لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

فرخندہ بیگم ہر چیز بہت محبت کے ساتھ اُس کے لیے تیار کرتی تھی… مگر عرفان کو اعتراض تھا کہ اب وہ بوڑھی ہو چکی ہیں ، اتنی محنت سے کھانا بنانا ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور یوں… اماں کی صحت کے پیشِ نظر اُس نے پھر پوسٹ آفس سے کھانا شروع کر دیا۔ اک عجیب سی بے چینی اُس کے اندر پرورش پا رہی تھی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ خوش نہیں تھا۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید جب اماں اور عرفان اُس کے پاس آجائیں گے تو سب کچھ نارمل ہو جائے گا۔ اس لئے اُس نے رشوت پہ رشوت لینا شروع کر دی۔کچھ اِدھر اُدھر سے اُدھار مانگ کر زمین خرید لی اور ایک شان دار مکان بنا لیا۔ اس مکان کو بنانے میں اُس نے دن رات ایک کر دیئے اور نتیجتاً وہ اپنی فیملی کو زیادہ وقت نہیں دے پایا تھا۔ جب مکان میں شفٹ ہونے لگا… تو وہ خوشی خوشی اپنی ماں اور بھائی کو لینے پہنچا۔ افشی کو اب کوئی اعتراض نہ تھا کیوںکہ اظہر نے گھر کے اندر ہی دو پورشن بنائے تھے ۔ دونوں پورشنزکا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور افشی جانتی تھی کہ اب اُس نے کوئی اعتراض کیا تو شاید وہ اظہر سے بہت دور چلی جائے گی… کیوں کہ اظہر بہت سنجیدہ ہو چکا تھا۔ مگر اظہر کی ساری خوشی اس وقت خاک میں مل گئی، جب فرخندہ بیگم نے نئے گھر جانے سے انکار کر دیا۔
”نہیں… اظہر تمہیں تمہارا نیا گھر مبارک ہو۔ میں اپنے پرانے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہوں۔” فرخندہ بیگم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
”اماں… نہیں… آپ میرے ساتھ چلیں، اب افشی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ اپنا پورشن دیکھیں گی تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔” اُس نے خوشی خوشی ماں سے اظہار کیا، جو یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کی اماں نے اُس کے بغیر کیسے دن کاٹے تھے۔





”نہیں اظہر… اب مجھے تمہارے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی ہے… جیسے تو میرے بغیر رہ رہا تھا۔” فرخندہ بیگم نے اُسے احساس دلایا کہ اُس نے کیسے علیحدہ گھر رہنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ وہ اُس سے دور رہنا نہیں چاہتی تھیں۔
”اماں… ساری پرانی باتوں کو بھلا دیں اور میرے ساتھ چلیں۔ اس نے ماں کا ہاتھ چوم لیا،اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اُس نے بہ مشکل خود پر قابو پایا۔
”بیٹا… عرفان کی مرضی نہیں ہے۔ تم جانتے ہو تمہاری بیوی نے ایک سالن کی پلیٹ پر کتنا بڑا ہنگامہ کیا تھا اور پھر کوئی مسئلہ کھڑا ہو گیا تو … عرفان اب بڑا ہو گیا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی اُس کی بے عزتی کرے۔ تم سمجھ رہے ہو نااُس نے سنجیدگی سے بات اُسے سمجھائی اور وہ سمجھ گیا کہ دولت اور غربت کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ عرفان کو اس نے کئی دفعہ فون کیا مگر اُس نے فون پک نہ کیا۔ شاید وہ خفا تھا کافی وقت سے اُس کی عرفان سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی کیوں کہ وہ خود بھی مکان بنانے میں مصروف رہا تھا۔ وہ بجھے دل سے گھر پہنچامگرجواد اور افشی گھر پر نہ ملے۔ افشی نے اُسے فون کیا کہ وہ لوگ کچھ ضروری سامان لینے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ اُس نے آرام کرنا مناسب سمجھا اور دیر تک سوتا رہا۔ دو گھنٹے کی مکمل نیند کے بعد وہ اُٹھا۔ تو اس کے سیل فون پر اُس کی بہن جویریہ کی کالز آئی ہوئی تھیں۔ اُس نے فوراً جویریہ کو فون کیاتو دوسری طرف جویریہ کے رونے کی آواز سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ جویریہ اپنے شوہر کے لیے اُس سے ادھار مانگ رہی تھی اور ایسا ادھار وہ کئی دفعہ دے چکا تھا۔ بہن کے رونے کی آواز نے اُسے موم کر دیا اور اس نے پیسے دینے کا وعدہ کر لیا، جس کی خبر عرفان اور فرخندہ کو بھی ملی۔ عرفان اس بات پر خاموش ہو گیا جب کہ فرخندہ بیگم نے ا س سلسلے میں اظہر سے بات کی… جب وہ اگلے دن اُن سے ملنے کے لیے آیا۔
”کب تک اُدھار پہ اُدھار دو گے؟ تم اویس کی حرکت سے واقف تو ہو۔” فرخندہ بیگم کے چہرے پہ غصہ تھا۔
وہ حیرانی سے ماں کو دیکھنے لگا، جب اُس کی جیب میں پیسہ نہیں تھا تو وہ کیسے اُسے مجبور کرتی تھیں کہ وہ بہن کے لیے وہ سب کچھ کرے جو اُس کے بس میں بھی نہ ہو۔
”اماں … جویریہ فون پر رو رہی تھی۔” اُس نے بجھے دل سے بتایا۔
”تو جانتا ہے اویس تجھ سے کتنی رقم کا مطالبہ کرے گا؟” فرخندہ بیگم نے تشویش سے پوچھا، جو جانتی تھی کہ اُس کے داماد کی کیا نیت ہے۔
”اماں … جویریہ نے دو لاکھ مانگے ہیں۔” اُس نے بھی حیرانی ظاہر کی۔ ”تو کیا جویریہ نے تمہیں نہیں بتایا کہ اویس نے اُس سے کیا کہا ہے؟” فرخندہ بیگم نے فکرمندی سے پوچھا۔





”نہیں اماں… بس اتنی سی ہی بات ہوئی تھی۔ شاید دس منٹ” اُس نے اندازہ لگایا اور ماں کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ خفگی سے بولیں:” طلاق دینے کی دھمکی دے رہا ہے… اور اُس کی وجہ تم ہو۔” فرخندہ بیگم نے منہ بسور کر اُسے صاف صاف بتا یا کہ جب کل تم فون پک نہیں کر رہے تھے تو جویریہ نے فرخندہ بیگم کو کال کر کے اپنے شوہر کی ساری اصلیت بتا دی… کہ اگر اظہر نے بزنس کرنے کے اویس کو پانچ لاکھ نہ دیئے تو وہ اُسے طلاق دے کر فارغ کر دے گا۔
”کیا؟’ وہ چونکا؟…”طلاق … کیوں؟ اور اس کی وجہ میں کیسے؟” وہ پریشان ہو گیا اور ایک ہی سانس میں سوال کرنے لگا۔
”بیٹا… دو لاکھ تو تھے تمہارے پاس… اس لئے تم نے ہامی بھر لی۔ مزید کس طرح اُس کا منہ بند کرتے رہو گے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ تم تھک جائو گے اور جس دن تم نے اُسے رقم نہ دی یا پھر تمہارے پاس رقم کا بندوبست نہ ہو سکا تو کیا تمہاری بہن طلاق لے کر میرے پاس آبیٹھے؟” فرخندہ بیگم نے لمبی سانس چھوڑی۔
”نہیں… میں جویریہ سے بات کرتا ہوں۔ میں… میں… اتنی بڑی رقم کا کبھی بھی بندوبست نہیں کر سکتا…!!” وہ پریشان سا ہو گیا۔
”میں تو خود اس اویس سے پریشان ہوں۔ مگر بیٹی کے بارے میں سوچتی ہوں خاموش ہو جاتی ہوں۔”
”اماں میں جویریہ سے بات کرتا ہوں… اُ س نے سیل فون جیب سے نکالا وہ جھٹ سے بولیں… نہیں… نہیں… اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں… اب تک تو جویریہ نے اُسے بتا دیا ہو گا… کہ اظہر نے پیسے دینے کی ہامی بھری ہے… مگر شاید جویریہ نے اُسے یہ نہیں بتایا کہ اُس نے تم سے ابھی تھوڑی رقم کا مطالبہ کر کے تمہیں منا لیا ہے… کہ تم وقفے وقفے سے اُسے رقم دو گے۔”
