”فکر تو میں کہوں خودہی خود آجاتی ہے جیجی ماں!چاہے ہم اس کے لیے دروازہ کھولیں یا نہ کھولیں، یہ ہمارے نصیبوں کی طرح ہوتی ہے۔”

سندھیا بے فکری سے جھولا جھول رہی تھی اور رسالہ پڑھ رہی تھی اور ادھر سب کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں، منٹھار کا رشتہ آیاتھا ۔ سبھاگی کی امید بندھی اور مولابخش کی فکر شروع ہوئی ۔

کیا وہ شہزادہ یہی تھا جس کے خواب وہ بچپن میں سندھیا کو دکھایا کرتا تھا؟

اسی وقت سارنگ ڈسپنسری سے لوٹا تھا۔

سوہائی دوڑ کر بادام کا شربت لے آئی ۔

”اسے پی، بڑی طاقت آجائے گی بچڑا۔” جیجی نے ساتھ بٹھایا ۔

چاچے کے چہرے کی پریشانی اور سارنگ سے چھپ جاتی ایسا بھلاممکن تھا؟

”کیوں پریشان ہیں آپ۔ میں جو آگیا ہوں،کس لیے فکر کرتے ہیں؟ مت کریں فکر۔”

”پھر بتا کیا کروں سارنگ؟تیری چاچی کہتی ہے دھی کا پہلا رشتہ ٹھکرایا تو سمجھو نصیب ٹھکرایا اور جیسے رزق بے حرمتی سے گھٹ جاتا ہے۔ ویسے نصیب ٹھکرانے سے روٹھ جاتا ہے۔”

”نصیب، نصیب ہوتا ہے وہ کبھی نہیں روٹھتا۔وہ آپ کی زندگی کے لیے لازم ہوتا ہے۔اگر یہ آدمی سندھیا کا نصیب ہے تو کہیں نہیں جائے گااور اگر گیا تو سمجھیں نصیب نہیں تھا، ایک بلا تھی جو ٹل گئی۔”

بات وہ جو دل کو لگے، جیجی نے سر ہلایا۔

”سارنگ کل ہم چل کر چھورادیکھ لیں گے ۔” چاچا کچھ مطمئن ہوا۔

”بالکل چلیںگے اور دیکھ بھال کر ہی فیصلہ کریںگے۔”

”مگر ہم کیوں فیصلہ کریںگے،فیصلہ تو سندھیا کرے گی نا، اس سے پوچھیں،بلکہ پوچھا ہی ہوگا ؟”

”یہ تونے نئی بات کی سارنگ ،بھلا ہمارے ہاں دھیوں سے کب پوچھا جاتا ہے؟”

جیجی حیران کہ سارنگ سٹھیاگیا ہے۔مولابخش چپ ہوگیا ، سارنگ کی بات اس کے دل کو نہ لگے یہ کہاں ممکن تھا۔

”لڑکی کی خاموشی میں رضامندی ہوتی ہے سارنگ۔”

”رشتے کا وہ بھی سن رہی ہے۔ پتا تو ہوگا آیا ہے مگر دیکھ چپ ہے، سمجھو راضی ہے۔”

خاموشی دوسرے معنوں میں اختلاف بھی تو ہوتی ہے مگر وہ سوچ کر چپ اس لیے ہوگیا کہ کچھ بھی کہنا قبل از وقت تھا۔

باقی کی کارروائی کل کے لیے چھوڑ رکھی تھی۔

کمرے سے نکلتے ہوئے دھوپ سے بچنے کے لیے جب وہ ستون کی اوٹ میں کھڑے تھے تو سارنگ نے ایک بازو ان کے کندھے پر پھیلا یا ۔جیسے کسی کا بار خود ڈھودیا جاتا ہے، یا ڈھونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ 

سندھیا چاچے کی فکر تھی اور اس فکر کی سارنگ کو تو پروا ہونی تھی۔

”اب میں آگیا ہوں نا آپ کا بیٹا، آپ کا بازو۔ آپ کیو ں فکر کرتے ہیں، سندھیا کے لیے اچھا رشتہ میں خود ڈھونڈ کر لائوںگا، میری ذمہ داری ہے۔یہ نہیں ہوا تو اور سہی اور نہیں تو اور سہی۔ کوششوں سے نصیب کھل جاتے ہیں۔ نصیب ایک رستہ ہے۔ اسے آپ جتنا بنائیںگے ،جتنا آگے جائیںگے، وہ مزید کھلے گا۔ رستہ رکتا نہیں ہے، ہم رک جاتے ہیں۔”

”اوسارنگ یار تونے تو میری آدھی فکر اپنے سر لے لی ۔بس میرا پٹ آگیا ہے۔ اب مجھے کوئی فکر نہیں۔ کل چلیںگے چھورادیکھنے۔ انشاء اللہ سب اچھا ہوگا۔ انشااللہ کہہ دیا تو سمجھو اچھا ہوگیا۔”

دل تسلی دیتا تھا۔

”میں تو ایسے ہی سوچ بیٹھا کہ میرا بیٹا نہیں، میرا بیٹا تو سارنگ ہے۔” کبھی وہ اس کے لیے دیوار بن گئے تھے ، آج وہ چاچے کے لیے سایہ بن کر کھڑا تھا اور دیوار بننا چاہ رہاتھا۔اُسے معلوم نہ تھا کہ سائے سے دیوار بننا کتنا کٹھن کام ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!