جب سارنگ نے پوچھا کہ سندھیا کہاں ہے، تووہ پیپل کی اوٹ سے نکل کر سامنے آئی۔ 

”ادا سارنگ ”کہتے ہوئے منہ میں چاشنی گھلتی تھی،تحفظ کا احساس ہوتا۔ وہ بن کر بھی تو پہاڑ جیسا آیا تھا۔ کتنا مضبوط لگ رہا تھا۔قدآور، چوڑاسینہ، کمان جیسے بازو، بھرا بھرا چہرا،بالوں کو جیل سے سرپہ جمایا ہوا جسے وہ تیل سمجھی تھی۔لیکن یہ جیل تھی، اس شہری جیل کی واحد خاصیت یہی تھی کہ سرسوں کے تیل کی طرح اس کے قطرے نہیں گرتے تھے۔چوڑی کشادہ پیشانی پہ بال ٹیڑھی مانگ کے ساتھ جمے ہوئے تھے۔ جیسے نئی آتی فصلوں کے بیچ پانی کی کھال سیدھ میں بہتی ہے۔ 

سوچنے لگی،سوچتے تو ہوںگے، ہائے سندھو کیسی بڑی بڑی لگنے لگی ہے، رنگ بھی نکھرگیا ہے، بال بھی گھنے ہوگئے ہیں ،جنہیں پراندہ ہمہ وقت اپنی قید میں رکھتا تھا۔

قد نکل آیا ہے، سوہنڑی ہوگئی ہے، شربتی سی آنکھیں، وہی سب جو سہیلیاں بتاتی تھیں اسے، وہ ایسا سوچنے لگی تھی۔

یہ وہی عمر تھی جب ذہن سوچ چراتا ہے، جو سنتا ہے وہی سوچ میں سماجاتا ہے۔دل اگر مان لے تو پتھر پہ لکیر بھی پڑجاتی ہے اور پھر شعور آنے سے پہلے نہیں مٹتی۔ سارنگ نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے خود کو بڑا تو محسوس کیا تھا پر ”سندھیا تو کب بڑی ہوگی۔”جو بچپن سے کہتا آیا تھا اب صرف سوچ کر رہ گیا کہہ نہ سکا۔ وہ اب شعور کی باتیں کہنے سے خود کو روک لیتا تھا، جبر کر لیتا ،شعور اس پر اپنی دھاک بٹھارہا تھا۔ ابا کو اندازہ نہ تھا، ورنہ کہتا لڑکا ہاتھ سے گیا ،چھورا اپنا نہ رہا۔چاچا کو اندازہ ہوجاتا تھااور اس کا دل کدکڑے لگانے لگتا، کہتا سارنگ میرا سوہناتو شروع سے تھا، اب تو سونا بن کر آیا ہے، اور سونے کا مُلھ چڑھے یا گھٹے پر سونا تو سدا بہار ہوتا ہے، یہ کہنا ہی کافی ہے کہ سونا تو بس سونا ہی ہے، ہر دور میں چلتا ہے۔

اور اب بھی سب سارنگ کو گھیرے ہوئے تھے۔

”شہر کی باتیں بتا سارنگ۔” چچی سبھاگی خود اپنی زندگی میں بس دوبار ہی شہر گئی تھیں۔

پہلی بار جب نئی نئی شادی ہوئی تھی اور مولابخش شٹل کاک پہناکر اسے گھمانے لے گیا تھا، حیدرآباد کے چڑیا گھر۔ دوسرا ہسپتال، جب سندھو کی پیدائش ہوئی تھی اللہ اللہ خیر صلا۔ 

عورت میاں کی نظر میں تب لاڈلی بنتی ہے جب نئی نئی بیاہ کر آئی ہویا جب اسے اولاد کا تحفہ دے رہی ہو۔ اس کے بعد تو بہ قول جیجی ماں، خفے ہی خفے (فکریں ہی فکریں) ۔عورت کو جب اولاد ملتی ہے تو سمجھو کائنات مل گئی۔ پھر وہ شوہر کو بھی نہیں پوچھے گی، بچوں کے بھی بچے ہوجائیں پھر نہیں بدلنا، چاہے نانی، دادی کے عہدے پر فائز ہوجائے مگر عورت نے ماں ہی رہنا ہے۔ عورت بس ایک بار ماں بن جائے، اس پر باقی سارے نقش مٹنے لگتے ہیں،باقی سارے رشتے دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ باقی سب فرائض پچھلی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔وہ ماں بننے میں عمر بتادے گی، تب بھی کہے گی ابھی کچھ فرض باقی رہتا ہے، بچوں کے بچے بھی کھلانے لازم و ملزوم ۔ 

سارنگ کے پاس وہی سگی ماں نہ تھی، پیدا کرتے ہی مرگئی ۔ وہ تو اسے پیدا کرنے کی خاطر ہی پیدا ہوئی تھی۔ کتنا لمبا سفر کیااور جب سارنگ آیا تو وہ نہ رہی۔ گھر کا ہر اک فرد اس کے لیے تن آور درخت بن کر چھائوں کیے کھڑا تھا۔ مجال ہے جو گرم ہوا بھی لگے اور جیجی اسے سامنے کردیں،اپنے پروں میں چھپالیتی تھیں۔

