لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

وہ ایک ایسا ٹی وی شو دیکھ رہا تھا جس میں ایک غریب آدمی کی گاڑی نکل آئی۔ وہ آدمی خوشی سے رونے لگا… اینکر نے محبت کے ساتھ اُسے گلے سے لگایا… اُس نے غریب آدمی سے کہا:” یار سات آٹھ لاکھ کی گاڑی نکلی ہے… اس میں رونا کیسا؟ گاڑی کو فروخت کرو… اور پیسہ جیب میں رکھو۔ پھر اس کے ذریعے اپنی ساری خواہشات پوری کرلو۔” وہ اُس آدمی کی قسمت پر خوش نظر آرہا تھا… مگر وہ یہ نہیںجانتا کہ دور سلائی مشین پر کام کرتی ہوئی افشی کو اس کے تبصرے پر اختلاف ہو سکتا ہے…!!
وہ خفگی سے بولی: ”یہ کیا بات ہوئی کہ گاڑی فروخت کر دی جائے؟ اب گاڑی ملی ہے تو بیوی بچوں کو سیر کروائے… کیا پتا یہ گاڑی اُن کا نصیب ہو…۔”
اس غریب آدمی کی بیوی بچے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔
اینکر نے پرُ جوش انداز میں آواز بلند کی: ”قسمت ہو تو ایسی … جو چند سیکنڈ میں انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دے۔”مگر وہ اینکر سے لاپرواہ سا ہو گیا اور اُس نے افشی کو جواب دینا بہتر سمجھا… جو پچھلے دو گھنٹے سے کسی ایسی بات پر اس سے خفا بیٹھی تھی، جس سے وہ بھی واقف نہ تھا۔ وہ شائستگی سے بولا: ”افشی جوشخص کہہ رہا ہے کہ وہ کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہے، وہ اتنی بڑی گاڑی کہاں رکھ سکے گا؟ اور جس جگہ وہ رہتا ہے۔ بھلا وہاں گاڑی جا سکتی ہے؟” وہ شخص اپنے بارے میں ٹی وی پر کیا کچھ بتا رہا تھا۔
وہ حیرانی سے بولی: ”ایسا کیوں؟؟”





”ارے اس کی تنگ گلی جس محلے سے وابستہ ہے… میں نے وہ محلہ خود دیکھا ہوا ہے۔ عجیب و غریب تنگ سی گلیاں ہیں… جو بھی اس محلے میں چلا جاتا ہے… اس کے گھر کا راستہ بھول جاتا ہے۔”
افشی خفگی سے بولی:” گاڑی روڈ پر بھی تو کھڑی کی جا سکتی ہے۔” گویا اُس نے بحث ہی شروع کر دی۔ اظہر اُس کی بات پر خفا سا ہوا اور سنجیدگی سے بولا: ”افشی تمہیں کیا پتا؟؟… جو گاڑیاں روڈ پر کھڑی کی جاتی ہیں وہ اکثر چوری ہو جاتی ہیں یا پھر اُن کے ٹائر چرا لیے جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو گاڑی کیشیشے بھی ٹوٹے ملتے ہیں۔”
وہ خفگی سے بولی: ”میرے خیال میں اُس غریب شخض کو اپنی گاڑی فروخت نہیں کرنی چاہیے۔” وہ اپنی بات پر اٹل رہی اور سلائی مشین مزید تیزی سے چلانے لگی۔
”بی بی جی… گاڑی کے بہت نخرے ہوتے ہیں…” اُس نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔ وہ افشی کی بات پر چڑ سا گیا۔
وہ محبت سے بولی:” گاڑی کے نخروں کے بارے میں آپ مرد ذات بہ خوبی واقف ہوتے ہیں… اور کیا بیوی کے نخرے شوہر کے علم میں نہیں ہونے چاہئیں؟ گاڑی تو بے جان چیز ہوتی ہے، اُس کے نخرے نہ بھی اُٹھائے جائیں تو اُسے کیا فرق پڑتا ہے؟ مگر عورت تو نرم دل رکھتی ہے اور وہ بھی حساس دل …!! مگر مرد کو وہ دل نہ جانے کیوں نظر نہیں آتا… خاص طور پر بیوی کا دل!!” اُس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور اس نے سلائی مشین روک دی۔
اظہر نے خاموشی اختیار کر لی کیوںکہ وہ پوسٹ آفس سے تھکا ہارا گھر آیا تھا اور اُس میں بحث کرنے کی ہمت نہ تھی۔ وہ افشی کی فطرت سے واقف تھا کہ جب کبھی اُس کی آنکھیں بھر آئیں تو اُس دن جھگڑا لازمی ہوتا ہے… اُس نے ٹی وی بند کر دیا اور آنکھیں موند لیں۔
