لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

”ٹھیک ہے اظہر بھائی… آپ پھل نہیں لائے مگر کم از کم بچے کو دو ہزار تو دے جائیں۔” اُس نے جھٹ سے دوسری فرمائش کر ڈالی… جو جانتی تھی کہ اُس نے ہزار دینے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ صبح ہی اماں کا فون آگیا تھا۔
وہ پریشانی سے بولا: ”جویریہ اس بار میں دو ہزار نہیں دے سکتا کیوں کہ میری جیب میں کل بارہ سو روپے ہیں۔” اُس نے شرمندگی سے اپنی جیب کی داستان بیان کر دی اور اپنا والٹ کھول کر اُس کے سامنے رکھ دیا۔
”آپ کو افشی بھابی نے منع کیا ہو گا…؟” اُس نے والٹ دیکھ کر بُرا سا منہ بنا کر شکوہ کیا… اور اُس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
نہیں مریم… ایسی کوئی بات نہیں۔ تم غلط سوچ رہی ہو۔ یقین جانو میں نے آج تک تمہارے خلاف کوئی بات سُنی ہے اور نہ ہی میں کبھی سنوں گا، میرے پاس پیسے ہوتے تو میں تمہارے کہنے سے پہلے پانچ ہزار بھی دے دیتا۔” اس نے بہن کا ہاتھ تھام لیا جو رونے بیٹھ گئی تھی۔ اس کے رونے کا ڈرامہ جاری رہتا اگر اویس آفس سے جلد واپس نہ آجاتا۔ اُس نے اویس کے گھر آنے پر آنسو پونچھ دیئے اور خوشی کے ساتھ چائے کا بندوبست کرنے لگی۔ اویس نے پھر سے چھوٹا موٹا بزنس شروع کرنے کی بات کر دی، جس پر اُس نے کان نہ دھراکیوں کہ وہ اویس کی عادت کو سمجھ چکا تھا کہ وہ ہر چار ماہ بعد کسی نہ کسی بزنس میں انوالو ہو جاتا ہے اور پھر نقصان کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اویس اُس سے اُدھار مانگتا، اُس نے جویریہ سے اجازت لی اور وہاں سے نکل آیا۔ سارے رستے وہ سوچتا رہاکہ اگر آج وہ امیر ہوتا تو اُس کی بہن اُسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتی، جو تقریباً ایک گھنٹہ اُس کے سامنے روتی پیٹتی رہی تھی۔ وہ جویریہ کی فطرت سے واقف تھا کہ وہ اماں سے اس بات کی شکایت ضرور کرے گی۔ اب جویریہ کے سسرال میں ایک ہزار دینے پر اُس کی بے عزتی ہوئی تھی یا نہیں، یہ تو کوئی نہیں جانتا تھا مگر جویریہ نے ماں کے کان خوب بھر دیئے کہ اظہر بھائی کو افشی نے منع کیا ہوا تھا۔ ماں نے بیٹے کو بچانے کے لیے ساری بات بہو پر ڈال دی اور جویریہ نے افشی کو فون کر کے خوب کھری کھری سنا دی۔ جس پر افشی اور فرخندہ کے درمیان جھگڑا لازمی تھا۔





”میرا بیٹا بدل گیا ہے۔ اب وہ میرے نہیں… تمہارے اشاروں پر چلتا ہے۔ نہ جانے میرے بیٹے کو کون سا تعویذ گھول کر پلا دیا ہے؟” فرخندہ بیگم غصے سے اُس پر برس پڑیں… جب اُس نے جویریہ کے خلاف اُن سے باتیں کیں۔ ”اللہ کے لیے ماں جی… مجھ پر ایسا گھٹیا الزام مت لگائیں کہ میں اظہر پر تعویز کروا رہی ہوں۔ تعویز کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ کا بیٹا میرے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں رکھتا۔ ساری تنخواہ آپ کے ہاتھ میں جاتی ہے اور جتنا خرچ آپ اظہر کو دیتی ہیں بس وہی میرے ہاتھ میں آتا ہے۔ ایسے میں تعویز کیا، میں تو اپنے لیے ایک جوتا تک نہیں خرید سکتی۔” اُس نے غصے سے جواب دیا۔ اس سے پہلے کہ فرخندہ اُس پر مزید برستی، اظہر کو گھر کے بیرونی دروازے سے داخل ہوتا دیکھ کر اُنہوں نے رنگ بدل لیا: ”دیکھ لو اپنی بیوی کی زبان… کیسے قینچی کی طرح تیز چلتی ہے۔ مت رکھ میرے ہاتھ میں تنخواہ!! اس پیسے کی وجہ سے تو رونا پڑ رہا ہے اس کو!!… فرخندہ بیگم نے آنسو بہانے شروع کر دیے۔ افشی فرخندہ بیگم کے یوں بدلتے رنگ پر خاموش نہ رہ سکی لہٰذا چیخ کر بولی: ”رونا تو جویریہ اور آپ کو پڑا ہوا ہے۔ اظہر آپ اپنی مرضی سے جویریہ کے سسرال میں ایک ہزار دے کر آئے ہیں… تو جویریہ اور اماں مجھ پر الزام لگا رہی ہیں کہ میں نے آپ کو زیادہ پیسے دینے سے روکا ہے۔” اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ سچی تھی مگر اپنی نند اور ساس کے سامنے وہ قصور وار ٹھہرائی جا رہی تھی۔ وہ یک دم بہت اُداس ہو گیا کہ اُس نے اپنی چھوٹی بہن جویریہ کے ساتھ ساتھ آج اماں اور افشی کا دل دکھایا ہے… اور اس کی وجہ صرف پیسہ ہے۔ اُس نے خاموشی کے ساتھ افشی کا ہاتھ تھاما اور اسے کمرے میں لے کر جانے لگا۔ وہ تڑپ کر بولی: ”اظہر آپ… آپ اماں کو بتائیں کہ سچ کیا ہے؟ آپ اپنی مجبوری کیوں نہیں بتا رہے کہ آپ کے والٹ میں صبح کتنے پیسے تھے… اور اگر جویریہ اپنی عزت سسرال میں رکھنا چاہتی تھی تو خود ایک ہزار اپنے پاس سے دے دیتی۔” افشی نے غصے سے اپنا بازو چھڑایا اور فرخندہ بیگم کے سامنے جا پہنچی۔
فرخندہ بیگم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ روتے روتے بولیں: ”ہاں میں بُری ہوں… اور میری بیٹی بھی…!! اظہر آج سے تم ساری تنخواہ اس کے ہاتھ میں رکھنا۔ یہ گھر کا خرچ چلائے گھر اس کا ہے، میرا نہیں!” ماں نے بیٹے کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
وہ غصے سے بولا: ”افشی کمرے میں جائو، اب مزید تم کچھ نہیں بولو گی۔” اُس نے آخر کار بیوی کو چپ کروایا کیوں کہ اس کا چھوٹا بھائی عرفان اور جواد صحن میں آکھڑے ہوئے تھے۔ عرفان ماں کو چپ کروانے لگا اور جواد افشی کے ساتھ لپٹ گیا… جو کافی سہما ہوا تھا۔
فرخندہ بیگم عرفان کو دیکھ کر بولیں: ”جا… میرے لیے زہر لا دے… میں مرجا ئوں تو سب سکون میں رہیں گے۔” فرخندہ بیگم عرفان کے غصے کو مزید ہوا دے دی اور وہ غصے سے افشی کو گھورنے لگا۔





”دیکھیں… آپ جس کو چھوٹا بھائی کہتے اپنی جان وار دیتے ہیں، وہ مجھے کیسے آنکھیں دکھا رہا ہے۔” افشی نے عرفان کے گھورنے پر اظہر کو بتایا۔
اس سے پہلے کے مزید بات بگڑتی، اظہر اسے کمرے میں لے گیا اور پھر کئی گھنٹوں تک کمرے سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آتی رہیں۔ جواد ڈر کر سو گیا اور فرخندہ عرفان کے سامنے روتی پیٹتی رہیں۔ اظہر نے اس حادثے کا سارا قصور پیسے پر ڈال کر بات ختم کی۔ اب اُس میں پیسہ کمانے کی لالچ بہت بڑھ گئی۔ اگلے ہی دن پوسٹ آفس میں مال بک کرنے کے چکر میں اُس نے رشوت لے لی… اور پل بھر میں اُس کی جیب میں 15 ہزار روپے آگئے۔ وہ بہت خوش نظر آنے لگا اور اُس نے سوچ لیاتھا کہ آج وہ اپنے اور عرفان کے لیے اچھے کپڑے خریدے گا کیوں کہ تین سال سے وہ دونوں ایک دوسرے کے کپڑے بدل بدل کر استعمال کر رہے ہیں۔ کل کے واقعے کے بعد اُسے احساس ہو گیا کہ اسے عرفان کو اگنور نہیں کرنا چاہیے وہ اُس وقت تک اس کی ذمہ داری ہے جب تک وہ پڑھ رہا ہے۔ وہ خوشی خوشی گھر پہنچا کہ آج عرفان کو لے کر مارکیٹ جائے گا اور آج اُس کے اور اُس کے چھوٹے بھائی کے درمیان کوئی نہیں آئے گا۔ اسی سوچ میں وہ عرفان کے کمرے میں پہنچا ۔ عرفان اظہر کی اچانک آمد پر گھبرا گیا کہ کہیں اُس کا بھائی اُس کی کل رات والی حرکت پر غصہ کرنے تو نہیں آیا، لہٰذا اُس نے نظریں جھکا لیں۔ اظہر نے محبت سے اُس کا ہاتھ تھاما اور پیار سے بولا: ”چلو… میں تمہیں شاپنگ کروانے کے لیے آیا ہوں۔”
وہ نظریں جھکا کر بولا: ”نہیں بھائی مجھے شاپنگ نہیں کرنی۔” اُس کے چہرے پر شرمندگی چھا گئی۔
”کیوں؟” وہ حیرانی سے بولا اور اُس کی بات حیران رہ گیا۔ ”بھائی آپ ٹیوشن فیس دے دیں… دو ماہ سے ٹیوشن فیس کے لیے پریشان ہوں۔”عرفان نے نہ چاہ کر اپنے بھائی سے بات کر ڈالی۔ اُس کے رویے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے اظہر سیپیسے مانگنے میں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے اور یہ احساس تب ہوتاہے جب دوسرا آپ کو اپنا نہ سمجھے۔
