لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

”ہاں شیریں… نوڈلز لے آئیں۔” اُس نے پیار سے جواب دیا اور پھر اپنے باپ کی طرف دیکھ کر اُس کی تعریف کی۔ ”بابا… شیریں بہت اچھی ہے۔ میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ میری ہر بات مانتی ہے۔” اُس نے محبت کے ساتھ شیریں کے بارے میں بتایا۔ شیریں مُسکرا کر باورچی خانے میں چلی گئی۔
وہ شیریں کی تعریف پر خوش ہو گیا ”ہاں سچ میں شیریں بہت اچھی ہے۔” اُس نے بیٹے کو جواب دیا۔
”مگر بابا… ماما کو شیریں اچھی نہیں لگتی۔” وہ کہہ رہی تھیں کہ اگلے ماہ وہ شیریں کو ملازمت سے نکال دیں گی۔
”وہ کیوں؟” وہ چونکا۔





”شیریں پڑھی لکھی، جو نہیں ہے… ماما کی سہیلی نورین آنٹی نے انہیں ایک نئی ملازمہ کے بارے میں بتایا ہے، جو کافی پڑھی لکھی ہے۔” جواد نے صاف صاف بتا دیا۔ اظہر نے غصے سے ناشتا چھوڑا اور افشی کے پاس پہنچا۔ وہ اپنے چہرے پر میک تھوپ رہی تھی۔ ”افشی… یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ تم شیریں کو ملازمت سے نکال رہی ہو؟”
”ہاں… آپ نے صحیح سنا۔ کیا شیریں نے آپ کو بتایا ہے؟”افشی نے آنکھوں پر گہرے رنگ کا شیڈ لگاتے پوچھا۔
”نہیں… شیریں نے تو اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔ مجھے جواد نے بتایا ہے۔” اُس نے خفگی سے جواب دیا۔
”اظہر… آپ تو جانتے ہیںکہ یہ ملازم طبقہ سب سے پہلے امیروں کے بچوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے تاکہ انہیں ملازمت سے نکالا نہ جائے۔ شیریں کی جگہ ہم جو ملازمہ رکھیں گے، وہ گھر کا نقشہ ہی بدل دے گی اور آپ کو تو پتا ہے کہ شیریں سے بات کرتے کرتے جواد کی لینگوئج کتنی بدل رہی ہے۔”
”تم جواد کو اپنا وقت دو تو ایسا کچھ نہ ہواور ہاں شیریں کو تنخواہ میں دیتا ہوں۔ اس لئے تم میرے حکم کے بغیر شیریں کو نہیں نکال سکتی۔ ”اُس نے غصے سے اپنا حکم جاری کیا۔
اُس نے لپ اسٹک کا ایک اور کوٹ لگایا پھر حیرانی سے اُسے دیکھ کر بولی: ”آپ ایک ملازمہ کے لیے میری بے عزتی کریں گے؟”
”ہاں… تمہاری بے عزتی کروں گا۔” وہ غصے سے چیخا اور اُس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا سارا میک اپ کا سامان اُٹھا اُٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا۔ وہ گھبرا کر دیوار کے ساتھ جا لگی۔ فرخندہ، جواد اور شیریں اُس کے کمرے میں دوڑے چلے آئے۔ آخر کار شیریں نے اظہر کو روکا۔
”صاحب جی… آپ … آپ یہ … یہ سب …” شیریں کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ افشی نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا، جس پر فرخندہ بیگم اُسے اپنے پورشن میں لے گئیں۔ وہ دیر تک شیریں کی باتوں میں کھو سا گیا، جو اُسے سمجھا رہی تھی کہ وقت کے ساتھ افشی بیگم سب کچھ سمجھ جائیں گی… اور آپ افشی بیگم پر غصہ نہ ہو اکریں۔” اُسے شیریں کی باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ سوائے اس کے وہ اُس کے پاس بیٹھی تھی اور اُس کی میٹھی آواز اُس کو سکون دے رہی تھی۔ اُس کا میک اپ سے پاک چہرہ اُسے خوشی دے رہا تھا۔ بالکل افشی کے چہرے کی طرح… جب اُس نے افشی کو پہلی بار دیکھا تھا تو اُسے محبت ہو گئی تھی۔ وہ افشی کی سادگی کا اتنا عادی ہو چکا تھا کہ آج افشی میک اپ میں اُسے دوسری عورت دکھائی دے رہی تھی، جس کی وجہ سے اُس کا غصہ دُگنا ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ اپنی دل کی بات زبان پر لاتا، اُس کا بھائی عرفان کمرے میں آگیا۔ شیریں اُس کو دیکھ کر خاموشی سے باہر نکل گئی۔ گھر میں اک عرفان ہی تھا، جس سے شیریں بات چیت کرنے سے پرہیز کرتی تھی اوریہ بات اظہر نے محسوس کی تھی… اور سوچا کہ شاید یہ اُس کی شرافت ہے جو وہ اپنے ہم عمر سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتی اور نہ ہی عرفان نے کبھی اُس کی شکایت کی تھی وہ دیر تک اپنی بھائی کے ساتھ بیٹھا رہا اور دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔
٭٭٭٭





اظہر کی زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ ایک دن جب وہ گھر واپس آیا تو افشی نے روتے روتے اطلاع دی کہ اُن کے بیٹے کو کسی نے اغواء کر لیا ہے۔ اُس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ افشی نے اسے میسج دکھایا، جس میں بیس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ آیا تھا اور پولیس کو بتانے کی صورت میں بچے کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اُس نے نمبر پر کال کی مگر نمبر بند جا رہا تھا۔ بیس لاکھ کی رقم یک دم اُس کے سر پر آگری۔ اُس نے دوستوں سے اُدھار مانگا مگر کسی نے بھی اُس کو اُدھار نہ دیا۔ شاید ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ اظہر کو پیسوں کی کیا ضرورت پڑ سکتی ہے اور جو بھی ضرورت ہو گی وہ پریشانی کا باعث نہیں ہو سکتی۔اظہر اپنے دوستوں سے ناکام ہوا تو آخرکار اُس کی ماں بیوی کے پاس جتنا زیور تھا، اُس نے وہ فروخت کیا تب کہیں جا کر رقم کا بندوبست ہوا۔ اُسے اپنے دوستوں پر غصہ آرہا تھا،جنہیں اس نے بُرے وقت میں ہمیشہ اُدھار دیا تھا اور اب وہ اُس کا فون تک پک نہیں کر رہے تھے۔ اُسے احساس ہواکہ جب وہ غریب تھا تو ہر کوئی اُس کو اُدھار دے دیتا تھا۔ شاید اس لیے کہ اُس کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ غریب کو اپنے چولہے سے بہت پیار ہوتا ہے۔ رقم کابندوبست ہونے کے بعد اُس کی جان میں جان آئی… اور اُس نے اسی نمبر پر کال ملا دی… جس نمبر پر پیسوں کا مطالبہ کیا جا رہا تھا… مگر اُس کا وجود کانپنے لگا کیوں کہ سیل فون کی رنگ ٹون اُسی کے گھر کے کسی کمرے سے سنائی دینے لگی، وہ اُس کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ کمرا شیریں کا تھا۔ شیریں اُس سیل فون کو سائلنٹ پر لگانا بھول گئی تھی۔ اُس نے کانپتے ہاتھوں سے سیل فون اٹھایا… سیل فون کا نمبر وہی تھا جس سے میسجز کیے گئے تھے۔ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جواد کو شیریں نے اغوا کیا تھا… اُس کے سر پر آسمان آگرا۔ یہ سارا پلان اُس کے بھائی عرفان نے شیریں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا۔ اُسے شیریں سے اتنا شکوہ نہ ہوا مگر عرفان تو اس کا سگا بھائی تھا۔ جس نے اُسے بیٹوں کی طرح پالا تھا، آخرکار ضمانت کروانی پڑی اور وہ عرفان کو گھر لے آیا۔
