آج کی صبح سانولی تھی۔ موسم کا رنگ آلودہ ، آسمان سفید اور نیلا تھاجس پر بھرے بھرے سفید بادل تازہ پانی پی کر تیر رہے تھے۔ جب دھرتی پیاسی ہوتی ہے تو ہاری دعا کرتا ہے ،زمین پانی مانگتی ہے، آسمان پانی برساتا ہے اور دعا قبول ہوتی ہے۔ کہتے ہیں آسمان زمین کی بڑی سنتا ہے۔ زمین سے پیار کرتا ہے۔ آسمان بھی محبت کے جذبات رکھتا ہے اور جب جب زمین کو پیار سے دیکھتا ہے تو وہ شرماجاتی ہے اور اس کے پیار میں سونا اگلتی ہے۔

وہ سورج کی تپش پھینکتا ہے، یہ دانہ اگلتی ہے۔

پانی دیتی ہے، چشمے بہاتی ہے۔

اس کے پیار میں کیا کچھ نہیں کرتی۔ سب کچھ توکرتی ہے،وہ خوش ہوتا ہے، اس پہ اپنا سایہ کیے رہتا ہے دوسروں کی نگاہوں سے اسے بچاتا ہے۔ چھائوں کیے رکھتا ہے۔اس سے محبت کرتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔

خوش ہوتے ہیں۔ دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔

مگر رہتے اتنی دور ہیں۔ بیچ میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔وہ دور سے اس کے لیے بانہیں پھیلاتا ہے، زمین شرماجاتی ہے۔

اگر وہ اپنے پیار کی بوندیں برسائے تو زمین سونا اگلتی ہے، اناج دیتی ہے۔

نہیں تو سوکھ کر بنجر ہوجاتی ہے۔ کنکر بہاتی ہے ،خفا ہوجاتی ہے، بات نہیں کرتی اور(سندھیا بن جاتی ہے) روٹھی روٹھی رہتی ہے۔

بادل پانی برساتا ہے، دھرتی کو مناتا ہے اورسارنگ بن جاتا ہے۔ 

دونوں اک دوسرے کو پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں،دوبارہ جی اٹھتے ہیں۔

اتنی محبت کرتے ہیں، مگر رہتے اتنی دور ہیں۔ دونوں کے بیچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!