لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

اُس نے پیار سے جواد کا گال چوما اور شائستگی سے بولا: ”میں اپنے بیٹے کو جلد ہی کمپیوٹر، سائیکل اور بہت سارے کھلونے لے کر دوں گا۔” اُس نے مُسکرا کر بالخصوص سائیکل کا نام لیا وہ کئی سالوں سے سائیکل کی فرمائش کر رہا تھا۔ مگر اس سے پہلے اُس نے کبھی بھی جواد کی فرمائش کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ ”واقعی بابا… کیا آپ مجھے کمپیوٹر اور سائیکل دونوں چیزیں لے کر دیں گے؟” اُس نے حیرانی سے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جیسے اُس کے باپ نے کوئی انوکھی بات کر دی ہے۔
”ہاں میری جان سب چیزیں آجائیں گیـ” وہ آج بہت خوش نظر آرہا تھاکیوں کہ اُس نے اپنے گھر کے ہر فرد کو مطمئن کیا ہے۔
”بابا آپ بہت اچھے ہیں۔ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ماما ابھی کہہ رہی تھیں کہ آپ مجھ سے زیادہ پیار نہیں کرتے بلکہ عرفان چاچو سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اب میں ماما سے کہوں گا کہ بابا صرف مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اُس نے معصومیت سے ماں کی ساری کہانی سنا ڈالی۔ اُسے افشی پر بہت غصہ آیا جو جواد کے ذہن میں نہ جانے کیا باتیں بٹھا رہی تھی مگر اُس نے بیٹے کے سامنے اپنے غصے پر قابو پا لیا اور جواد کا ہوم ورک ختم ہونے کے بعد کرکٹ کھیلنے کا پروگرام بنایا۔ جواد کرکٹ کھیلنے کی خوشی میں اپنے کمرے کی طرف دوڑا اور ہوم ورک میں مصروف ہو گیا۔ اس نے ٹی وی آن کیا… اور نیوز دیکھنے لگا مگر بار بار اُس کے ذہن میں یہ بات گونج رہی تھی کہ آپ چاچو عرفان سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟وہ خوشی سے چائے کا ایک کمرے میں لے کر آئی۔





”یہ لیجئے آپ کی گرما گرم چائے۔” اُس نے مُسکراکر کپ اُسے تھما دیا۔ وہ خاموشی سے چائے پینے لگا اور وہ اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ تقریباً دس منٹ تک جب اُس نے کوئی بات نہ کی تو افشی بولی: ”کیا بات ہے؟ آپ کا موڈ کیوں آف لگ رہا ہے؟” اُس نے فوراً بھانپ لیا اور گھبرا سی گئی۔
”افشی مجھے بہت افسوس ہوا کہ تم جواد کو عرفان کے خلاف بھڑکا رہی ہو؟”
”کیا…کیا… کیا مطلب؟ آپ مجھ پر کیسا گھٹیا الزام لگا رہے ہیں۔ میںنے ایسا کچھ نہیں کیا۔” وہ شرمندگی سے نظریں ملائے بغیر بولی۔
”افشی میں نے جو محسوس کیا تمہیں بتا رہا ہوں۔ اس سے ہمارے بچے کے ذہن پر برا اثر پڑے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جواد عرفان کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگے۔ تم سمجھ رہی ہو نا؟” اُس نے سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھا۔
وہ شرمندگی سے بولی: ”آپ یقین کریں اظہر… میں نے عرفان کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔” وہ پھر سے جھوٹ بولنے لگیاور ساتھ ساتھ آنسو بھی بہا رہی تھی۔ آج اُس کی آواز اونچی نہیں ہو سکتی تھی کیوںکہ ہزار کے کئی نوٹ اُس کے والٹ میں تھے۔ وہ سب طعنے… وہ سب شکایات … اور وہ سب اعتراضات جن کا کسی چھوٹی سی بات پر ڈھیر لگا دیتی تھی، آج وہ سب کچھ نہ کہہ سکی۔
”پلیز افشی اس میں رونے کی کیا بات ہے؟” وہ افسردگی سے بولا اور چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔ آج اُس نے بہت مزے کی چائے بنائی تھی۔ ایسے میں وہ ہرگز افشی کے آنسو نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
”رونے کی بات تو ہے، اس لئے رو رہی ہوں۔ آپ مجھ پر اعتبار نہیں کر رہے۔” اُس نے روتے روتے اُس کی طرف دیکھا۔
”اتنی اچھی چائے بنا کر لائی ہو۔” اُس نے سپ لے کر بات بدلی اور اُسے محبت سے دیکھنے لگا۔