فرخندہ بیگم نے ماتم شروع کر دیاکہ ”عرفان یہ تم نے کیا کر دیا۔ اپنے ہی بھتیجے کو اغوا کیا… تمہیں شرم نہیں آئی۔ کیا یہ سب تم نے پیسوں کے لیے کیا؟” فرخندہ نے عرفان کے منہ پر زور زور سے طمانچے مارنے شروع کر دیئے۔اسے لگ رہا تھا کہ اُس کے چھوٹے بھائی کو شیریں نے بھڑکایا ہے، جس وجہ سے اُس نے اتنا غلط قدم اٹھایا ہے۔ مگر عرفان نے جب زبان کھولی تو اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ غصے سے چیخا ”ہاں … ہاں… میںنے پیسوں کے لیے جواد کو اغوا کیا تھا۔ آپ سب لوگ کیا چاہتے تھے کہ میں ہاتھ پھیلاتا رہ جائوں اور اظہر بھائی کے پاس تو لاکھوں تھے۔ اُن میں سے کچھ لاکھ مجھے مل جاتے تو میرا بھلا ہو جاتا۔ میں چھوٹا بزنس کر لیتا۔ جس طرح جویریہ کے شوہر کو بھائی نے دس لاکھ اُٹھا کر دے دیئے… مجھے بھی بیس لاکھ مل جاتے تو کوئی قیامت نہ آجاتی۔”
فرخندہ بیگم روتے روتے بولی: ”تو … تو یہ کیا بک رہا ہے؟”
”اماں… میں نے کوئی بُرا کام نہیں کیا۔میں جب بھی پیسوں کا مطالبہ کرتا تھا، آپ خاموش کروا دیتی تھیں کہ افشی بھابھی ہمیں ذلیل کر دیں گی۔” یہ سُنتے ہی افشی کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی اور فرخندہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔اظہر چپ چاپ کمرے میں چلا گیا، جو جانتا تھا کہ عرفان کا قصور نہیںہے۔ یہ تو اُن لاکھوں روپوں کا قصور ہے، جس نے اُس کے ہر رشتے کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ جب وہ پہلی دفعہ گھر میں لاکھ لایا تھا تو سوچ رہا تھا کہ اب اُس کی زندگی کا ہر مسئلہ سلجھ جائے گا۔ کوئی دکھ … کوئی تکلیف… اُس کو … اور نہ ہی اُس کے گھر والوں کو چھو سکے گی۔
عرفان کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی” ہاں ہاں… ہاں… مجھے بھی لاکھ چاہیے۔ میں بھی امیر بننا چاہتا ہوں۔ اگر میرے پاس دولت آجائے گی تو میں بھی زندگی سکون سے گزار سکوں گا اور میں نے جو کچھ کیا مجھے کوئی افسوس نہیں!! جب گھی سیدھی اُنگلی سے نہیں نکلتا تو اُنگلی کو ٹیڑھا کردیا جاتا ہے… بس میں نے بھی انگلی ٹیڑھی کر دی اور میری انگلی ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میں گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔” فرخندہ بیگم کے رونے کی آواز تیز ہو گئی۔ اُس کا چھوٹا بھائی عرفان گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اُس نے کمرے سے باہر قدم نکلنا چاہا اُسے ایک زور کا چکر آگیا اور وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنی آنکھیں موند لیں آنکھوں سے آنسو نکل پڑے… وہ منہ میں بُڑبُڑایا…!! ”جب میں غریب تھا۔ سو طرح کے مسائل تھے مگر اُن مسائل کو سلجھا نہیں سکتا تھالیکن میں مطمئن تھا۔ مگر آج میں امیر ہوں، سارے مسائل چند منٹوں میں سلجھا سکتا ہوں مگر میں مطمئن نہیں ہوں کیوںکہ میرے پاس لاکھ جوموجود ہیں۔”
وہ لاکھ جنہوں نے مجھے اپنی ماں سے جدا کر دیا……
وہ لاکھ جنہوں نے مجھے بیوی سے بے وفائی سکھا دی……
وہ لاکھ جنہوں نے میرے معصوم بیٹے کی معصومیت چھین لی……
وہ لاکھ جنہوں نے میری بہن کی زندگی کو اجیرن کر دیا……
وہ لاکھ جنہوں نے میرے بھائی کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا……
وہ لاکھ جنہوں نے مجھے شرابی بنا دیا… اور نہ جانے یہ لاکھ مجھے اور کتنی اذیت دیں گے…

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!