اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی چیزیں سمیٹنا شروع کردی تھیں، حتیٰ کہ اس نے دیواروں سے تصویروں کے فریم اتار کر رکھ دیے تھے، وہ جانے سے پہلے خود کو اس گھر سے مٹارہی تھی۔ گھرکی زندگی سے مٹارہی تھی۔

کسی کی زندگی سے خود کو ورق ورق مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے، وہ یہ مشکل کام کررہی تھی۔ وہ اپنی جڑیں زمین سے اکھاڑ رہی تھی۔ اس سے اس کا آسمان روٹھا ہوا تھا۔

وہ خون کے آنسو تو روسکتی تھی، مگر سبزہ نہیں اگاسکتی تھی، پھول نہیں بچھاسکتی تھی، خوشبوئیں نہیں بکھیر سکتی تھی۔ کسی نے کہا تھا آسمان زمین سے بہت محبت رکھتا ہے۔ اسے یاد آیا ہاں،اس کے باپ نے اپنے سینے پہ لٹاکر یہ بتایا تھا، جب وہ چند برس کی تھی ۔وہ ہر روز اسے کہانیاں سناتا تھا، پریوں کی، شہزادیوں کی۔ سندھیا کی جو اِک بہت پیاری سی بچی تھی جو بڑی ہوکر رانی بن جاتی ہے۔

کھڑکی میںبیٹھ کر اپنے شہزادے کا انتظار کرتی ہے، پھر اچانک اس کے پر نکل آتے ہیںاور وہ شہزادے کے پاس اُڑ کر چلی جاتی ہے۔

وہ سوچتی تھی وہ بھی جب بڑی ہوگی تو رانی بن جائے گی کھڑکی میں بیٹھ کر اپنے شہزادے کا انتظار کیا کرے گی اور پھر اس کے پر نکل آئیںگے اور وہ شہزادے کے پاس اُڑ کر پہنچ جائے گی۔

اسے یاد آیا ،اپنی برسوں پرانی یادداشت پر اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ پہلے جب آنکھیں بھیگتیں تو ابا اپنے رومال سے پونچھتا، سینے پر چڑھالیتا، ساتھ لگالیتا، پیشانی پر بکھرے بال ہٹاتا تھا اور پیشانی چوم کر اچھے نصیب کی دعا بھی دیتا تھا۔ وہ نصیب تو بنا نہیں سکتا تھا مگرخوش نصیبی کی دعا ضرور دے سکتا تھا۔ وہ بس یہی کرتا ،جووہ کرسکتا تھا تب وہ صرف کہانی سننا پسند کرتی تھی۔

اسے نصیب سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تھی۔

”ابا سائیں آج نئی کہانی سنائیں، شہزادی والی پرانی ہوچکی ہے۔” اس نے اُکتا کر منہ بسورا۔

وہ ہنسا، ابا تھا ہنسنا تو بنتا تھا۔

جانے کیا جی میں سمائی، زمین اور آسمان کی کہانی لے کر بیٹھ گیا۔”اس دنیا میں بچڑا ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں رب نے۔”

”جیسے ؟” وہ سوال بڑے کرتی تھی۔

وہ ہنس دیتا۔ ”جیسے کہ میں اور تمہاری ماں۔” سبھاگی کوآنکھ مار کر کہتا ۔ سبھاگی سر جھٹک کر مسکراتی،چہرے پہ گلابیاں بکھر جاتی تھیں ۔

”چریا نہ ہو مولا بخش تو، سیاٹا ہو،(پاگل نہیں سیانا ہو) بچوں سے کیسی باتیں کرتا ہے۔”

وہ کہانی سناتے سناتے شرارت سے ہنستا ہوا سبھاگی کی طرف دیکھتا۔

سندھیا اس کی ٹھوڑی گھماتی۔”ابا ادھر دیکھ نامیری طرف اور کہانیا ںسنا۔”

”ابا سائیں، میرے پیارے ابا سائیں۔”وہ پیار سے کہتی۔ 

”دیکھ وہی تیری چاپلوسیاں کہانی سننے کے لیے ،ویسے تو ابا یاد نہیں آتا۔ گھومتی پھرتی ہے۔ ادھر رات ہوئی، ادھر بس ابا ابا کرتی پھرے گی۔ مفادن کہیں کی۔” مولا بخش سرپہ چپت رسید کرتا ہنستا ہوا سبھاگی سے کہتا ہے۔

وہ پھر سے منہ بسورتی۔ ”تونے سر چڑھایا ہے اسے،چیزوں بھرا تھیلا دے دیتا ہے، سارا دن چرچر کرتی ہے اور رات کو مہارانی سینے پہ چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے کہ ابا کہانی سنا۔یہ نہیں کہ ابے کا سر دبا، تیل ڈال دے، مالش کردے، نہیں۔ ایسے کاموں کے لیے ماں جو نوکرانی بنی بیٹھی ہے۔” سبھاگی کے اپنے اعتراضات ہوتے تھے۔

وہ پھر سے منہ بناتی۔ ”ابا! ابا سائیں! کہانی سنائیں نا۔” ”میری سندھو تو مہا رانی ہے،پری بنے گی۔” مولا بخش لاڈ سے کہتا۔ ”پر نکلیںگے۔” اچانک سے آواز بھرا جاتی۔”اڑ جائے گی۔” آنکھوں میں پانی آجاتا۔ 