وہ غصے سے اُٹھی اور ٹی وی دوبارہ آن کر دیا۔ ”اک ٹی وی ہی ہے جو میری انٹرٹینمنٹ ہے۔” اُس نے غصے سے ریموٹ بیڈ پر پٹخ دیا۔ مگر افشی کی اس بدتمیزی پر اس نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا اور خاموشی سے بیڈ کے دوسری جانب کروٹ لے لی۔
”انعام میں میری گاڑی نکلے تو میں کبھی فروخت نہ کروں۔” اُس نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا!! دوسری طرف خاموشی رہی، اُس نے ٹی وی کی آواز اونچی کر دی۔
”مجھے سونے دو افشی…!!میرا سر درد کر رہا ہے۔” وہ والیم کے بلند ہونے پر چیخا۔
وہ غصے سے بولی:” نہیں۔”
”مجھے نیند نہیں آرہی” افشی نے اس کی بات کی پرواہ تک نہ کی اور اپنی ضد قائم رکھی۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اُس نے بری طرح سے ریموٹ اُس سے کھینچا اور ٹی وی بند کر دیا۔
وہ چیخی ”ریموٹ مجھے دیں۔” اُس نے ریموٹ چھیننے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکی کیوںکہ ریموٹ پر اُس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وہ دوسری طرف کروٹ لے کر منہ میں بُڑبُڑایا ”گاڑی نکلی نہیںاور گاڑی فروخت نہ کرنے کی باتیںپاگل عورت۔” اُس نے بھی تمیز کا دامن چھوڑ دیا…مگر پھر اپنے غصے پر قابو پانے لگا۔
وہ دوبارہ سلائی مشین پر آبیٹھی ہے… اور غصے سے مشین چلاتے ہوئے چیخی۔ ”آپ کے لیے تو میں صرف اک پاگل عورت ہی رہ گئی ہوں… سچ! جو سارا دن آپ کا گھراور آپ کا بچہ سنبھال رہی ہوں۔” اُس نے مشین روک دی اور رونے لگی۔





وہ بھی غصے سے بولا:” ہر عورت کا یہی فرض ہے کہ وہ اپنا گھر سنبھالے۔ مجھ پر احسان نہیں کر رہی ہو اور اگر احسان سمجھ رہی ہو… تو رہو اپنے والدین کے گھر” اُس نے بات اُدھوری چھوڑ دی… اب وہ بحث کے موڈ میں آچکا تھا شاید اب بحث کے بعد ہی وہ پُرسکون نیند سو سکتا تھا۔
”آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں اپنے والدین کے گھر نہیں جا سکتی۔ اس لیے… آپ ہمیشہ میرا دل دُکھا تے ہیں… اور میں کیوں جائوں گھر چھوڑ کر؟ یہ گھر میرا ہے… اگر دوسری شادی کا شوق ہے تو پہلے مجھے طلاق دیں… اور پھر اس گھر سے نکالیں۔” اُس نے بات کو دوسرا رخ دیا۔ وہ پریشان سا ہو گیا کہ وہ بات کو کہاں سے کہاں جوڑ کر نیا مسئلہ کھڑا کر رہی ہے۔ کہیں اُس کے بیٹے جواد نے دوسری شادی کا سُن لیا تو ؟؟ وہ سنجیدگی سے بولا: ”اچھا… گھر تمہارا ہے اور تمہیں ہی مبارک ہو۔ نہ تو میں گاڑی افورڈ کر سکتا ہوں اور نہ ہی دوسری بیوی! پوسٹ آفس میں معمولی کلرک ہوں۔ اک بیوی سنبھال نہیں سکتا تو دوسری بیوی کی بات کرکے دل کو جلائو مت۔” ہر دفعہ جب وہ اُسے گھر چھوڑنے کی دھمکی دیتا تو وہ اُس پر دوسری شادی کا الزام لگا دیتی تھی۔ مجبوراً اُسے ہی ہار ماننی پڑتی تھی کیوں کہ وہ افشی سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ اُس کے جواب سے مطمئن سی ہو گئی کہ وہ صرف اُس کا ہے۔ مگر پھر بھی وہ منہ بسور کر بولی: ”کاش کہ میں نے اپنے والدین سے شادی کے بعد رشتہ جوڑ رکھا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ جس عورت کا میکا نہیں ہوتا، اسی کا خاوند اسے دبا سکتا ہے۔” وہ اُس کی بات پر ہنسا اور ہنستا ہی چلتا گیا… کہ کیا وہ واقعی دب کر رہ رہی ہے یا پھر اُس نے اُسے دبا کر رکھا ہوا ہے۔
”آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟” اُس نے منہ پھلا کر پوچھا۔ مگر اب غصے کا تاثر اُس کے چہرے سے تقریباً چھٹ چکا تھا۔
اُس نے بات پلٹی اور مُسکرا کر بولا: ”اس لیے ہنس رہا ہوں … کہ میری معصوم بیوی کے پاس گاڑی نہیں ہے۔”
وہ دھیمے لہجے میں بولی:” تو اس بات پر افسوس کرنا چاہیے ناکہ آپ ہنس کر زخم پر نمک چھڑک رہے ہیں۔” وہ بستر پر آکر اُس کے پاس لیٹ گئی۔
”افشی… اللہ کے لیے مجھے سونے دو… میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔” وہ معصومیت سے بولی ”مجھے نیند نہیں آرہی… مجھ سے باتیں کریں اور یہ بتائیںکہ آپ مجھے شاپنگ پر کب لے کر جائیں گے۔” اُس نے اصل ناراضی کی وجہ بتا دی… پچھلے کئی دنوں سے وہ شاپنگ کا کہہ رہی تھی اور وہ اُسے اِگنور کر رہا تھا… مگر آج تو وہ پھٹ ہی پڑی۔ ایسا ہر دو ماہ کے بعد ضرور ہوتا تھا۔
وہ سنجیدگی سے بولا: ”شاپنگ بھی ہو جائے گی… مجھے سونے دو۔” اس نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر سوچنے لگاکہ اس ماہ کی تنخواہ ملنے پر اُسے پانچ ہزار روپے اپنے دوست رحیم کو دینے ہیں جس نے دو ماہ سے اپنا اُدھار واپس نہیں مانگا ۔مگر ہر بار تنخواہ ملنے پر وہ مشکوک نظروں سے اُسے دیکھتا اور بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ وہ اپنے دوست سے نظریں ملا کر بات نہیںکر پا رہا تھا کیوں کہ وہ دونوں ایک ہی کے پوسٹ آفس میں ملازم تھے اور دونوں ہم عمر تھے مگر فرق صرف یہ تھا… کہ وہ بہت خوش نظر آتا تھا کیوںکہ وہ کنوارا تھا۔
وہ پھر خفگی سے بولی: ”اظہر آپ کب شاپنگ پر لے کر جائیں گے۔” اُس نے پھر اُسی موضوع پر بحث شروع کر دی۔
”افشی تم بھی ایک بات کے پیچھے پڑ جاتی ہو… تمہیں بتا چکا ہوں میرے سر میں درد ہے… سونے دو… مگر تم کہ شاپنگ کے لیے روئے جا رہی ہو۔ پوسٹ آفس میں مہر کی ٹپ ٹپ، رات کو تمہاری بک بک اور زندگی کی پریشانیاں گھڑی کی سوئیوں کی طرح ٹِک ٹِک کر کے میرا وجود کھا رہی ہیں۔ یقین جانو، ایک دن تمہیں بس یہ اطلاع ملے گی کہ اظہر ہاشم اب اس دنیا میں نہیں رہا… اور شاید وہی دن ہو گاجب تم سو نہیں پائو گی اور میں زمین کے اندر آرام کی نیند سو رہا ہوں گا۔” اُس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ اُبھر آئی۔ ”خبردار جو ایسی فضول بات آپ نے دوبارہ کی۔” اُس نے اپنا ہاتھ اظہر کے منہ پر رکھ دیا اور محبت سے اُسے دیکھنے لگی۔ ”واہ شوہر کے مرنے کی بات پر یہ عورتیں ڈر جاتی ہیںمگر روزانہ اپنی تلخ باتوں کا تھوڑا تھوڑا زہر وہ شوہروں کو دیتی ہیں… اُس سے انہیں ڈر نہیں لگتا…؟” اس نے دکھ سے کہا۔
”اچھا… بس بھی کر دیں۔ مجھے نہ تو گاڑی چاہیے اور نہ ہی شاپنگ کرنی ہے… ہم لوگ فضول باتوں پر جھگڑ رہے ہیں۔” وہ نرم پڑی، شاید ایک گھنٹے کی بحث نے اسے تھکا دیا تھا۔ اُس کی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں۔
وہ مُسکراکر بولا: ”ایک دن ضرور گاڑی لے دوں گا اور روز شاپنگ پر بھی لے جائوں گا بس تم دعا کیا کروکہ اللہ ہمیں بھی گاڑی سے نوازے۔”




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!