لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

وہ خفگی سے بولی: ”اماں نے کہا ہو گا کہ گھر کی تازہ چیزیں کھائو۔ ڈبوں کی چیزوں سے سو بیماریاں ہو سکتی ہیں… اور ہائے اظہر مجھے ہزار بیماریاں کیوں نہ لگ جائیں مگر میں تو ہر چیز کو انجوائے کروں گی۔ اگر آپ کو اچھا نہیں لگتا۔ تو آپ گھر میںملازمہ رکھ لیں… جو آپ کی فرمائش پر ہر چیز بنا دے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اماں اب ہمارے گھر آنا چاہتی ہے۔ چلو اسی بہانے سہی…!!” اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ساس کے بارے میں سوچا۔
نہ تو اماں اس گھر میں آرہی ہیں اور نہ ہی وہ آنا چاہتی ہیں۔ دوسرایہ کہ اماں تو جانتی ہی نہیں کہ تم نے کھانا بنانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اگر اُنہیں اس بات کا علم ہو جائے تو شاید پھر وہ صرف میری صحت کے لیے گھر سے کھانا بنا کر بھیجنا شروع کر دیںگی مگر میں ایسا ہرگز نہیں چاہوں گا کہ اماں میری وجہ سے کام کرتی رہیں اور ہاں میں ملازمہ رکھ لوں گا کیوں کہ مجھے ملازمہ کی ضرورت ہے، بیوی کی نہیں!!” وہ غصے سے یہ کہہ کر جواد کے کمرے کی طرف بڑھ گیا، جب کہ افشی منہ بسور کر بیٹھ گئی مگر تھوڑی ہی دیر بعد اُسے شاپنگ کی چیزوں نے پھر سے اپنے اندر انوالو کرلیا اور وہ سوچنے لگی کہ وہ اپنی سہیلی کو کس طرح یہ شاپنگ دکھا کر جلا سکے۔
٭٭٭٭