چاچا تو تھا ہی سارنگ کے لیے دھرتی، سندھ کی سرزمین بن جاتا تھا۔ باپ اس کا حسن بخش تھا، ماں کی جگہ مولابخش نے لے لی تھی۔جیجی ماں دعا کا رستہ، دعا کا دریا، اس کی چھائوںاور اس کی پناہ۔ چچی کو گو کہ جھڑکنے کی بڑی عادت تھی مگر خدا گواہ تھا کہ سندھیا سے زیادہ کھانے، پینے، پہننے اور اوڑھنے میں سارنگ کا خیال رکھتی تھیں۔ سردی ابھی اپنے آنے کی خبر دیتی، اس سے پہلے ہی سویٹر بننا شروع کر دیتیں ۔ مولابخش کو کسی تہوار پر اجرک پہنائی جاتی ، وہ چھپاکے سارنگ کے نئے جوڑے کے لیے رکھ لیتیں۔

سارنگ کے اسکول سے کالج تک، کالج سے میڈیکل کالج تک ہر چار چھٹیوں میں وہ جب گھر آتا تو گویا بہار آجاتی، پہلے پہل لطیفے سناتا اور کتابوں کی کہانیاں لے کر بیٹھ جاتا۔ ہاسٹل کی دنیا کی سیر کراتا، شہر کی سڑکوں ،رستوں، ٹریفک اور گاڑیوں کے قصے ہوتے تھے۔

اب کی بار بڑا بن کر آیا تھا، سوائے اک آدھ کے باقی ساری چیزیں جیسے زندگی کا ثانوی حصہ بن کر رہ گئیں تھیں۔ وہ اپنے مرکز کی طرف آرہا تھا، اس کی نگاہ اب اردگرد کے شوروغل سے ہٹ کر سیدھ میں دیکھنے لگی۔ صاف ستھرا،ناپ تول کر بولتا ہوا۔گھر کی عورتوں میں تو نئی روح پھونک دی گئی۔ کیسے رشک بھری نظروں سے دیکھنے لگی تھیں۔جیجی تو جیجی تھیں سو بلائیں ویسے ہی لے لیتی تھیں۔

چچی بھی اس کی سمجھ بوجھ اور سیانے پن کی قائل تھیں۔ سوہائی تو اپنی عقل کے مطابق آٹھ سال پہلے سے ادا سارنگ کے اشاروں پہ چلنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ ایک سندھیا تھی جسے بہ قول جیجی سارنگ سے جانے کیا اللہ واسطے کا بیر تھا، ہر چیز میں سارنگ کو دی جانے والی اہمیت پر وہ چیختی ضرور تھی۔ 

”ٹھیک ہے مجھ سے چار سال بڑے ہیں ،ٹھیک ہے میرے ادا ہیں، ٹھیک ہے میرا خیال رکھتے ہیں، ٹھیک ہے کھلونے لاتے ہیںمگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ بس ان کے سوا کوئی نظر ہی نہ آئے۔”

تبھی تو کہا کہ ادا سارنگ آرہے ہیں کوئی منسٹر نہیں آرہے اور بیان بھلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ سندھیا کو اپنا کہا ویسے بھی کم ہی یاد رہتا تھا ۔

اس بار تو اس نے بھی محسوس کیا تھا۔ ادا سارنگ مان لو بدل گئے ہیں، شہری شہری سے لگ رہے ہیں۔ پینٹ کوٹ چڑھاکر،چشمہ لگاکر آئے ہیں ۔سامان سے بھرے تھیلوں، کاغذ کی فائلوں سے لے کر وہ خود بدلے بدلے لگ رہے تھے ۔ جب ہی وہ کونے میں پلیٹ لیے بیٹھی ساتھ ہی چور نظروں سے انہیں دیکھتی رہی۔

وہ بڑی احتیاط سے شوربے کا گھی دوسری پلیٹ میں نکال کر سالن کو سوکھی روٹی اور ذرا سے مصالحے کے ساتھ کھارہا تھا۔ سب اسے اپنی بنائی ہوئی ڈش پیش کررہے تھے ،جو بہت احتیاط سے کھاتے ہوئے کھلے دل سے تعریف بھی کرتا رہا۔ 

کھانے کے اختتام پر سب نے سارنگ کی کامیابی کے لیے ڈھیروں ڈھیر دعا کی۔ مانا ذرا بدل کر آئے ہیں مگر ایسے بھی کیا۔ سندھیا نے جگہ بدلی، بڑبڑائی، خیالات بیان کے لیے ہوتے ہیں اور بیان۔

وہ اپنی سوچ بدل کر آیا تھا اور یہاں کمرے کی صورت حال ہی بدلی ہوئی تھی۔ دیواروں پر دونوں اطراف بڑے بڑے اسٹیکرز ،اداکارائوں کے فوٹو اور بستر کے سرہانے عورتوں کے پاپولر میگزین۔ یہ سب چیزیں سندھیا کے نئے نویلے خوابوں کی نشان دہی کرتی تھیں۔ 

اس نے کھڑکی سے سر نکال کر سوہائی کو آواز دی: ”کیا تم لوگوں نے کمرے بدل دیے ہیں؟ مجھے لگتا ہے میں غلطی سے تمہارے یا سندھیا کے کمرے آگیا ہوں۔” 

”ہا! سارنگ ادا آپ کی خیر ہو۔ دیکھیں کتنا پیارا کمرہ سجایا ہے ہم نے۔” سوہائی کو سندھیا پہ فخر تھا۔ 

”جی بالکل بہت خوب صورت سجایا ہے مگر کل تک یہ سجاوٹ اتارلیجیے گا۔” سارنگ نے سنجیدگی سے کہا۔

رات سونے تک یہ سوہنڑی سوہنڑی شکلیںاس کا منہ چڑاتی رہیں، کوئی دانت نکالے ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بنی رہی، تو کوئی آنکھوں سے” اب بول” کہتی رہی۔ 

اس نے جھلاہٹ سے تکیے میں منہ چھپالیا ۔”یا اللہ میں کہاں پھنس گیا۔”

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!