صبح کا ناشتہ حسب روایت تھا۔

تو سندھیا صاحبہ کو آج باورچی خانے میں زبردستی گھسایا گیا ہے۔ جھلاہٹ، بڑبڑاہٹ ، کبھی ہلکی ہلکی کبھی قدرے اونچی آوازیں گھر بھر میں گونجتی تھی۔ 

”اری او سوہائی یہ کھنڈکا پیالہ تو دو۔”

”اف یہ چوری کے لڈّو صبح صبح بنانے کا مشورہ کس نے جیجی کودیا ہے۔”

گرم گرم گندم کی روٹی کو ہاتھوں سے پیس کر چینی اور ڈرائی فروٹ کی ملاوٹ کرتے لڈو بنائے جاتے تھے۔ یہ لڈو بچپن سے سارنگ کو پسند تھے۔

حسن بخش اخبار پر شیشہ رکھ کر سرخیاں دیکھ رہا تھا۔ مولابخش اور سارنگ جیجی کے تخت کے پاس موڑھے رکھ کر بیٹھے ارد گرد کی خبروں کے ساتھ ساتھ گائوں کے قصے بھی سن رہے تھے۔

مولابخش کا بس نہ چلتاچند دنوں میں بھتیجے کویہ چار سال گھول کر پلا دیتے تھے ۔ چچی بستر سمیٹ کر بڑے والے صندوق کے اوپر جمع کرتی جاتیں۔ جیجی ماں بیٹے اور پوتے کی تازہ خبریں بڑے غور سے سن رہی تھیں۔

سوہائی نے چائے کا بڑا ساس پین چڑھایا اور سندھیا لڈو بناتے ہوئے بہ قول سبھاگی مرے جارہی تھی۔وہ بستر چھوڑ کر کچن میں جا گھسیں۔

”چل چھوڑ چھوری، توتو اتنے معمولی کام میں مریں پئی، حد ہوگئی۔ یہ چلائے گی گھر۔” جھلا کر گرم گرم روٹی توے سے اتارتے ہوئے روٹی دان میں رکھی۔

سندھیا چائے لے کر باہر نکل آئی۔ شکل پر مردنی چھائی ہوئی تھی، اماں جب ڈانٹتی تھیں تو ایسے ہی چہرہ پھول جایا کرتا تھا۔

”شکل ٹھیک کر صبح صبح چہرہ سجا رکھا ہے۔” چائے کا پیالہ پکڑتے ہوئے جھاڑ پلائی تو اس کا چہرہ اور سوج گیا۔

”تو مان لو سندھیا بی بی تم ذرا نہیں بدلیں۔” سارنگ نے جملہ جوڑا ۔

وہ اسی شکل کے ساتھ ابا کی ہنسی کو نظر انداز کرتے کمرے میں جاگھسی۔”لے یہ گئی اب۔ رسالے کی نظر ہوگئی۔اب اسے دنیا جہاں کا ہوش نہ رہے گا۔ سو آوازیں دے دو پر ہے کون جو سن لے اور جواب بھی دے دے۔”

لاڈلی مرغیاں گھر بھر میں دندناتی پھررہی تھیں ۔ابھی تو سوہائی نے جھاڑو پھیرا تھا۔ پھر سے صحن گندا ہوگیا۔ سوہائی کا خیال تھا کہ اب کی بار سندھیا جھاڑو دے گی اور سندھیا یوں بن جاتی کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو اسے ادھوری کہانی چھوڑ کر اٹھنے پر مجبور کرے۔ کیا دنیا میں کوئی اور کام نہ رہا ؟خدا کی قسم اگر آخری بھی ہو تو نہ کروں۔ 

سبھاگی ہر واری سر پر ہاتھ رکھ کر کہتی تھی۔ ”چھوری کو رسالوں کی لت لگی تو باقی کسی جو گے نہ رہے گی۔”

نخرے ایسے جیسے وڈے زمین دارکے گھر پیدا ہوئی ہے۔

وہ کہتی ”غریب جاگیردار کی بیٹی ہوں کوئی مسخری نہیں ہے ۔” 

اب انہیں ایک ہی فکر کھانے لگی۔”بچی نے قد نکال لیا ہے ،عمرآپہنچی ہے اوراباکوکوئی پرواہی نہیں۔” رات سونے سے پہلے بھی صور پھونکا گیا۔

سندھیا تو بڑی ہوگی رانی بنے گی۔

کھڑکی میں بیٹھ کر اپنے شہزادے کا انتظار کرے گی۔

دور سے اس کا شہزادہ آئے گا۔

سبھاگی کہتی۔” اللہ جانے کہاں سے آئے گا مجھے تو کچھ نہیں سمجھ آتا۔میاں لڑکی قد نکالے تو سمجھو ذمہ داری آپہنچی لڑکے دیکھنا شروع کردو۔”

”گوٹھ میں اچھے بھلے دو چار ہم عمر لڑکے تو ہوںگے۔” وہ سر کے نیچے تکیہ رکھ کر سونے لگتے مگر ایک فکر لگی رہتی۔

ماں کو فکر تھی کہ سندھیا گھر کی ہوجائے اور مولابخش کو یہ فکرکہ سندھیا گھر سے چلی جائے گی۔

سوچتے ہی دل ویران سا ہوجاتا۔ سندھیا تو جب بڑی ہوگی، خود ہی یہ لوری دی تھی اور وہ وقت آگیا تھا۔ سندھیا بڑی ہوگئی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!