایک جیب کو کھنگال چکا تھا۔ اور اب جیکٹ کی جیبوں کو ایک بار پھر ٹرائی کر رہا تھا۔
”کیا کہاں گئی؟” وہ اس کے قریب کھڑی تھی منہ پر ہاتھ رکھے اپنی جماہی کو روکتے ہوئے اس نے اپنی نیند سے بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے کہا۔
”ایک رنگ تھی۔” وہ اب جیکٹ کی اندرونی جیب کو دوبارہ چیک کر رہا تھا۔
”کیسی رنگ؟” وہ جماہیاں لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔ نیند میں کھڑے رہنا اس کے لیے بے حد دشوار تھا۔
”تھی ایک رنگ۔” وہ بے حد مایوسی سے جیکٹ کو آخری بار جھاڑتے ہوئے بولا۔
”اور تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نا؟” اس نے کشن کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیسا مسئلہ؟” وہ حیران ہوا۔
”اب رات کو تین بجے تم کسی کے گھر آؤ گے تو وہ تم سے یہی پوچھے گا نا۔” وہ اب کشنز کے ڈھیر کو صوفے کے ایک طرف کرتے ہوئے اس پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
”جب جانے لگو تو دروازہ ٹھیک سے بند کر کے جانا۔ اب یہ کیا کر رہے ہو؟” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسے ہدایت دینے کی کوشش کی مگر آنکھیں بند کرنے سے پہلے ہی وہ یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ لاؤنج میں پڑی کرسیاں ادھر ادھر ہٹا کر فرش پر کچھ تلاش کر رہا تھا۔
”مجھے لگتا ہے۔ یہیں پر کہیں گری ہے۔” اس نے مڑ کر اسے دیکھے بغیر کہا۔
”میں سونے لگی ہوں اور اب اگر تمہیں کوئی کرسی ہٹانا بھی ہے تو بالکل آواز نہیں ہونی چاہیے۔ اب ایک رنگ ڈھونڈنے کے لیے تم کیا میرا اپارٹمنٹ کھود ڈالو گے؟” وہ ہلکی سی خفگی کے ساتھ بڑبڑائی اور ایک بار پھر کشنز کے اوپر سر رکھ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔




اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ انگوٹھی اسے فرش پر ہی دروازے سے کچھ فاصلے پر پڑی ملی۔ اس نے بے اختیاراطمینان کا سانس لیا مگر اس تلاش میں پانچ منٹ لگ گئے تھے اور تب تک وہ صوفے پر گہری نیند سو چکی تھی۔ وہ انگوٹھی لے کر اس کے پاس آیا اور دو تین بار اسے آواز دی مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر وہ پنجوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور اس نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ اسے وہ انگوٹھی پہنائی اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ اس کاہاتھ دوبارہ کشنز پر رکھ دیا۔ اس کے بیڈروم سے کمبل لا کر اس پر ڈالتے ہوئے وہ اسی خاموشی اور احتیاط کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ سے نکل آیا تھا۔
‘Till death do us part’
وہ انگوٹھی پر کندہ لفظوں کو وہاں کھڑا کسی دقّت کے بغیر دیکھ سکتا تھا۔ وہ کیا کر رہی تھی؟ اسے اپنی زندگی سے نکال رہی تھی یا خود اس کی زندگی سے نکل رہی تھی؟
وہ میکسیکن عورت فٹ پاتھ کے کونے پر تھی، وہ اسے چھوڑ کر آگے بڑھا او رموڑ مڑ کر اس عمارت کے سامنے آگیا جس کی 23ویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں وہ اس وقت تھی۔ وہ ہر بار جب بھی اس عمارت کے سامنے آتا، ایک بار لاشعوری طور پر سر اٹھا کر 23ویں منزل کی اس کھڑکی کو ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کرتا جو اس کے اپارٹمنٹ کی تھی۔ شروع شروع میں وہ ناکام رہا پھر اس نے ایک گملا لا کر اس کی کھڑکی کے باہر بڑھے ہوئے چھجّے پر رکھ دیا تھا۔ اس گملے اور اس میں لگی ہوئی بیل سے وہ آسانی سے اس کی کھڑکی ڈھونڈ لیتا تھا لیکن آج فضا ہلکی ہلکی دھند آلود تھی۔ اسے یقین تھا، وہ سر اٹھا کر 23ویں منزل کو نہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے پھربھی سراٹھا کر دیکھا اور پھر وہ سر نیچے نہیں کر سکا۔ اسے 23ویں منزل نظر نہیں آئی تھی مگر اسے ہوا میں بہت سی تصویریں اڑتی نظر آگئی تھیں۔ ان میں سے چند کچھ لمحوں تک زمین پر پہنچنے والی تھیں۔
اس کے ہاتھ سے سیل فون چھوٹ کر گر پڑا تھا پھر اس نے اپنے آپ کو بے تحاشا بھاگتے پایا۔ اس کے پاؤں سے ایک بوٹ نکل گیا۔ اس نے دوسرا خود اتار پھینکا۔ وہ ایک بار بھی سلپ نہیں ہوا اور اس نے برف اور کنکریٹ کی ٹھنڈک کو بھی محسوس نہیں کیا۔ اس کے کانوں میں صرف اس کی ہنسی اور آواز آرہی تھی۔
وہ دونوں سینما ہال میں بیٹھے تھے اور وہ بے حس و حرکت اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
”تم مجھے یہ دکھانے کے لیے یہاں لائی تھیں؟” اس نے شاکڈ ہو کر بے یقینی سے اس سے کہا۔
”ہاں، تمہیں اچھا لگا؟” وہ اسی اطمینان سے پاپ کارن کھاتے ہوئے بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتا، اس نے اس سے ایک اور بات کہی تھی۔ وہ اگلے دو منٹ تک بے حس وحرکت اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اسے لگا کہ وہ اسے نہیں جانتا تھا۔
***




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!