لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

”انگلش کے ٹیسٹ بالکل اچھے نہیں دے رہا۔ پرنسپل نے مجھے فون کیا تھا کہ مجھے جواد کے لیے کسی اچھی ٹیوشن کا بندوبست کرنا چاہیے مگر اچھی ٹیوشن پیسوں سے…” اُس نے بات کو اُدھورا چھوڑ دیا اور غصے سے اُسے گود سے اُتار لیا۔
”بابا… میں نے پرسوں آپ کو سارا ٹیسٹ یاد کر کے سنایا نہیں تھا؟ انگلش کا ٹیسٹ مجھے دیر سے یاد ہوتا ہے مگر میں کوشش کروں تو جلدی بھی یاد کر لیتا ہوں۔ بابا… میں آئندہ انگلش کے ٹیسٹ میں اچھے نمبر لے کر آئوں گا۔ آپ ماما کی بات ہرگز نہ مانیں، بس مجھے ویڈیو گیم لا کر دیں۔” اُس نے معصومیت کے ساتھ باپ کا ہاتھ پھر تھام لیا کیوں کہ ویڈیو گیم اُس کے سب دوستوں کے پاس تھا اور وہ اُس کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔
”افشی… تم دیکھناکہ ان شاء اللہ جواد بہت اچھے نمبر لے کر آئے گا اور خوب محنت کرے گا۔” اُس نے بیٹے کے گال کو چھوا اور اُس کا کندھا تھپ تھپایا۔
وہ بے زاری سے بولی:” ہاں… وہ نمبر شاید لے آئے مگر آپ شاید…” اُس نے بات کو پھر اُدھورا چھوڑ دیا اور جواد کا بازو تھام کر اُسے لے گئی، وہ دیر تلک سوچتا رہ گیا کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے اپنی بیوی بچے کو ترسا رہا ہے۔اُسے پارٹ ٹائم نوکری کر لینی چاہیے۔ شاید اس سے اُس کے حالات کچھ بہتر ہو سکیں مگر وہ دیر تک اس سوچ میں نہ رہ سکا اور تیار ہو کر باورچی خانے میں جا پہنچا، جہاں اُس کی ماں چائے تھرماس میں ڈال رہی تھی۔ وہ صبح کا ناشتا ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کرتا تھا اور فرخندہ بھی اس ذمہ داری کوخوش اسلوبی سے نبھا رہی تھی۔ شاید یہ وہ وقت تھا جس میں فرخندہ اور اظہار آرام سے کھل کر بات کر پاتے تھے، ورنہ افشی کی موجودگی میں کوئی بات ہونا تقریباً ناممکن تھا۔
”السلام علیکم !… اماں” اُس نے ادب سے ماں کو سلام کیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔





”وعلیکم السلام! جیتے رہو… میرے بچے۔ اللہ تم پر اپنی رحمتیں نوازتا رہے۔” فرخندہ نے ناشتا رکھ کر ڈھیروں دعائیں اُسے دے دیں۔ وہ خاموشی سے ناشتا کرنے لگا، اور وہ اُس کے سامنے بیٹھ گئیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں… جوںہی وہ ناشتے سے فارغ ہوا اُنہوں نے اُسے مریم کے دیور کے گھر بیٹا ہونے کی اطلاع دے دی وہ ماں کی بات پر بجھ سا گیا۔
”اظہر بیٹا میں جانتی ہوںکہ تمہارے لیے کتنا مشکل ہوتاہے؟ جب کوئی خرچا نکل آتا ہے… مگر مجبوری ہے کہ اگر جویریہ کے گھر نہ گئے تو اُس کی ساس خفا ہو جائے گی۔”
”تو پھر آپ نے کیا دینے کا سوچا ہے؟” اُس نے فوراً اصل بات پوچھ لی۔ وہ نظریں چرا کر بولیں ”دو ہزار نقد تھوڑی مٹھائی اور پھل لے جائوں گی۔” جس طرح جویریہ نے اُنہیں کل رات فون کر کے پٹی پڑھائی تھی، اُنہوں نے جوں کی توں سنا دی۔
”اماں مٹھائی اور ایک ہزار ٹھیک ہے۔” اُس نے شائستگی سے اپنا فیصلہ سنایا اور ماں کو دیکھنے لگا۔
وہسختی سے بولیں:” نہیں… نہیں… پھر میں نہیں جائوں گی۔ تم اکیلے جا کر دیکھ آئو۔ اگر مجھے بھیجنا ہے تو میں دو ہزار اور مٹھائی پھل ہی لے کر جائوں گی۔ بلکہ جویریہ تو کہہ رہی تھی کہ سلیمان کے لیے بھی کوئی تحفہ لے آئیں تو اچھا رہے گا… ظاہر ہے وہ میرا نواسا ہے۔” اُنہوں نے دوسرا خرچ بھی سُنا دیا۔ اُس بے چارے کی جیب خالی تھی۔ ایسے میں وہ ماں کو کیا بتاتا کہ اُس نے پچھلے ماہ اُدھار لے کر گھر کا خرچ چلایا ہے… اور اُس کی وجہ اُس کی پیاری بیوی ہے۔ جسے وہ دو دفعہ مہنگے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلا کر لایا تھا۔ مگر اُسے فوراً یاد آگیا کہ پچھلے ماہ اُس نے فیملی کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔
وہ سنجیدگی سے بولا: ”اماں آپ جانتی ہیںکہ پچھلے ماہ میں نے عرفان کی داخلہ فیس کسی سے اُدھار لے کر دی ہے۔ آپ بھی بیمار تھیں، آپ کی ادویات پر خرچا آیا تھا اور پھر افشی کی سہیلی نسرین کی شادی گزری تھی۔ میں نے جن جن لوگوں سے اُدھار لیا ہے، وہ اپنے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور میں نے اسی ماہ ہر ایک کے ساتھ ادھار چکانے کا وعدہ کیا ہے… ایسے میں کیسے روپوں کا بندوبست کروں؟” اُس نے سرجھکا لیا۔
فرخندہ بیگم کا چہرہ اُتر گیا۔ وہ دل ہی دل میں بولیں: ”کاش میں اظہر کی شادی جلدی نہ کرتی تو آج مجھے یہ دن دیکھنا نہ پڑتا” وہ خاموش ہو گئیں۔
”اماں… آپ ناراض ہو گئیں کیا؟” وہ یک دم فکر مند سا ہو گیا۔
”نہیں بیٹا ناراضی کیسی؟ میں ماں ہوں تمہاری… تمہاری مجبوری نہیں سمجھوں گی تو پھر کیسی ماں ہوں سچ جب سے تیری شادی ہوئی ہے تیرے چہرے سے خوشی غائب ہے۔ دن رات محنت کرتا رہتا ہے۔ مگر… افشی … تیرے ساتھ… !!” انہوں نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”اماں! میں کسی سے اُدھار پکڑتا ہوں۔” اُس نے ماں کو افشی کے خلاف بات کرتے دیکھا تو پریشان سا ہو گیا اور ماں کو راضی کرنے لگا کہ وہ اُن کی خوشی کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ لمبی سانس چھوڑ کر بولیں: ”نہیں اظہر بیٹا… پہلے ہی اتنا اُدھار سر پر چڑھا رکھا ہے تو ایسا کر… چھٹی کے بعد اکیلے ہی مریم کے گھر چلے جانا۔” وہ حیرانی سے ماں کو دیکھنے لگا۔ وہ سنجیدگی سے بولیں: ”ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہیے… اب میں تمہاری بیوی جیسی حرکت تو نہیں کروں گی کہ تمہیں جان بوجھ کر قرض کی آگ میں جھونک دوں… جیسے اُس نے نسرین کی شادی پر اُسے پانچ ہزار سلامی دلوائی ہے۔ نسرین کب اُس کے کسی برے وقت میں کام آئی ہے؟” اُنہوں نے منہ بسور کر وہ پانچ ہزار یاد کروائے … جو افشی نے زبردستی نسرین کی شادی پر اُس سے لیے تھے اور اس وجہ سے گھر میں کافی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔
وہ پریشانی سے بولا: ”اماں پرانی باتیں بھول جائیں۔” وہ افشی کے خلاف مزیدکچھ سننا نہیں چاہتا تھا کیوںکہ وہ کبھی بھی واپس آسکتی تھی۔ اس لئے اُس نے بیرونی دروازے پر نظریں جمائیں ہوئیں تھیں۔





”ہاں … پرانی باتوں کو یاد کرنے کا فائدہ بھی نہیں۔ انسان کو تکلیف ہی دیتی ہیں۔ تو ایسا کرنا آج جویریہ کی طرف چلے جانا اور اُس کی ساس میرا پوچھے تو بیماری کا بہانہ کر دینا۔” فرخندہ بیگم نے بات کو ختم کیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بات بگڑ جائے اور وہ خود جانے کے قابل رہیں اور نہ ہی کوئی اور جا پائے کیوں کہ ہر روز جویریہ اُنہیں کال کر کے آنے کا پوچھ رہی تھی۔ اُس نے ماں کی بات پر سر ہلا دیا اور پھر وہ گھر سے پوسٹ آفس کے لیے نکل گیا۔ روزانہ کی طرح آج بھی گھریلو پریشانیاں اُس کے ساتھ ساتھ ہم راہ تھیں۔ اک یہ سفر تھا… جس میں رہتے ہوئے وہ خواہشات کے بارے میں سوچتا… کاش اُس کے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ وہ موٹر بائیک ہی لے سکتا اور اُس کی زندگی میں کچھ آرام آجائے۔ اسی سوچ میں وہ پوسٹ آفس جا پہنچا، جہاں اُسے اک بُری خبری ملی کہ اُس کے ہیڈ اشرف کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اب وہ اشرف کے بھی سارے کام سنبھالے گا۔ وہ اپنی سیٹ پر آبیٹھا اور اُس نے اپنا سر پکڑ لیا۔
