سیانے کہتے ہیں یادیں سونا ہوتی ہیں، اسے چاچا مولابخش نے سینے پرلٹاکر بتایا تھا کہ یادیں سونے سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔

”سارنگ سونے کا تو مول ہوتا ہے، یادیں بے مول ہوتی ہیں۔ جن سے جڑی ہوتی ہیں، وہ رشتے بے مول ہوتے ہیں۔ رشتے جن انسانوں سے ہوتے ہیں، وہ بندے ان مول ہوتے ہیں، ان کا کوئی مول نہیں ہوتا۔کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ تجھے ابھی یہ باتیں مشکل لگتی ہیں نا۔” وہ اس کے چہرے پر پھیلے بل گن سکتے اور گنے بغیر بتاسکتے تھے کہ اس پر ان باتوں کا کیااثر ہے؟ وہ کیا سوچ رہا ہے؟ سننا تو وہ ابھی کہانیاں چاہتا تھا۔ 

مولابخش کا پسندیدہ مشغلہ گیت گانا، ٹریکٹر چلانا، ہل چلانا، زمین میں کھیتی اگانا اور رات کے وقت سندھیا ہو یا پھر سارنگ،سینے پر بٹھاکر کہانیاں سناناتھا۔

اس کے اور سندھیا کے ذوق میں فرق تھا۔وہ پریوں کی کہانیوں کی رسیا تھی اور وہ لوک تہذیبوں، دراوڑوں، محنت کش مزدوروں کی کہانیاں سننا پسند کرتا تھا۔ بہادر جنگ جو، سپہ سالاروں کی کہانیاں پسند کرتا تھا۔ اسے تاریخ سے دل چسپی تھی،تاریخ بدل دینے والے لوگ پسند تھے، سپہ سالاروں سے لے کر زمین پر ہل چلانے والے ہاری پسند تھے۔ اس سے پہلے اس نے سیدھی تختی تک نہ پکڑی تھی اور جب پہلے دن تختی پکڑی، وہیں اس نے اپنے مقدر کا فیصلہ کرلیا اور تختی پر لکھ دیا۔”میں بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوںگا!”

مولابخش کی باچھیں کھل گئیں، سینہ تان کر چلنے لگا تھا۔ابھی سے پھولے نہ سماتا، کہتا پھرتا۔ ”میرا سارنگ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا۔” حسن بخش سوچ میں پڑگیا، ”ہاری کا پٹ (بیٹا) ڈاکٹر بنے گا،کیا یہ ہوسکے گا؟”وہ حقیقت کا مارا تھا۔ بیوی کی جوان عمر موت نے اسے لوہے کا بنادیا تھا۔ سخت جان تھا۔ خواب سجانا چھوڑدیے تھے، حقیقت میں جینے لگا تھا۔ کہانیاں سنانا اور گیت گنگنانا چھوڑدیا۔

اس کی نظر میں بس ایک زندگی، جو موت سے قدرے بہتر تھی اس کی مٹھی میں تھی۔ دو وقت کی روٹی، گھر کا ماہانہ خرچ، آمد و رفت، بچوں کے لیے رزق جمع کرنا اور زمین خریدنی تھی، اللہ اللہ خیرصلّا۔ اس سب میں بھلا بڑے بڑے خوابوں کی گنجائش کہاں نکلتی تھی۔ چادر دیکھ کر پاؤں پسارنا اس کی عادت تھی۔ مولابخش الگ مزاج کا دیوانہ تھا۔ سخت دھوپ میں ہل چلاتے گیت گاتا تھا، گھر میں آکر جیجی کے گھٹنے سے لگ کر مسکراتا تھا۔ سارنگ کو ہنسنا بھی اسی نے سکھایا اور بڑا جی دار بنادیا۔ سارنگ رہتا اباکے کمرے میں مگر دل ہر وقت چچا کی سنگت کا شیدائی تھا۔

چاچے نے ماں بن کر پالا تھااور مائیں بیٹوں پر جان نچھاور کرتی ہیں، واری جاتی ہیں۔ بیٹا جب بیوی سے کہتا ہے کہ تارے توڑ لائوں گا تو وہ فوراً کہتی ہیں۔” لا توڑ کر دکھا! ”اگر ماں ہوتی تو کہتی ہاںمیرا پٹ توتارے توڑ کر لے آیا۔مولابخش بہ قول جیجی کے عورتوں سا کیا بلکہ مائوں جیسا دل رکھتا تھا۔

سندھیا کے لیے باپ تھا، آسمان تھا۔

سارنگ کے لیے دھرتی بن جایا کرتا تھا، رشتے احساس سے بندھے ہوتے ہیں۔

اس نے لکھ کر رکھ لیاکہ میرا سارنگ ڈاکٹر بنے گا۔ حسن بخش نے سر تھام لیا ،”مولابخش او سیانے! بچے کو اونچا نہ اُڑا۔ خواب نہ دکھا، ہاری کا پٹ ہاری بنے تو بھی چنگا۔ تونے اسے زمین دار بنادیا چل یہ بھی اچھا، پر ڈاکٹری کے خواب پڑھارہا ہے اسے، تیری بھلی ہو پر یہ خواب کتنا مہنگا ہے تونے یہ کبھی سوچا؟”

مولابخش کا قہقہہ گونجتاتو سارے صحن میں آواز جاتی، چنگاری کی طرح آگ لگاتا جلتا بجھتا، بیوی منہ بسورتی۔”میاں دیوانہ ہے۔” جیجی ماں کہتی۔ ”اللہ سائیں میرے مولابخش کو ہنستا رکھنا، جس کے دم سے گھر میں رونق ہے۔”

