لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

وہ کروٹ بدل کر بولی: ”بیس ہزار کی تنخواہ میں گاڑی لینا ناممکن ہے ہاںالبتہ شاپنگ کروا سکتے ہیں، اگر آپ کی مرضی ہو۔” وہ جواب دے کر خاموش ہو گئی اور تھوڑی دیر کے بعد ہی نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اظہر نے اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر پھر وہ سو نہ پایا۔ وہ اُس دن کو یاد کرنے لگا جب افشی نے اُسے کال کر کے شادی پر مجبور کیا۔
”پلیز افشی کچھ تو بولو، رو کیوں رہی ہو؟” اُس نے افشی کا فون پک کیا تو اُسے افشی کے رونے کی آواز آئی۔
”اظہر… پھوپھو نے میرا رشتہ ابو سے مانگ لیا ہے اور ابو میری شادی پر رضامند ہو گئے ہیں۔ میں… میں تمہارے بغیر مر جائوں گی۔ تمہیں مجھ سے ابھی اسی وقت شادی کرنی ہو گی۔” اُس نے کانپتی آواز سے سارا مسئلہ بتایا۔
”شادی… اس وقت؟ افشی تم جانتی ہو کہ میرے گھر کے حالات کیا ہیں؟ ایسی حالت میں تمہارے والدین مجھے قبول کر لیں گے؟ اور تم کیا میری معمولی سی تنخواہ پر گزارہ کر سکو گی؟” اُس نے فکرمندی ظاہر کی جو افشی کے رہن سہن سے بہ خوبی واقف تھا۔
”اظہر تم جتنا بھی کما رہے ہو میں اُس میں گزارہ کر لوں گی مگر تم اپنی اماں کو رشتے کے لیے بھیج دو۔ورنہ میرے گھر والے میری شادی تیمور سے کر دیں گے۔” اُس نے روتے روتے فون پر جواب دیا۔ وہ گھبرا کر بولا: ”مگر افشی … تم سمجھ نہیں رہی۔ اتنی جلدی شادی؟ میں نہیں کر سکتا۔” وہ پریشانی سے فون پر اُسے سمجھانے لگا، جو کانپتی آواز سے اُسے آواز دی کرنے پر زور دے رہی تھی۔
”ٹھیک ہے… تم شادی نہیں کر سکتے اور میں کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔ اس لیے میں خودکشی کر رہی ہوں۔”
”خودکشی… پاگل مت بنو افشی۔ وہ گھبرا سا گیا، جو جانتا تھا کہ افشی اُس سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور خود کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔
”ٹھیک ہے… یہ آخری کال ہے میری۔” وہ رونے لگی۔





”افشی … میں کچھ کرتا ہوں۔ مجھ سے وعدہ کروکہ تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گی۔” اُس نے افشی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ مگر افشی نے دوسری طرف سے لائن کٹ کر دی اور پانچ منٹ بعد ایک میسج سکرین پر نمودار ہواکہ اظہر اگر آج تمہاری اماں میرے گھر رشتہ لینے نہ آئی تو کل تمہیں میرے مرنے کی خبر مل جائے گی۔ اُس نے میسج پڑھا اور افشی کو کال ملائی، مگر افشی نے اُس کی کال پک نہ کی وہ پریشانی میں آفس سے گھر لوٹا اور خود کو کمرے میں بند کر لیا اور دیر تک سوچتا رہا کہ وہ کیسے اتنی کم تنخواہ میں شادی جیسی ذمہ داری سنبھال سکتا ہے۔ مگر افشی کا بار بار یہ کہنا کہ میں کم تنخواہ میں بھی گزارہ کر لوں گی، اُسے اماں سے بات کرنے پر راضی کر رہا تھا اور آخر کار اُس نے محبت کی خاطر اپنی اماں سے بات کر لی اور گھر میں ایک دھماکاہو گیا۔ اماں نے سنتے ہی رونا شروع کر دیا اور تو پریشان سا ہوا۔
”میںنے تو بتول کی بیٹی سے تیرا بیاہ کرنا تھا۔ میں تو گائوں میں بات کر کے آئی تھی کہ جب میرا بیٹا ہزاروں کمانے لگے گا تو میں رشتہ مانگنے آئوں گی مگر تم نے تو میرا خواب ہی توڑ دیا۔ ابھی تو پچیس کا پورا نہیں ہوا اور شادی!!… اور وہ بھی اپنی پسند کی؟؟” فرخندہ بیگم نے طنزیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ وہ چپ چاپ سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اُس کی جگہ اُس کا چھوٹا بھائی عرفان بول اُٹھا۔ ”اماں… بھائی کے نصیب میں لاکھوں نہ آئیں تو کیا آپ اُنہیں کنوارا ہی رکھیں گی۔” عرفان نے خفا ہو کر سوال پوچھا، جو اپنے بڑے بھائی سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔
