داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

اس رات اپنے بستر میں لیٹے ثنا نے مریم سے کہا:
’’آج میں اس سے ملی۔‘‘
’’کس سے؟‘‘
کتنی ہی دیر ثنا نے جواب نہ دیا۔ کیا بتائے کون تھا وہ ؟ وہ تو صرف نام ہی جانتی تھی ۔ مریم نے کہنی کے بل اٹھ کر اپنی جڑواں بہن کا چہرہ دیکھا۔ ان کی شکل و صورت ملتی تھی اور نہ ہی عادات لیکن ان کی روحیں آج بھی اس بندھن میں بندھی تھیں جسے ساتھ لیے وہ دنیا میں آئی تھیں۔ وہ اپنی بہن کے دل کی بات بغیر کہے بھی جان سکتی تھی۔
’’وہ سورڈ آف آنر والا؟‘‘ مریم نے پوچھا۔
ثنا چپ رہی۔
’’کہا ں ملا؟‘‘ مریم نے ایک اور سوال کیا۔
’’گھر آیا تھا ۔ ابو سے ملنے۔‘‘ ثنانے دھیمی آواز میں کہا۔
’’پھر۔‘‘
’’مریم میں خود سے بہت شرمندہ ہوں۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ نہ مزاج نہ عادات ۔ صرف شکل و صورت دیکھ کرمیں، میں اتنی سطحی باتوں پر یقین تو کبھی نہیں رکھتی تھی‘‘۔۔۔ ثنا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ کتنی ہی دیر دونوں کے بیچ میں خاموشی رہی۔
’’میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دنیا میں آنے سے پہلے عالم ارواح میں روحیں اکھٹی رہتی ہیں ۔ا ور دنیا میں آنے کے بعد یہاں اپنے ساتھیوں کو پہچان لیتی ہیں ۔ جنتا قریبی تعلق وہاں ہوتا ہے ، اتنی ہی کشش انہیں یہاں ایک دوسرے میں محسوس ہوتی ہے۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’واقعی ؟‘‘ثنانے پوچھا ۔
’’ہاں دیکھو نا تم جو بھا گ بھاگ کر پریڈ کے بعد سڑک پر پڑے فوجیوں کو دیکھنے جاتی تھی، تمہاری روح تمہیں کھینچ کرے جاتی تھیں کہ وہاں جاؤ، وہاں تمہارا روحانی ساتھی کسی کھڈے یا نالے میں سویا پڑا ہوگا۔‘‘ مریم اسے فلسفیانہ انداز میں سمجھا رہی تھی۔
دونوں ہنسنے لگیں ۔ ثنا نے تکیہ اٹھا کر مریم کو دے مارا ۔ کمرا ان کی نقرئی ہنسی سے گونج اٹھا۔
٭…٭…٭





’’کیا ہو گیا ہے مجھے ؟‘‘ فیصل نے سرجھٹک کر اپنے خیالات فوکس کرنے کی کوشش کی۔
اس طرح تو اس کے ساتھ کبھی نہیں ہو اتھا ۔اس نے زندگی میں کئی لڑکیوں کو دیکھا تھا ۔اپنے دل میں ان کی خوب صورتی، ذہانت یا ٹیلنٹ کو سراہا تھا لیکن یہ کیفیت تو اس کی کبھی نہ ہوئی تھی ۔ شام کو وہ ٹینس کھیلنے نکلا تو اپنے خیالوں میں گم پچھلے گراؤنڈ میں جا نکلا ۔ وہاں لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے ۔ وہ ریکٹ ہاتھوں میں لیے وہاں بیٹھا انہیں دیکھتا رہا ۔ میچ ختم ہو گیا ، اندھیرا چھا گیا، لڑکے گراؤنڈ سے چلے گئے، وہ پھر بھی وہاں بیٹھا خالی گراؤنڈ کو دیکھتا رہا۔
’’ہو ش کر فیصل پاگل ہو گیا ہے کیا؟ چل اٹھ اندر چل۔‘‘ اس نے اپنے آپ کو ڈانٹا۔
کمرے میں آکر وہ کپڑ ے بدلے بغیر بستر میں لیٹ گیا ۔
’’فیصل چل یار کھانے کے لیے آجا۔ قورمہ پکا ہے آج میس میں۔‘‘ یاسر نے دروازے میں جھانک کر آواز دی۔
’’نہیں ۔ مجھے بھوک نہیں ۔ تم لو گ جاؤ۔‘‘
’’تجھے بھوک نہیں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو شام کو ٹینس کھیلنے بھی نہیں آیا ۔‘‘
’’ہاں بس کچھ سر میں دردتھا ۔‘‘
’’اتنا نازک مزاج تو نہیں ہے تو ! زیادہ در د ہے ؟ دوائی لے لے چل کر ‘‘
