دھواں پتلی لکیر کی طرح باورچی خانے کی کھڑکی سے نکل کر صحن میں بگولے بناتا ہوا، ہوا کے ساتھ تحلیل ہوتا جارہا تھا۔”سندھیارانی!او’پائے’ پک گئے رانی؟” حسن بخش ہینڈ پمپ پر پائوں دھوتے ہوئے پوچھنے لگا۔ وہ ابھی ابھی کھیتوں سے لوٹا تھا اور سارنگ کے چہرے پر سندھیا کی چائے کو ”پائے” کی طرح پکتا دیکھ کر مسکراہٹ آگئی تھی۔ اب تو چائے یا سوکھ کر گڑ بن جائے یا اچھل کر فرش تک بہ جائے، کوئی احتجاجی کارروائی تو ضروری تھی۔

مولابخش صحن میں چارپائی ڈال کر لیٹاہوا تھا۔ اسی ‘پائے’مطلب چائے کے انتظار میں اور جیجی نے کمرے کی کھڑکی سے سارنگ کو آتے دیکھا تو فکر سے آواز دے دی۔

”سارنگ پٹ اندر آجا۔ باہرٹھنڈی ہواچل رہی ہے۔”

اس نے ابھی تو برآمدے کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر آسمان پر ٹِکے تاروں کو دیکھنا شروع کیا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے روشنی چھن چھن کر مکانوں کے سروں پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہو۔ ہر اک تاراروشنی بانٹ رہا تھا۔ اس کے جی میں آیا کہہ دے وہی بچپن کی معصومیت بھرا سوال۔ ہر اک تارا اگر ہر اک بندے کا ہوتا تو تارے بھی سمجھو بندوں جتنے ہوئے۔ چاچا بتا دنیا میں انسان زیادہ ہیں یا آسمان پہ تارے؟

تب وہ کہتے۔ ”آسمان پر سب کا اپنا ایک ایک تارا ہوتا ہے سارنگ! جتنے بندے اُتنے تارے۔” اور پھر اس نے پوچھنا ہوتا کہ بتامیرا تارا کون سا ہے؟ اور وہ کہتے تھے کہ تم بڑے ہوکر اپنے نصیب کا تارا خود تلاش کرنا۔

وہ منہ بسور کر کہتا۔”میں تو بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوںگا۔ ”

وہ کہتے۔”پھر تجھے تیرا تارابھی مل جائے گا۔”

اور اب وہ یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ میں ڈاکٹر بن گیا چاچا مگر پھر بھی مجھے اپنا تارانظر نہیں آیا۔ آپ مجھے میرا تارا دکھائیں۔

اسی وقت اسے جیجی ماں کو مطمئن کرنا پڑگیا ۔”جیجی ماں بہار کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ یہ ٹھنڈ تو آخری ملاقاتیں کرنے آئی ہے ۔ آپ صحیح کہتی ہیں گھر آئے مہمان سے منہ نہیں موڑتے۔ سامنے کھڑے ہوکر بھلیکار (خوش آمدید) کرتے ہیں۔” مانا کہ بدل گیاتھا مگر اتنا بھی نہیں کہ ساری کی ساری روایات بھول جاتا۔ وہ اس کی بات سن کر مسکرائیں۔ جیسے چاچا سارنگ کو لاجواب کرتا تھا، ویسے سارنگ جیجی ماں کو۔

چچی ہنس دیں۔ ”ساری پٹیاں تیرے چاچے کی پڑھائی ہوئی ہیں۔ چاچے کی پٹیاں تو گھول کر پی گیا سارنگ۔” 

”تیرے چاچے کو سوائے باتوں کے اور آتا ہی کیا ہے ۔کہانی گھڑتا رہتا ہے، لفظ بناتا ہے اور پھینکتا جاتا ہے۔ باتوں کے سوا کچھ بنانا نہ آیااُسے۔”

اور تبھی سندھیا چائے لے کر باہر آئی تھی۔

”شکر ہے ثابت سالم چائے مل گئی۔” حسن بخش نے پیالا اٹھایا۔ ایک پیالا مولابخش نے لیا اور چارپائی پر سیدھے ہوتے ہوئے بولا: ”او میں کہوں سارنگ بیوی بڑی ناشکری مخلوق ہے۔ تیرا ابھی پالا نہیں پڑا اسی لیے پر تولتا پھرتا ہے۔” 

مولابخش کو نئی سوجھی۔”کیا خیال ہے سارنگ تجھے بھی کہیںپھنسا نہ دیں ؟”

سبھاگی دل چسپی سے برآمدے کی چوکھٹ پر بات سننے رک گئی۔

سارنگ چوکھٹ سے چارپائی تک چائے کی پیالی لے آیا ۔حسن بخش نے موڑھا گھسیٹا ۔

”بات تو دل کو لگی تھی تیری فکر کی۔ خیر یار مولابخش کبھی کبھار تو وہ باتیں کہہ دیتا ہے، جو ہم ابھی سوچ رہے ہوتے ہیں۔”

”نہیں نہیں ابا سائیں۔ ابھی کہاں، ابھی تو اک لمبا سفر رہتا ہے۔ (ابھی تو میں نے اپنے حصے کا تارا بھی نہیں ڈھونڈا)۔

”نہیں سارنگ یار، اب دیر نہ کر۔ دل بڑا کرتا ہے۔تیری ماں ہوتی تو اب تک کرواچکی ہوتی تیری شادی، پر تو تو میرے ہاتھ ہی نہیں چڑھتا۔”

”میری شادی کا کیا ہے ابا سائیں وہ تو ہوہی جائے گی ابھی بڑا کام رہتا ہے میرا۔ ابھی تو مجھے باہر کے لیے اپلائی کرنا ہے اور بہت کام کرنا ہے ۔”

چاچا اور ابا پر جیسے اوس پڑ گئی۔

چائے کی پیالی چھلکی ،ہلکے سے چھینٹے کپڑوں کے دامن پر گرگئے۔

”سارنگ! کیا تو چلاجائے گا؟”

”توہمیں چھوڑ کر چلاجائے گا؟”لہجے میں بہت دکھ تھا ۔ 

آواز جیسے گہرے کنوئیں سے برآمد ہوئی اور پھر ابھر کر ڈوب گئی۔

مگر سوال اپنی جگہ پورے زور اور قوت کے ساتھ کھڑا تھا۔

سارنگ کو لگا اس پر برف کا تودہ گرگیا ہے جو ہٹانا بہت مشکل ہے۔

سوال کبھی اس قدر مشکل بھی بن جاتا ہے؟کیا پھر چھوڑجائوگے؟

بات جانے کی نہیں چھوڑ کر جانے کی ہورہی تھی۔

بات بڑی مشکل تھی،آسان نہیں تھی۔چھوڑ کر جانا مشکل تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!