وہ روتے روتے بولیں:” بیس ہزار میں گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ یا تو بیوی کے نخرے پورے ہوں گے۔ تو ایسا کرکہ مجھے اور عرفان کو مار دے اور پھر شادی کر لے۔” فرخندہ بیگم کی بات سے صاف ظاہر ہونے لگا کہ وہ شادی پر راضی نہیں ہیں اور دوسری طرف اُس کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ کہیں افشی نے واقعی خود کشی کر لی تو کیا وہ زندہ رہ پائے گا۔
عرفان فکر مندی سے اُسے دیکھنے لگا اور پریشانی سے بولا: ”اماں بھائی کی بھی مجبوری سمجھیے۔” اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو کر لینے دیں۔ آخر آج تک بھائی نے آپ سے کچھ نہیں مانگا۔” عرفان نے ماں کا ہاتھ تھام لیا۔
فرخندہ بیگم نے اظہر کے چہرے کی طرف دیکھا جس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ آخر اُنہیں اظہر پر ترس آگیا اور وہ لڑکی کے متعلق پوچھنے لگیں۔ ”لڑکی کون ہے؟ لڑکی کا گھر بار کیسا ہے؟ لڑکی کا باپ کیا کام کرتا ہے؟ خاندان کیسا ہے؟ فرخندہ بیگم نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا۔
اس سے پہلے کہ وہ افشی کا نام لیتا، دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ فرخندہ نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور سامنے اپنی پڑوسن سہیلی فریدہ کو پایا جو روتے ہوئے اُس کے گلے لگ گئی۔ اظہر کا وجود کانپ اُٹھا کہ افشی نے اپنی بات پوری کر دی۔ اس سے پہلے کے وہ چکر کھا کر گرتا، فریدہ نے روتے روتے بتایا کہ افشی نے اپنے پھوپھو زاد کزن کے رشتے سے انکار کر دیاہے اور اُس کا باپ طفیل اُسے اور افشی کو گھر سے نکال رہا ہے۔
فرخندہ بیگم حیرانی سے بولیں:”افشی کہاں ہے…؟ اور وہ کیوں شادی سے انکار کر رہی ہے؟ تمہاری نند تو بہت امیر ہے وہ کیوں انکار کر رہی ہے؟” فرخندہ بیگم نے فریدہ کی نند کے بارے میں بہت کچھ دیکھا اور سنا ہوا تھا… اور اُس کا بیٹا بھی اچھی خاصی جاب پر فائز تھا۔
”کمینی … کسی سے محبت کرتی ہے اور بول رہی ہیکہ اس سے شادی کرے گی۔ نہ جانے وہ لڑکا کون ہے؟ میں تو لُٹ گئی فرخندہ …!! میری بیٹی نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔”





فریدہ بیگم نے روتے ہوئے افشی کی محبت کا راز کھو ل دیا اور فرخندہ بیگم کے وجود میں کرنٹ سا دوڑنے لگا اُنہوں نے مڑ کر اظہر کو دیکھا اور اظہر نے نظریں جھکا لیں… فرخندہ کے سامنے اظہر اور افشی کی محبت کا راز کھل چکا تھا مگر وہ اس محبت کو تسلیم نہیں کر پا رہی تھی کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ افشی امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ اظہر جیسے غریب لڑکے کے ساتھ کیسے گزارا کر پائے گی اور ساتھ ساتھ فریدہ نے اُسے بتا دیا تھا کہ اگر افشی نے اپنی پسند کی شادی کی تو اُس کا باپ اُسے جائیداد سے عاق کر دے گا اور اُس سے اپنا ہر تعلق توڑ دے گا۔ ایسے میں سسرال کی سپورٹ سے بھی اظہر کے محروم ہونے پر وہ گھبرا سی گئیں اور انہوں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا مگر وہ کب تک خاموش رہ سکتی تھیں۔ افشی نے نیند کی گولیاں کھا لیں… اور اس خبر نے اُن کے پیروں تلے زمین کھینچ لی۔ کہیں پولیس کیس میں اُن کا بیٹا ملوث نہ ہو جائے، لہٰذا انہوں نے ہسپتال جا کر فریدہ سے افشی کا ہاتھ مانگ لیا اور بیٹی کی جان کی خاطر فریدہ بھی موم پڑ گئی مگر افشی کے والدین نے دنیا داری نبھاتے ہوئے اظہر کو داماد تو بنا لیا مگر شادی کے بعد انہوں نے وہ محلہ چھوڑ دیا اور کہیں دور جا کر بس گئے اور پھر کبھی اپنی بیٹی افشی کے گھر کا رُخ نہ کیا۔