وہ اپنے بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا۔جواد ویڈیو گیم کھیلنے میں اتنا مصروف تھا کہ اُس نے اپنے باپ کو نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ شاید وہ کم عمر تھا یا پھر ویڈیو گیم کا سحر ہی ایسا ہوتا ہے۔
”کیا ہو رہا ہے جواد؟” آ خر کار اُس نے اُسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
”بابا… آپ دیکھ نہیں رہے… میں گیم کھیل رہا ہوں۔” اُس کے چہرے پر بے زاری تھی اور نظریں گیم پر تھیں۔
”ہاں … ہاں… مجھے نظر آرہا ہے کہ میرا بیٹا گیم کھیل رہا ہے۔ مگر میں اپنے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلنے آیا ہوں۔” اظہر نے اپنے بیٹے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے کرکٹ کا سہارا لیا، باوجود اس کے وہ خود بھی تھکن سے چور تھا۔
”کرکٹ… اس وقت؟” اُس نے حیرانی ظاہر کی مگر پھر اپنی گیم کے سکور بڑھتے دیکھ کر اُس نے معصومیت سے کہا: ”پاپا… ہم کرکٹ کل کھیل لیں گییہ کہہ کر وہ پھر سے گیم میں مصروف ہو گیا۔
اظہر جواد کے کمرے سے خاموشی سے نکلا اورلان میںجا کر ٹہلنے لگا۔ اُسے یاد آنے لگا کہ جب اُس کے بیٹے کے پاس ویڈیو گیم نہیں ہوتی تھی تو اُس کا بیٹا اُسے کھیلنے کے لیے کتنا مجبور کرتا تھا اور وہ تھکن کے باوجود اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے اُس کے ساتھ کرکٹ کھیلتا اور بیٹے کا کھلتا چہرہ اُس کی ساری تھکن دور کر دیتا تھا۔ مگر آج ایسا نہیں ہو سکا …اک مصنوعی کھلونے نے اُسے اپنے بیٹے سے بہت دور کر دیا تھا۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ مصنوعی کھلونے کو توڑ کر پھینک دے مگر اُس مصنوعی کھلونے میں اُس کے بیٹے کی جان تھی۔ پھر وہ کافی دیر کے بعد اپنے بیڈ روم میں گیا جہاں افشی مزے سے سور رہی تھی مگر اُس کی آنکھوں سے نیند نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔
٭٭٭٭
نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ وہ پوسٹ آفس پہنچا تو حمزہ نے خوش دلی سے اُس کا استقبال کیا۔ ”جناب کی طبیعت ناساز لگ رہی ہے؟” حمزہ نے مسکر اکر پوچھا۔
”ہاں… نیند پوری نہیں ہوئی۔” اُس نے آنکھوں کو مسلا اور پھیکی سی مسکراہٹ دی۔
”یار… آج طفیل اپنے گھر پر پارٹی دے رہا ہے… تمہیں تو اس کی پارٹی کا اندازہ ہے۔” حمزہ نے ہنستے ہنستے اُسے خبر دی۔
”اچھا … اُس نے تو مجھے انوائیٹ نہیں کیا۔” وہ بے زاری سے بولا۔ اس کے سر میں ہلکا سا درد بھی اُٹھ رہا تھا۔
”یار… طفیل ابھی ابھی اُٹھ کر گیا ہے… لو… وہ دیکھو پھر آگیا۔” حمزہ نے بیرونی دروازے کی طرف دیکھ کر خوشی سے بتایا۔
”السلام علیکم اظہر صاحب…! آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے۔” طفیل نے سلام کے بعد بڑی محبت سے اس کے لیے طنزیہ جملہ کہا۔
وہ مُسکرایا۔ طفیل وہ شخص تھا، جو کبھی اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا… مگر آج دولت کی وجہ سے پارٹی پر آنے کا اصرار کر رہا تھا۔
جناب اگر آپ ہماری پارٹی جوائن کریں تو پارٹی کو چار چاند لگ جائیں گے۔” اُس نے مُسکرا کر کہا:
”میں عہد تو نہیں کر سکتا مگر وقت ملا تو ضرور آئوں گا۔” اُس نے بھی طفیل کا دل رکھا۔
”نہیں… میں تو وعدہ لے کر ہی جائوں گا۔”طفیل نے ہنس کر کہا۔
”یار… طفیل صاحب کی پارٹی میں کمال کا انتظام ہوتا ہے۔ اظہر تمہیں بہت مزہ آئے گا۔” حمزہ نے طفیل کی پارٹی کے انتظام پر جملہ پھینکا جس پر طفیل کا رنگ خوشی سے کھل گیا۔ ”اچھا… تو ٹھیک ہے۔ میں آپ کی پارٹی میں شامل ہو جائوں گا۔” اس نے آخرکار ہامی بھر لی جب کہ وہ جانتا تھا کہ طفیل کی پارٹی اُس کی ذات سے بہت مختلف تھی۔ نہ تو وہ شراب کا عادی تھا اور نہ عورت کے رقص کا شوقین! مگر وہ بھی پیسے والوں کے شوق اپنانا چاہتا تھا… کیوں کہ اب وہ بھی پیسہ رکھنے والے لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا اور طفیل کی پارٹی میں اُس نے اس بات کو واضح کیاجہاں پر ہر کوئی اُس کے ساتھ بیٹھنا پسند کر رہا تھا… اُسے اپنا وجود بہت بڑا محسوس ہو رہا تھا مگر اللہ کی نظر میں وہ بہت چھوٹا اور حقیر ہورہا تھا اُس نے پہلی بار شراب کو ہاتھ لگایا تھا، وہ نشے میں دھت جب گھر پہنچا تو افشی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ جتنا مرضی چیختی،آج اُس کی آواز اظہر کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتیتھی، اس لئے اُس نے روتے ہوئے ساری رات بتا دی۔
٭٭٭٭