”کتنے پیسے چاہیے؟” اُس نے محبت کے ساتھ پوچھا اور اس کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
”بھائی… پانچ ہزار۔” اُس نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔ اظہر نے اپنا والٹ کھولا اور پانچ کے بہ جائے اُسے چھے ہزار تھما دیئے۔ وہ حیرانی سے ایک نوٹ واپس کرتے ہوئے بولا: ”اظہار بھائی پانچ ہزارچاہیے۔ چھے نہیں…!! اظہر نے مسکراکر اُسے دیکھا اور شائستگی سے بولا ”تمہارا بڑا بھائی ہوں، مجھ سے بلا جھجک پیسے مانگ لیا کرو۔سرجھکائے اور شرمندہ ہوئے بغیر۔” اظہر نے عرفان کا کندھا تھپتھپا کر اُسے تسلی دی۔ عرفان اُٹھ کر اُس کے گلے لگ گیا… دونوں بھائی خوشی خوشی اماں کمرے میں چلے آئے۔ وہ بھی اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُن کی بہو افشی اپنے کمرے میں بیٹھی خوب آنسو بہا رہی ہو گی اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو افشی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”ارے کیا ہوا ہے؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”آپ … آپ… دو گھنٹے سے اماں کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ آپ کو میرا اور جواد کا کوئی خیال ہی نہیں۔” اُس نے جواد کے سر پر ہاتھ پھیر کر اُنہیں احساس دلایا، جو ماں کے رونے کی وجہ سے سہم سا گیا تھا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ مجھے جواد اور تمہارا خیال نہیں ہے …؟ تم دونوں تو مجھے جان سے زیادہ عزیز ہو۔” اُس نے جواد کو اپنی گودمیں بٹھا لیا اور اُس کا گال چوما۔ اظہر کی بات پر وہ نرم سی پڑ گئی اور اُس نے فوراً ہی پیسوں کا مطالبہ کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس بات پر وہ بگڑ جائے گا اور اس طرح وہ دو گھنٹے جو اس نے بے چینی اور حسد کی کیفیت میں گزارے ہیں… وہ جھگڑ کر اُس کی بھڑاس نکال لے گی مگر اُس نے مسکراتے ہوئے اپنا والٹ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا… والٹ میں ہزار ہزار کے نوٹ دیکھ کر وہ نہال سی ہو گئی۔ ”آپ نے دوسری نوکری بھی تلاش کر لی ہے… میرے لیے…!!… جواد کے لیے!!…” اُس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
”ہاں” وہ مُسکرایا۔ جواد بھی ماں کے چہرے پر خوشی دیکھ کر کھل سا گیا… اور معصومیت سے بولا: ”بابا… آپ مجھے کمپیوٹر لے دیں۔ میرے سب دوستوں کے گھر میں کمپیوٹر ہے۔ آپ کو تو پتا ہے کہ کمپیوٹر میں بہت ساری گیمز ہوتی ہیں… میں پینٹنگ بھی کر سکوں گا۔” اُس نے پیسے دیکھ کر فرمائش کر ڈالی۔
افشی خفگی سے بولی: ”نہیں کمپیوٹر کی کوئی ضرورت نہیں۔ اظہر میں نے سُنا ہے کہ جو بچے کمپیوٹر پر بیٹھتے ہیں، اُن کی نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ویڈیو گیمز کے بہت سے نقصانات ہیں۔” اُس نے خفگی سے منہ بنا لیا، جواد کا چہرا بجھ گیا۔
”اب ہم کو ایک چائے کا کپ مل سکتا ہے؟” اُس نے شرارت بھری نظروں سے فرمائش کی، جو جانتا تھا کہ آج کسی بحث کے بغیر ہی اُسے چائے مل جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ افشی مُسکر اکر بولی ”جی ابھی لائی” وہ دوپٹہ سنبھالتے ہوئے کمرے سے نکل گئی اور اظہر کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کی نظر والٹ میں پڑے نوٹوں پر پڑی یہ نوٹ انسان سے کتنے بڑے ہوتے ہیں۔ یہ جس انسان کے پاس ہوں، سب لوگ اُس کی جی حضوری میں لگ جاتے ہیں دراصل وہ جی حضوری اس کی نہیں ان نوٹوں کی ہوتی ہے۔
”بابا کیا آپ مجھے کمپیوٹر نہیں لے کر دیں گے۔” جواد نے اُسے خیالی دنیا سے نکالا۔ اُس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!