وہ اپنی چائے کی تعریف پر تھوڑی سی سنبھلی مگر عادت سے مجبور ہو کر اُس نے دھیمے لہجے میں اظہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا: ”اظہر کیا آپ مجھ سے پہلے جیسی محبت کرتے ہیں؟” اس بات پر اظہر کا چہرہ بجھ گیا۔ اُس نے سنجیدگی سے آہ بھری اور چپ چاپ کمرے سے باہر جانے لگا۔ ”کیا ہوا…؟ آپ … آپ کہاں جا رہے ہیں؟” وہ مزید پریشان سی ہو گئی۔
وہ اسے شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا: ”اگر میں یہ سوال تم سے کروں کہ کیا تم مجھ سے پہلی جیسی محبت کرتی ہو تو میرے پاس اُس کا جواب ہے… تمہارے بولنے کے باوجود…!! میں جواد کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں۔” اُس نے بات ختم کی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ دیر تک یہ بات سوچتی رہی اور اُس نے محسوس کیا کہ وہ بدل گئی ہے مگر اب اُسے اظہر کو اپنی محبت کا احساس پھر سے دلانا ہو گا کیوں کہ اظہر نے اُس کی خواہشات کے لیے دوسری نوکری کر لی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب رشوت کی دنیا کا کاروبار کرنے لگا تھا، اور اُس کا راستہ اُسے … اُس نے دکھایا ہے۔
٭٭٭٭
وہ صبح نیند سے بیدار ہوئی تو اُس نے اظہار کی من پسند ڈش قیمہ کریلے بنانا کا سوچا۔ اُس نے فرخندہ سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا اور سارا سامان اپنی پڑوسن سے منگوا لیا۔ وہ رات کو اظہار کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔ آج اُس نے سوچ لیا تھا… کہ وہ اب کسی بات پر جھگڑا نہیں کرے گی مگر جھگڑا تو شاید اُس کی قسمت میں تھا… کہ جب وہ فریش ہونے کے لیے باتھ روم میں گئی تو عرفان یونیورسٹی سے جلدی آگیا۔ فرخندہ بیگم نے اُس کے لیے کھانا نکالا تو ڈونگے میں رکھے قیمہ کریلے پر اُن کی نظر پڑ گئی۔ اُنہوں نے اُس میں سے آدھا سالن نکال لیا اور عرفان کو دے دیا۔ عدفان قیمہ کریلے دیکھ کر بہت خوش ہوا کیوںکہ یہ اظہر اور عرفان کی من پسند ڈش تھی۔ وہ کھانے سے فارغ ہوا اور آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ اُسی دوران افشی اور اماں کے لڑنے کی آوازیں اُس کے کانوں میں آنے لگیں۔
میں نے اظہر کے لیے تھوڑے سے قیمہ کریلے بنائے تھے۔ آپ لوگوں کے لیے دال تھی تو سہی۔ پھر آ پ نے عرفان کو سالن کیوں دیا؟” جب افشی نے ڈونگے میں نصف سالن کو غائب پایا تو جل بھن کر رہ گئی۔
”اللہ سے ڈرو افشی… تم کیسی گھٹیا بات کر رہی ہو اور تم نے کب سے دو ہنڈیا بنانی شروع کر دی ہیں… ہم دال … اور تم گوشت کھائو۔ یہ تم کیسے فیصلہ کر سکتی ہو…؟” فرخندہ بیگم کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اُنہوں لفظ چبا چبا کر ادا کیے۔





”آنے دیں اظہر کو … آج تو سارا مسئلہ حل ہو کر رہے گا۔ میں آپ لوگوں سے تنگ آچکی ہوں۔” وہ غصے سے پائوں پٹخ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور پھر دیر تک کمرے میں بند رہی۔ فرخندہ بیگم اُسے کمرے میںبند پا کر فکر مند سی ہو گئیں کہ کہیں وہ ماضی کی طرح پھر سے خود کشی کرنے کی کوشش نہ کرے۔ انہوں نے اظہر کو پوسٹ آفس فون کر کے جلد گھر پر بلوا لیا۔ اظہر جس کی جیپ میں رشوت سے حاصل کردہ ایک لاکھ روپے موجود تھے۔ وہ بہت خوشی سے گھر جانے کا سوچ رہا تھا مگر ماں کا فون سن کر گھر کی طرف بھاگا اورگھر آکر اُس نے افشی کی منت سماجت شروع کر دی۔ افشی نے تو خود کشی کرنے کا سوچا تک نہیں تھامگر اظہر کی باتوں نے اُسے نئی راہ دی اور اُس نے خود کشی کرنے کی بنیاد بنا کر الگ گھر لے کر رہنے کی بات کر دی۔ اظہر نے بھی روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اماں سے بات کر لی۔