”پیسہ آیا ہے تو مجھے بھی اپنے شوق پورے کرنے دو… آخر ایسی بڑی کیا قیامت آگئی جو میں نے شراب پی لی۔” وہ صبح اٹھا تو اماں اُس کے گھر پر پہنچ چکیتھیں۔افشی انہیں اظہر کے شراب پینے کی اطلاع کر چکی تھی۔
”اچھا… کوئی قیامت تو نہیں آئی… مگر آسکتی ہے۔ اظہر تو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ شراب کی عادت انسان کی زندگی تباہ کر سکتی ہے۔” فرخندہ بیگم نے دھیمے لہجے سے اُسے سمجھایا جس کے چہرے پر شرمندگی کے بجائے غصہ تھا۔ وہ افشی کو گھور رہا تھا جو ساس کے پاس بیٹھ کر آنسو بہا رہی تھی۔
”اماں ہر کوئی اپنی مرضی سے جی رہا ہے۔ پھر آپ سب لوگ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟” وہ غصے سے چلایا۔ جس ساس اور بہو نے ہمیشہ اپنی ناپر قائم رہ کر باہمی فاصلے بڑھائے تھے، وہ آج انہیں اکٹھا دیکھ کر حیران تھا۔ اُس کا دل چاہا کہ کاش وہ دو سال پہلے شراب پی کر گھر آتا تو اُسے اماں سے جدائی نہ سہنا پڑتی، جنہوں نے اُس کے گھر میں قدم نہ رکھنے کی قسم کھا رکھی تھی…
”اب میں اسی گھر میں رہوں گی… تمہارے پاس… !!” فرخندہ بیگم نے اُسے اطلاع دی تو وہ دل ہی دل میں شراب کا شکر گزار ہوا جس نے اُس کی ماں کا دل موم کر دیا تھا اور بیوی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، شاید وہ ڈر گئی تھی کہ کہیں اظہر بری صحبت میں بیٹھ کر اُسے ہی نہ چھوڑ دے۔ آخر کار شراب نے اُس کی فیملی کو مکمل کر دیا اور اماں عرفان کے ساتھ اُس کے پاس آکر رہنے لگیں۔ وہ پھر سے خوشی کے احساس کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا۔ اُس نے ماں اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے ملازمہ رکھ لی کیوں کہ افشی نے تو باورچی خانے میں قدم رکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ملازمہ شیریں ہی اس کے سارے گھر کے کام دیکھ رہی تھیں۔ شیریں کا نام اپنی زبان کی طرح بہت میٹھا تھا، وہ گھر کا ہر کام بہت سیلقے سے کرتی۔ اظہر جب بھی اُس سے بات کرتاتو وہ دیر تک اُس کی باتوں میں کھو یا رہتا۔یوں آہستہ آہستہ اظہر اُس میں دل چسپی لینے لگا، جس کا شیریں کو اندازہ نہ ہوا۔ اب گھر میںصرف شیریں ہی تھی، جو ہر ایک کا خیال رکھتی تھی۔ افشی کو اپنی سہیلیوں سے فرصت نہ ہوتی اور فرخندہ بیگم بیٹی جویریہ کے ساتھ افشی کی چغلیوں میں مصروف رہتیں۔ اس سے اُنہیں کافی سکون ملتا، وہ افشی کی حرکتوں پر پریشان تھیں، جو ہر ہفتے کسی نہ کسی دوست کو کھانے کی دعوت دے دیتیہو ہر دعوت میں دل کھول کر خرچ کرتی جس پر فرخندہ اور عرفان دیکھتے ہی رہ جاتے کہ اظہر افشی کو روک کیوں نہیں رہا۔ فرخندہ نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ اب افشی کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کرے گی کیوں کہ وہ جھگڑا کر کے اظہر کو دوبارہ پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ فرخندہ کو افشی … اور افشی کو فرخندہ پر بہت اعتراضات تھے مگر دونوں میں سے کوئی پہل کر کے اظہر کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا تھا۔اظہر اُن دونوں کی فرمائشیں بروقت پوری کرتا تھا مگر اُس کی ضرورت کوئی پوری نہیں کر رہا تھا۔ اُسے محبت کی ضرورت تھی، توجہ کی ضرورت تھی… اور یہ محبت اور توجہ اُسے شیریں دے رہی تھی۔” صاحب جی… یہ لیجئے۔ آپ کے گرما گرم آلو کے پراٹھے اور چائے۔” شیریں نے محبت کے ساتھ اُس کے سامنے ناشتا پیش کیا۔ اُس کا میک اپ سے پاک چہرہ بہت حسین لگ رہا تھا۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ اُسے دیکھتا رہے۔ ”صاحب جی… آپ ناشتا کیوں نہیں کر رہے۔” وہ معصومیت سے بولی شیریں کی شیریں آواز اُس کے کانوں میں رس گھول گئی۔
”آجائو تم بھی کر لو۔”وہ پیار سے بولا اور پراٹھا کھانے لگا۔
”صاحب جی… میری کیا اوقات ہے کہ میں آپ کے ساتھ ناشتہ کروں… ”اس کی بات سُن کر وہ ہنس پڑا: ”بندے کی اوقات پیسوں سے بدل جاتی ہے۔ تمہارے پاس بھی پیسہ آئے گا تو سب کچھ بدل جائے گا۔”
”صاحب جی… پیسے کا ہی تو رونا ہے۔ مگر پیسہ آئے گا کیسے؟” اُس نے معصومیت سے اُسے دیکھا۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہی رہ گیا جب کہ وہ اظہر کے احساسات محسوس نہ کر پائی۔ اظہر کو جواد کی آواز نے شیریں کے سحر سے نکالا۔ ”بابا … بابا! میری ویڈیو گیم خراب ہو گئی ہے۔ آپ پلیز مجھے نئی لا دیں۔” وہ آنکھیں مسلتا ہوا اُس کے پاس آپہنچا۔ ”ہاں بیٹا۔” اُس نے اُس کے گال پر بوسہ دیا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔
”بابا… آپ کے لیے نوڈلز لائوں؟” شیریں نے محبت سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

پل بھر — وجیہہ الطاف

Read Next

اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!