سبھاگی کا چہرہ بھی مرجھا جاتا۔ ”ہائے! دھیوں کے نصیب !پالو، بڑا کرو، کھلائو پلائو،جوان کرو۔ جب وقت آئے تو اڑجائیں۔”

”چل سبھاگی دل نہ دکھی کر، چل چھوڑ سندھو کی رانی کہانی کرتے ہیں۔”

”ابا زمین والی کہانی سنانا، دھرتی والی کہانی۔”

”کون سی دھرتی والی؟” وہ ایک آنکھ بند کرکے ذہن پر زور ڈالتا، وہ کہانی جو ہمیشہ ادھوری سناتا تھا، ایک دن پوری سنانے کی غلطی کر بیٹھا۔

”پھر کیا ہوا ابا؟” سندھیا رانی افسردہ تھی۔

”پھر دھرتی سے آسمان روٹھ گیا سندھو۔

اور سندھو سوکھ گیا، مٹی اڑنے لگی ۔”مولابخش کا لہجہ سندر ہوگیا تھا۔ 

اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ وہ صرف یہ سمجھی کہ آسمان روٹھ گیاتھا۔

”مگر وہ تو دھرتی ماں سے پیار کرتا تھا نا؟”اسے بڑا شکوہ تھا۔

سبھاگی کی ساری توجہ کہانی پر ہوتی تھی۔

”پیار تو بہت کرتا تھا، مگر کیا ہے کہ زمین اس کی ماں جو نہیں،زمین تو بس ہماری ماں ہے۔”

”پھر آسمان کی کیا لگتی ہے؟” سر ٹیڑھا کرکے، گردن گھماکر معصوم آنکھوں سے دیکھتے یہ سوال کتنا عجیب تھا۔

” دھرتی آسمان کی دلہن ہے اور آسمان اس کا دُلہا،دونوں کنوار گھوٹ (دُلہا دلہن) ہیں۔”

”پھر وہ دھرتی سے کیوں روٹھتا ہے ابا سائیں؟”

”آسمان بڑا ظالم ہے سندھو، تیرے ابا جیسا سنگ دل !” سبھاگی بیچ میں بول پڑتی۔

”دیکھ سبھاگی! ہمارے جھگڑے کا اثر بچی پر نہ ڈال۔ ہم تو ایک پل لڑتے ہیں، دوسرے پل میں ایک ہوجاتے ہیں اور چری !میاں بیوی کا تو کام ہے یہ، روز جھگڑنا، روز روٹھنااور پھر مان جانا۔” وہ پیار سے سمجھاتا۔”پھر صلح بھی تو ہوجاتی ہے نا۔” سبھاگی سر جھٹک کر کروٹ بدل لیتی۔

”زمین بیچاری سارا دن کام کرے، دانا اگائے، بیج پھوٹ کر باہر نکلے اور فصل پکے۔آسمان کون سا دھنداکرتا ہے اور دیکھو احسان کتنا جتاتا ہے۔” سبھاگی اپنے نام کی ایک تھی، سندھیا کا سارا دھیان ماں کی باتوں میں لگ جاتا۔

”دیکھ سبھاگی! آسمان بڑی مشقت کا کام کرتا ہے، دھرتی کے لیے روشنی لاتا ہے، اس پہ سایا کرتا ہے۔ رات میں تارے چمکاتا ہے، چاند کی چاندنی لاتا ہے توٹھنڈک ہوجاتی ہے۔ اس کے سائے سے زمین کو لوری دے کر سلاتا ہے اور پھر اتنا ڈھیر سارا پیار جو کرتا ہے۔” 

سبھاگی کے چہرے پر جانے کیوں گلابیاںآجاتی تھیںجنہیں چھپانے اور مولا بخش پربلاوجہ کی خفگی جتانے کی خاطر پھر سے کروٹ بدل لیتی تھی۔

وہ مسکراتا تھاتو جیسے آسمان مسکرادیتا تھا۔

”ابا بتانا، پھر اس نے دھرتی ماں کو منایا؟اُسے پرچایا؟ ”وہ اس کے سوالوں پر اس کی پیشانی چوم لیتا تھا۔

”سندھو شالا تجھ سے آسمان کبھی نہ روٹھے،سدا سایہ کیے رکھے۔”وہ منہ میں بڑبڑاتا اور دعا دیتا۔

”آسمان جب روٹھتا ہے تو پھربارش نہیں برساتا۔ سندھو سوکھ جاتا ہے، دھرتی بنجر ہوجاتی ہے۔ پھول مہکانا چھوڑدیتی ہے، سبزہ اگانا کم کر دیتی ہے، فصل اچھی نہیں اترتی۔ ساون روٹھتا ہے تو سمجھو ساجن روٹھ گیا۔ اللہ کرے کسی سے کسی کا آسمان نہ روٹھے کبھی۔” وہ پوچھنا چاہتی تھی۔ ”کیا اس لیے اس بار ہماری فصل بری ہوئی ہے؟” مگر اسے تو بس یہی فکر کھاگئی کہ آسمان روٹھ گیا ہے، دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں، مگر ان کے نصیب میں ملنا نہیں لکھا۔ بس دور سے دیکھتے ہیں، مسکرادیتے ہیں۔ 

مگر جب آسمان روٹھ جائے تو، وہ کہنا چاہتی تھی زمین سے اس کا آسمان روٹھ گیا تھا ،وہ کیسے سبزہ اُگاتی؟

وہ کیسے پھول برساتی، اس کا آسمان روٹھ گیا تھا۔ اور جب آسمان روٹھ جائے تو زمین سوکھ جاتی ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!