”اماں… یہ … یہ… تو جویریہ نے اچھا نہیں کیا… یہ تو دھوکا ہوا ؟” وہ حیرانی سے ماں کی طرف دیکھنے لگا۔
”بیٹا… اُس کی نظر میں یہ دھوکا نہیں ہے… وہ تو اپنا گھر بچا رہی ہے… اور تم اپنی بہن کو جانتے تو ہو کہ وہ اویس سے کتنی محبت کرتی ہے؟ ” ماں کی اس بات پر اُس کے چہرے پر غصے کا تاثر ابھرا۔ وہ سنجیدگی سے بولا: ”ایسی محبت کا کیا فائدہ…؟؟ جس میں روز نئی آزمائش ہو؟” وہ اپنی بہن کی اس حرکت پر بجھ سا گیا۔
”تم بھی تو اپنا گھر بچانے کے لیے روز نئی آزمائش سے گزرتے ہو…؟” فرخندہ بیگم نے یہ بات کر کے اُس کا دِل جلایا، وہ مزید وہاں نہ رُک سکا، جب کہ فرخندہ بیگم نے اُسے کھانے کے لیے بہت روکا مگر تب اُس کی بھوک مٹ چکی تھی، اُس کی ماں نے اُسے بھی لاجواب کر دیا تھا۔ آج وہ محبت کر کہ پچھتا رہا تھا۔ الغرض اسی سوچ میں وہ گھر پہنچا۔ تو اُسے گھر خالی ملا۔ اُس نے افشی کو فون کیا تو اُسے پتا چلا کہ وہ جواد کے ساتھ شاپنگ پر نکلی ہے کیوں کہ اُس نے اپنی سہیلی نورین کو کل دعوت پر بلوایا ہے۔ وہ تھکے قدموں سے باورچی خانے میں داخل ہوا۔اس کا بی پی لو ہو رہا تھا۔ راستے میں شدید گرمی تھی۔ جویریہ کی اس حرکت نے اُس کے ذہن کو بہت تھکا دیا تھا۔ اُس نے فریج کھولا اور پانی کی بوتل منہ سے لگا دی…اور فریج میں پڑی چیزوں پر سرسری سی نظر ڈالی۔ اُسے عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔ ایسی کوئی چیز نہیں تھی، جو تازہ ہو۔ آخر کار اُس نے بریڈ پیس اور آملیٹ بنانے کا سوچا اور اُسے اپنے ماضی کے دن یاد آگئے کہ جب اُس کی اماں کہیں دور کا م سے جایا کرتی تھیں تو وہ عرفان اور اپنے لیے کتنا اچھا آملیٹ بناتا تھا اور اُس کا بھائی کتنے شوق سے وہ آملیٹ کھاتا تھا۔ مگر پچھلے ایک سال سے عرفان نے اُس سے ملنے ہی چھوڑ دیا۔ وہ بھی عرفان سے ملنے گھر جاتاتو ایک سرسری سی ملاقات ہوتی، وہ بہت خاموش سا ہو گیا تھا یا پھر خاموش رہنے کی عادت ڈال لی تھی جو اظہر کے لیے پریشان کن بات تھی۔ مگر اظہر نے سوچ لیا تھا کہ جویریہ کے مسئلے کے بعد وہ عرفان کو چھوٹا موٹا بزنس شروع کرنے کے لیے پیسے دے گا۔ کیوں کہ وہ بی کام کے آخری سمسٹر میں تھا۔ کھانے سے فارغ ہو ا تو افشی اور جواد گھر آپہنچے۔ افشی نے کافی شاپنگ کی ہوئی تھی اور وہ کافی خوش نظر آرہی تھی۔ جواد اپنی شاپنگ دکھانے کی بہ جائے سیدھا اپنے روم میں چلا گیا،جسے اظہر نے محسوس کیا مگر افشی چونک کر بولی: ”آپ نے کھانے میں انڈا بریڈ لیا ہے” اسے برتنوں کی مہک سے اندازہ ہو گیا تھا۔
”ہاں” وہ مُسکرا کر بولا کیوں کہ اُسے آج بہت مزہ آیا تھا۔ وہ حیرانی سے بولی: ”فریج تو میں نے کل ہی چیزوں سے بھرا تھا۔ آپ کو کھانے کی کوئی چیز نہیں پسند آئی… وہ جو اسپیشل فوڈ اسٹور سے مختلف قسم کی چیزیں لے کر آئی تھی۔” اُس کے چہرے پر عجیب سے حیرانی تھی۔
”افشی … میرا دل ان ڈبے کی چیزوں سے اُکتا گیا ہے۔” اُس نے آہ بھر کر جواب دیا۔
”اپنی اماں کی پٹی مجھے مت سنائیں۔” اُس نے اظہر کی بات کااُلٹا جواب دیا اور اُس کا موڈ آف ہو گیا۔
”تمہارا کیا مطلب ہے؟” وہ حیرانی سے اُسے دیکھنے لگا۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!