”مبارک ہو اظہر… تمہاری تو لاٹری نکل آئی” اُس کے کولیگ حمزہ نے اُس کا کندھا تھپتھپایا۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگا: ”یار کس بات کی مبارک دے رہو…؟”
وہ خوشی سے کہنے لگا: ”اشرف صاحب لمبی چھٹی پر گئے ہیں۔ اس میں تمہارا بہت فائدہ ہے۔” اُس نے اِدھر اُدھر دیکھ آواز کو آہستہ کرلیا تاکہ کوئی سُن نہ لے۔
”میرا فائدہ… ؟؟ یا نقصان؟ اشرف صاحب کے کام کے ساتھ مجھے اپنے کام کی ساری ذمہ داریاںبھی سنبھالنی ہوں گی مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا کہ میرا فائدہ کیسے؟… اور تم مبارک باد کس بات کی دے رہے ہو۔” وہ حیرانی سے اُسے دیکھنے لگا۔
”میرے پیارے دوست اظہر… اب تم بھی لاکھوں میں کھیلو گے۔ اگر تم تھوڑے سمجھ دار ہو جائو۔” اُس نے مُسکرا کر جواب دیا۔ حمزہ کے منہ سے لاکھوں کی بات سن کر اُس کی آنکھیں کھل سی گئیں۔ ”تم … تم … کہنا کیا چاہ رہے ہو” وہ تجسس سے پوچھنے لگا۔
”یار اظہر… تم اشرف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یا پھر انجان بننے کا ڈرامہ رچا رہے ہو… یا پھر اندر ہی اندر اشرف صاحب جو مال بناتے تھے، تمہیں تمہارا حصہ دے دیتے تھے۔” اُس نے شدید سخت لہجے سے پوچھا۔
وہ حیرت سے بولا: ”سچ یار! مجھے کچھ علم نہیں کہ اشرف صاحب کیا کام کرتے تھے اور نہ ہی میں نے کبھی اُن کے کام میں دل چسپی لی ۔”
وہ دھیمے لہجے میں بولا: ”تو اب اُن کے کام میں دل چسپی لینا شروع کر دو۔ تمہارے بُرے دن گئے اور ہاں یار اب اچھے دنوں میں مجھے نہ بھول جانا۔” اُس نے قہقہہ لگایا۔
”میرے اچھے دن شروع؟ میں لاکھوں کما سکوں گا؟ تمہاری باتیں میری سمجھ سے تو باہر ہیں۔” اُس نے بجھے لہجے میں جواب دیا۔ جیسے واقعی اسے اشرف صاحب کے کام کے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔ اُس کے دوست حمزہ نے پھر بتایا کہ اشرف صاحب بزنس مین سے کیسے سودا کرتے ہیں۔ وہ بزنس مین کے مال پر کم ٹیکس لگا کر رشوت لیتے ہیں اس پارٹی کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی جیب بھی بھاری کر لیتے۔انہوں نے اسی طرح لاکھوں کمایا اور اپنے لیے شان دار گھر، گاڑی اور زندگی کی ہر ضرورت کو پورا کر لیا… اور کر بھی رہے تھے۔” اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اُس کی ناک کے نیچے یہ سب کام ہو رہا تھا اور اک وہ تھا جسے اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ حمزہ نے اشرف صاحب کا سارا کالا رجسٹر کھول کر اس کے آگے رکھ دیا اُس نے تمام پرانی دستاویزات نکالیں… جن سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اشرف صاحب نے کم و بیش وزن لکھوا کر کتنا مال اپنی جیب میں ڈالا تھا اور اُس مال کا حساب لگانا مشکل ہو رہا تھا۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب اُس کی باری ہے، وہ بھی بہت پیسہ اس طرح بنائے گا اور کھائے گا۔ چھٹی کے بعد وہ گھر جا کر آرام کرنا چاہتا تھا… مگر اُسے یاد آیا کہ اسے اپنی بہن جویریہ کے گھر جانا ہے۔ وہ بہن کے گھر پہنچا تو اُس نے بجھے دل سے اُس کا استقبال کیا کیوں کہ وہ مٹھائی کے ساتھ پھل نہیں لایا تھا۔
”موڈ کیوں آف ہے؟” اُس نے مسکرا کر پوچھا۔
وہ منہ بسور کر بولی: ”بھائی مٹھائی کے ساتھ پھل بھی لے آتے… تو کتنا اچھا ہوتا؟” اُس نے سیدھا سیدھا اعتراض کر دیا…!! اور اس بات کی پرواہ تک نہ کی کہ اظہر چھے ماہ کے بعداُس کے گھر قدم رکھ رہا ہے۔
وہ شائستگی سے بولا:” اگلی بار آئوں گا تو پھل بھی لائوں گا اور سوٹ بھی!!” اُس نے مُسکرا کر بہن کو مطمئن کرنا چاہا، جس کے چہرے پر خوشی کا تاثر نہ تھا۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!