بادل گھر گھر آرہے تھے۔ بارش کا امکان تھا۔ گائوں میں اک بڑے جشن کا سماں تھا۔ ایک تو برسات کی خوشی تھی، پھر سارنگ بھائو کے آنے کا امکان تھا،ہر کسی کو انتظار تھا۔

برسات ہر سال آتی تھی، خوشیاں دے جاتی تھی۔ سارنگ جب سے شہر پڑھنے اور ڈاکٹر بننے گیا تھا، گوٹھ کا ہر فرد کئی امیدیں لگا بیٹھا تھا۔

گوٹھ کا پہلا لڑکا تھاجو ڈاکٹر بن رہا تھا۔ کئی خواب اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔

چھے سال کا شدید انتظار پورا ہوا۔

جتنا بارش کا انتظار تھا، اس سے کہیں زیادہ سارنگ کا تھا۔ ڈسپنسری اپنی پیشانی پہ تختی سجائے سینہ تان کر کھڑی تھی ۔باڑے میں بھینسوں کے آگے چارہ ڈالتا حسن بخش بہار کا گیت گنگنارہا تھا۔

اس کی آواز کی چہکار، چہرے کی رونق دیکھنے والی تھی۔

گھر میں ہل چل تھی، کھلکھلاہٹیں تھیں۔

جیجی نے بڑا والا صندوق، جس کا تالا نصیبوں سے کھلتا تھا،کھول رکھا تھا۔

سارنگ کے بستر کے لیے نت نئی انوکھی چیزیں نکال رہی تھیں، بچھانے کے لیے، اوڑھنے کے لیے جھلملاتے شیشوں والی رلی، جھالروں والا پنکھا ، کڑھائی والے تکیہ غلاف۔ 

چاچی صبح سے برتنوں کی دیکھ بھال پر مامور تھیں۔ مولابخش سگنلز کے چکر میں فون ہاتھ میں لیے اِدھر سے اُدھر بھٹک رہا تھا۔ کبھی سیڑھیاں چڑھتا، کبھی دالان اور اس میں وہ صحن میں رکھے برتنوں سے بھی ٹکراتاپھرتا۔

سبھاگی نے سرپیٹ لیا۔”سوہائی کہاں مرگئی تھی،چھوری آٹا گوندھتے گوندھتے کہیں اللہ کو پیاری نہ ہوگئی ہو۔”

ادھر سبھاگی نے آوازیں دینا شروع کیں اور وہ کچن سے فرار ہوکر سارنگ کے کمرے میںسندھیا کے پاس پہنچی،جس کا بیان تھا کہ سارنگ ادا آرہے ہیں کوئی منسٹر تو نہیں کہ سب نے گھر سرپر اٹھایا ہوا ہے جو اس بیان کے بعد خود ہی کمرا سر پہ اٹھائے کھڑی تھی۔

جوش اتنا کہ کم ہونے میں نہ آئے، اخباروں سے اداکارائوں کی رنگین تصاویر کیا ہاتھ آئیں، جیسے چاندی ہاتھ آگئی۔ اخبار کے رنگین صفحات سے خوب صورت تصویریں کاٹ کاٹ کر الگ کی جارہی تھیں۔

سوہائی کی انگلیاں منہ میں تھیں اور نظروں میں تعجب تھا۔

”ہائے سندھو نہ کرچری!اتنی سوہنڑی سوہنڑی شکلوں سے کھیل رہی ہے، گناہ ہوگا تجھے بڑا۔”

”لے۔” سندھیا کھلکھلائی۔”ان کو فوٹوکھنچاتے نہ گناہ ہوا ،مجھے کاٹتے گناہ ہوگا۔ میں تو ان کا حسن بڑھارہی ہوں چری۔” اک تصویر دیوار پر چسپاں کردی۔

”جیجی تو کہتی ہیں تصویریں کھنچانے کا بھی بڑا گناہ ہے اور گھر میں زینت کرکے لگانے کا بھی گناہ، توبہ توبہ میں نہ کھنچواؤں۔” سوہائی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

جیجی کے دن رات دیے گئے بھاشن تھے،آخر اثر تو ہونا تھا۔ ”جیجی کی گناہ اور ثواب کی باتیں سُن کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔ ”

١۔ رسالے پڑھنا گناہ

٢۔ ریڈیو سننا گناہ (ٹی وی کا دور ابھی عام نہ تھا)

٣۔ لڑکیوں کا ہنسنا کھیلنا گناہ

”گناہوں کی ساری کتاب زبانی یاد ہے ان کو۔شکر ہے ساہ لینا اور کھانا کھانا گناہ نہیں ہے ان کی نظر میں۔”

”ہاہائے سندھو تونے جب سے موٹی موٹی کتابیں پڑھنا شروع کی ہیں جیجی سچ کہتی ہیں سندھو نے ماںکی مخالفت کرنا شروع کر دی ہے۔” سوہائی کو بھی اُس سے شکوہ تھا ،جو چلتا رہتا اگر سبھاگی کے قدموں کی آہٹ نہ پالیتی۔ ”میں سمجھوںگی، آج آخری دن ہے میرا۔” اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگائی۔ ادھر سندھیا سر جھٹک کر بڑی عقیدت سے اپنے کام میں جت گئی۔

اسی وقت مولابخش نے آواز لگائی۔ ”مل گیا،فون مل گیا۔”

فون کا سگنل مل گیا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی،گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑگئی، سارنگ کل صبح پہنچ رہا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!