جی دار تھا، حسن کی بات پرہنستا۔ ”او چریا او درویشا!او میرا بھاحسن بخش! مرغی آنے (انڈے) دیتی ہے نا؟ اسی طرح خواب تعبیر لاتا ہے۔ جب خواب نہیں دیکھوگے تو جیوگے کیسے؟ بادلوں سے مینہ برسانے والا مولا سائیں ہے اور جتنی اس کی بات بڑی، جتنی اس کی رحمت بڑی ہے،جتنا اس کا نام بڑا ہے، توکل بھی اتنا رکھ درویشا۔ خواب کبھی حقیقت کے مطابق نہیں دیکھے جاتے، اس سے بڑھ کر دیکھتے ہیں تو مزا آتا ہے۔ او بیج بوتے وقت کسے پتا کہ فصل ڈوب جائے گی یا سونا اُگلے گی، مگر ہم بیج بوتے ہیں نا۔ بس تو سمجھ بیج بویا ہے۔ سارنگ کا دل بڑا سچا ہے۔ بڑا ہوکر ہاری بنے یا ڈاکٹر پر محنت کرے گا۔ او چریا!خواب دیکھے گا تو تعبیر لائے گا نا۔”

حسن بخش مزید کچھ کہتا پر جب بات ”توکل” کی آگئی تو چپ ہوگیا ۔کیا کہتا اور کیسے کہتا۔ مولابخش رکھ کر ہتھوڑا مارتا تھا، بالکل نہ چھوڑتا۔ اس سے بات منوانایا سمجھانا مشکل تھا۔ وہ چپ ہوگیا۔ ننھے سارنگ کی ننھی آنکھیں تارا تارا جھلملاتی آنکھیں، خواب برساتی آنکھیں،ارادوں سے مضبوط اٹل پیشانی کے ساتھ چمکتی آنکھیں۔ حسن نے سارنگ کی پیشانی چوم لی۔ مولابخش مسکر ا دیا۔

”بچے کو نصیب کی دعادے حسن بھائو۔ نصیب صرف لڑکیوں کے نہیں ہوتے، لڑکوں کے نصیبوں کی بھی فکر کرنی چاہیے۔”

ایسی باتیں مولابخش کے سوا بھلا اور کون کرسکتا تھا۔ جیجی نے سارنگ کو نصیب کی دعا دی، اچھے نصیب کی دعا تھی، اس رات سے مولابخش نے کہانی کا پینترا بدلا۔

”تو ڈاکٹر بنے گا سجن، سب کا علاج کرے گا۔

سب تجھے ڈاکٹر سارنگ کہیںگے، میرا دل بہار ہوجائے گا۔ تو جب شہر پڑھنے جائے گا، سب کو یاد کرے گا۔ سیانے کہتے ہیں، یادیں چاندی سونا ہیں پر میں کہوں سونے سے بڑھ کر ہیں۔”

حسن بخش دوسری چارپائی پر سرنہوڑائے پڑا تھا۔ سندھیا کب کی سوچکی تھی کہانی سن کر۔ برسات کی رات تھی، باہر چھماچھم بادل برس رہا تھا، اندر مچھروں کا میلا تھا۔ جیجی پر سوہائی پنکھا جھلتی تھی تو کبھی خود پر بھی جھل لیتی تھی۔ پنکھا جھلتے جھلتے بہ قول ان کے اللہ کو پیاری ہوگئی، مطلب کہ سوگئی ۔یہ اس کی پرانی عادت تھی کہ پنکھا ایک ہاتھ میں پکڑے بے سدھ سو جاتی تھی۔ نیند اس پر ہر وقت نچھاور ہونے کو تیار تھی۔ چار سال کی تھی جب ماں مری تھی اور ابا دوسری شادی کررہا تھا۔ ہاری باپ اپنی بچی جیجی کے قدموں میں ڈال گیا، سیدوں کے گھرانے کی یہی خوبی تھی کہ وہ گائوں بھر کے دکھوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتے سب کے ساتھ ہوتے۔ کسی کے گھر میں اناج نہ ہو غلہ سیدوں کے گھر سے جاتا تھا۔

سوہائی کو پیروں سے اٹھا کر گود میں ڈال دیا۔ سندھیا کی خوراک میں سے آدھا حصہ اس کا نصیب بنا، جیسا سندھیا پہنتی ویسے کپڑے اس کے بنتے تھے، سندھیا کے ساتھ پلی بڑھی تھی، جیجی لاکھ ڈانٹتی پر اسے سوہائی کی فکر رہتی۔چچی کہنے کو توسارا دن جھڑکتیں مگر جب وہ کھانا کھائے بغیر سوتی تو نوالہ حلق سے نہ اترتا۔ جب تک سوہائی نہ کھالے سندھیا کا کھانا بھی کہاں ہوتا تھا۔ ایک ساتھ پلی بڑھی تھیں، بہنیں بھی تھیںاور سہیلیاں بھی۔ اداسارنگ کہہ کہہ کے زبان نہ تھکتی تھی سوہائی کی۔ سندھیا ذرا نخریلی تھی، اپنے ناز اٹھواتی، مگر سوہائی ایسے ناز اٹھاتی جیسے سارنگ اس سے چار سال بڑا نہیں وہ سارنگ سے چار چھے سال بڑی ہو۔ وہ یہ سب دیکھ کر ہنستا اور خوش ہوتا تھا۔

مولابخش نے سینے پر چڑھایا، کہانی وہیں سے شروع ہوئی جہاں ختم ہوئی تھی۔

سارنگ تو بڑاہوکر ڈاکٹر بنے گا۔

سارنگ کیسے بھول سکتا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!