افشی کے ساتھ اظہر کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی… مگر صرف تین ماہ تک!! اس کے بعد افشی ہر چھوٹی بڑی چیز پراعتراض کرنے لگی جس پر ساس بہو کے جھگڑے شروع ہوئے اور اظہر بے چارہ ان جھگڑوں میں پس کر رہ گیا۔ اُسے اماں کی بات یاد آنے لگی کہ جب میرا بیٹا ہزاروں کمانے والا بن جائے گا، تب اُس کی شادی کروں گی اور دوسری طرف اُسے افشی کی محبت کھوکھلی محسوس ہونے لگی، جو کہتی تھی کہ میں کم تنخواہ میں بھی گزارہ کر لوں گی وہ ہمیشہ اظہر سے جھگڑتی رہتی کہ وہ پوسٹ آفس کی نوکری چھوڑ کر کوئی چھوٹا موٹا بزنس کرلے، مگر چھوٹے موٹے بزنس کے لیے بھی روپے پیسے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس کا اپنا سگا تو کوئی نہیں تھا، ایک چھوٹی بہن جویریہ تھی… جس کا میاں کچھ دینے کہ بہ جائے اُسی سے اُدھار مانگ لیا کرتا تھاپھر لے کر بھول جاتا تھا۔ اظہر شادی کر کے پچھتا رہا تھا اور اب اپنی شادی اور گھر کے سکون کوبچانے کے لیے اُسے ہزاروں روپے چاہیے تھے… وہ دن رات اللہ سے دعا کرتا کہ اے میرے پروردگار مجھے امیر بنا دے اور میرے سارے مسائل دور کر دے۔ مگر اُس کی دعا قبول نہیں ہو پا رہی تھی۔ نہ جانے کیوں!! انہیں حالات میں اللہ نے اُسے بیٹے جیسی نعمت سے نواز دیا… مگر وہ بیٹے کی پیدائش پر بہت زیادہ خوش نہ ہو سکا۔ افشی کے سارے خواب ٹوٹ کر رہ گئے اور وہ چڑچڑی سی ہو گی اور اب اُس کے دل میں خواہش پنپنے لگی کہ ان سب مسائل سے نجات اُس کے والدین ہی اُسے دلا سکتے ہیں۔… اس نے اظہر سے اپنے دل کی بات شیئر کی کہ وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہے۔ اظہر جانتا تھا کہ افشی کے والد اُسے ناپسند کرتے ہیں ایسے میں کہیں افشی باپ کے گھر جا بیٹھی تو وہ اپنے بیٹے سے جدا ہو جائے گااور اپنے بیٹے سے جدا ہونے کے ڈر سے وہ اپنے دوستوں سے اُدھار لینے لگا اور اس طرح افشی کی چھوٹی موٹی خواہشات پوری ہونے لگیں مگر ہر ماہ کی خواہشات سے قرض کا انبار لگتا چلا گیا۔ ان سالوں میں اُس نے صرف یہ محسوس کیاتھا کہ اگر وہ امیر ہوتا تو اُسے ایسی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا… اور گھر کا ہر فرد اُس سے خوش ہوتا مگر شاید خوشی اُس سے روٹھ گئی تھی کیوں کہ افشی نے کبھی اُس کی مجبوری کو نہیں سمجھا تھا۔ اُس کی شادی شدہ زندگی مشکل سے چل رہی تھی یا پھر وہ اُسے مجبوری سے چلا رہا تھا۔
٭٭٭٭
صبح کے سات بج رہے تھے، جب وہ اپنے بیٹے جواد کی آواز سے بیدار ہوا۔ جواد سکول سے چھٹی کرنے پر بہ ضد تھا۔ اُس نے بستر چھوڑا اور باتھ روم میں گھس گیا، جب باتھ روم سے فریش ہو کر نکل آیا تو افشی جواد کے بال بنا رہی تھی۔ وہ سکول جانے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ اُس نے باپ کو دیکھا تو اُس سے لپٹ گیا۔ ”بابا… بابا… آج میں آپ کے ساتھ سکول جائوں گا۔” اُس نے باپ کو دیکھ کر فرمائش کی۔ اُس نے پیار سے اُس کا گال چوما ”نہیں بیٹا… آپ ماما کے ساتھ جائو، مجھے پوسٹ آفس سے دیر ہو جائے گی کیوں کہ تمہارا سکول میرے پوسٹ آفس کے راستے میں نہیں آتا۔”
وہ معصومیت سے بولا: ”اچھا بابا… آپ مجھے ویڈیو گیم کب لے کر دیں گے؟ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ اس مہینے مجھے ویڈیو گیم لے کر دیں گے۔” اُس نے دوسری فرمائش شروع کر دی۔ ”ہاں بیٹا… بہت جلدی لے دوں گا۔” اُس نے پیار سے گال تھپ تھپا کر جواب دیا… اُس کی آنکھوں میں چمک اُبھرنے لگی وہ خوشی سے بولا: ”بابا آپ بہت اچھے ہیں۔”
”کوئی ویڈیو گیم نہیں آرہی … پہلے کیا کم پڑھائی میں لاپرواہ ہے؟” افشی نے پل بھر میں اُس کی خوشی کو چھین لیا… وہ اُداس نظروں سے باپ کو دیکھنے لگا۔
”کیوں افشی… تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو…؟ میرا بیٹا تو… بہت لائق ہے۔” اُس نے محبت سے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!