”کیا… تم … تم… نئے گھر میں رہنے جا رہے ہو؟” فرخندہ بیگم اس وقت حیران ہو گئیں جب اگلی صبح اُن کے بیٹے نے علیحدہ ہونے کی بات اُن سے کی۔” ہاں اماں… میںنے ایک کرائے کا فلیٹ دیکھا ہے۔اُس میں شفٹ ہو جاتا ہوں۔ پھر ان شاء اللہ جب نیا گھر بنائوں گا تو آپ لوگوں کو بھی لے جائوں گا۔” اظہر نے نظریں جھکا کر شرمندگی سے بات ختم کی۔ ” اب تو ہمیں چھوڑ کر جا رہا ہے تو تب نئے گھر میں کیسے لے کر جائے گا؟ رہنے دے اظہر… بس کر۔ میرا دل زیادہ برا نہ کر۔” فرخندہ بیگم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ عرفان بھی کمرے میں آپہنچا۔ وہ بھی بہت پریشان نظر آرہا تھا جس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُس کے کھانا کھانے پر بات اتنا بڑھ جائے گیکہ اُس کا بھائی اور بھابھی علیحدہ گھر لینے کی بات کریں گے۔
”عرفان… تم اماں کا خیال رکھا کرو گے اور مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے زیادہ رکھ سکو گے کیوں کہ تم شادی شدہ نہیں ہو۔ اُس نے مُسکرا کر ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی مگر عرفان اور فرخندہ چپ رہے۔ ان کے درمیان ایک خاموش جنگ شروع ہو گئی۔ دوسری طرف اس سے پہلے کہ اظہر کا فیصلہ بدل جائے، افشی نے اپنی سہیلی نسرین کے ذریعے ایک فلیٹ کا بندوبست کروا لیا اور پھر فلیٹ میں جا کر ہی اُس نے سُکھ کا سانس لیا۔ اماں اور عرفان کی خاموش جنگ نے اُسے بے چین کر دیا۔ وہ نئے گھر میں شفٹ ہونے پر خوش نہ تھا۔ اُس کے پاس پیسہ تھا مگر وہ پیسے کی بدولت اپنی ماں اور بھائی کو اپنے پاس نہیں رکھ سکا تھا۔ اسی بات سے وہ پریشان ساہو گیا کہ دولت ہونے کے باوجود وہ اپنی بیوی کو منا نہیں سکا مگر پھر اس کے ذہن میں یہ بات گھومنے لگی کہ اُسے جلد از جلد اپنے لیے بہت بڑا گھر بنانا ہو ا جس کے دو پورشن ہوں جہاں وہ اپنی ماں اور بیوی کو الگ الگ پورشن میں رکھ سکے۔ وہ اسی سوچ میں تھا گھر کی سجاوٹ میں مصروف بیوی کی آواز نے اُسے سوچ کی دنیا سے باہر نکالا۔
”شکر خدا کا آخر کار یہ گھر میرے نصیب میں آگیا۔ اے اللہ! میں تیری شکر گزار ہوں۔” وہ خوش نظر آرہی تھی اور اس نے دیوار پر ”ماشاء اللہ” کی وال ہینگنگ لگائی۔
وہ منہ میں بُڑبُڑایا۔” اللہ سے میں بھی مسلسل دعا مانگ رہا ہوں کہ وہ تمہیں ہدایت دے تاکہ تمہارے دل میں نرمی پیدا ہو جائے۔تم میری اماں اور عرفان کو بھی اس گھر میں لے آئو تو پھر یہ گھر گھر نظر آئے گا۔”
”آ پ نے مجھ سے کچھ کہا؟” وہ اظہر کو حیرانی سے دیکھنے لگی جو تصویر کو دیکھ رہا تھا… اور جس کے چہرے کی اُداسی سے اُسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے۔
”نہیں… میں خود سے بات کر رہا تھا۔” اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”آج کل آپ خود سے زیادہ باتیں نہیں کرنے لگے۔ وہ ہنسی۔ اُس نے مزید کچھ پینٹنگز وال پر لگانے کے لیے اُس سے مدد لی اور وہ بجھے دل سے اُس کی ہر بات پر عمل کر رہا تھا… !! وہ پرانے دنوں کو یاد کر کے مُسکرا رہی تھی اور وہ پرانے دنوں سے دور … اپنی اماں اور اپنے چھوٹے بھائی عرفان کو یاد کر رہا تھا اور اُس نے سوچ لیا کہ بس اُسے بہت زیادہ پیسہ بنانا ہے، جس سے وہ انہیں اپنے پاس لے آئے گا۔ جب وہ گھر کی سجاوٹ سے فارغ ہوا تو اُس کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ افشی نے آرڈر کر کے پیزا منگوا لیا اور جواد کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی اور پھر بس ہر روز کھانے کی ٹیبل پر اُس کی پیزا کھانے کی فرمائش ہوتی جسے افشی فوراً پوری کر دیتی…!! اظہر اس بات سے بالکل بے خبر تھا کیوں کہ وہ دوپہر کا کھانا اماں کی طرف سے کھاتا تھا۔ اس بہانے وہ روز اماں سے ملنے جانے لگا اور افشی کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا کیوں کہ اُس کے پوسٹ آفس سے فلیٹ بہت دور تھا… ایسے میں میاں کی صحت اُسے پیاری تھی۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!