’’اویار کچھ نہیں بس سو جاؤں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا ۔‘‘
’’اچھا چل پھر تو سو جا ۔‘‘
اس کے جانے کے بعد فیصل نے کروٹ بدل کر تکیہ سر پر رکھ لیا ۔ تھوڑی دیر ایسے ہی لیٹا رہا پھر فون اٹھا کر سارہ کو فون کیا ۔
’’آپی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ سلام دعا کے بعد اس نے جھجھک کر کہا۔
’’ہاں بولو‘‘۔
’’وہ۔۔۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا ۔
’’کیا‘‘
’’کچھ نہیں! میں کہہ رہا تھا کہ میں اس ویک اینڈ پر نہیں آسکوں گا۔‘‘ اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
’’کیوں‘‘
’’وہ۔۔۔۔ مجھے کام ہے کچھ۔‘‘
’’اچھا؟ چلو اگلے ویک اینڈ تو آؤ گے نا۔‘‘ سارہ نے مایوسی سے کہا۔
’’کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرکے ا س نے فون رکھ دیا۔ بہت دیر فون ہاتھ میں لیے سر جھکائے بیٹھارہا۔ پھر دوبارہ کال ملائی۔
’’عادل یارایک بات تو بتاؤ‘‘
’’دیکھو فیصل اگر تم پھر سے کوئی شادی کا شوشہ چھوڑنے لگے ہو تو۔۔۔۔‘‘ عادل نے اس کب بات سے بغیر کہنا شروع کیا۔
’’نہیں، نہیں! تمہاری بات نہیں ہے۔ میری بات ہے۔‘‘
’’تمہاری بات ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’کیا کربیٹھے ہو؟‘‘
’’وہی تو سمجھ نہیں آرہا۔ یہ بتاؤ تم love at first sight پہ یقین رکھتے ہو ؟‘‘
’’ہاں! کیوں نہیں۔ آپ کو پہلی نظر میں کوئی لڑکی اچھی لگتی ہے ۔پھر آپ کا دل اس سے شادی پر تل جاتا ہے۔ پھر کچھ دن بعد آپ کو عقل آجاتی ہے۔‘‘ وہ روانی میں کہہ رہا تھا۔
’’اچھا! یہ فیلنگ آکر گزرجاتی ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں! کچھ دن لگتے ہیں پھر آپ کو افاقہ ہوجاتا ہے ۔ ہر بیماری کی طرح اپنا وقت لے کر ٹلتا ہے یہ love at first sight بھی ‘‘
ـ’’love ہے یا زکام ؟ اچھا یہ بتاؤ تمہیں ہوا کبھی؟‘‘
’’کئی دفعہ‘‘
’’اس لیے تم شادی کے لیے نہیں مانتے؟‘‘
’’اوہو یار! وہ اور بات ہے۔‘‘
’’کیابات ہے؟‘‘
’’دیکھو شادی پوری زندگی کا معاملہ ہے ۔ ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں کر لی جاتی شادی ، کسی لڑکی کو دو تین سال تک اچھی طرح جانیں ، پرکھیں ، پھر شادی کریں ۔‘‘
’’تو تم پرکھ لو کسی لڑکی کو۔‘‘ فیصل بھی اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا تھا۔
’’اب میں کچھ کہوں گا تو تم پھر امی اور دادی کو میرے پیچھے لگا دو گے ۔‘‘
دو دن گزرے، چار دن گزرے، پوراہفتہ گزر گیا فیصل کو افاقہ نہ ہوا ۔ وہ آنکھیں بند کرتا تو آنکھوں کے آگے ایک معصوم چہرہ آجاتا ،آنکھیں کھولتا تو کانو ں میں میٹھی آواز گونجنے لگتی ۔ کیا کہاتھا اس نے ’’جی نہیں‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
’’جی ضرور۔‘‘
اور ان چند لفظوں نے اس کا چین چھین لیا تھا ۔ اس نے ایکسرسائز کا وقت بڑھادیا ،دوسروں کی ڈیوٹیاں دینے لگا ، لائبریری جانے لگا ، دوستوں میں زیادہ وقت گزارنے لگا ۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اب مصیبت یہ تھی کہ محبوب کی گلی جائے کس بہانے ؟ وہ فائل تو قریشی صاحب نے اسی دن اپنا چپڑاسی بھیج کر منگوا لی تھی کس قدر efficient تھے محبو ب کے ابا۔ پاسنگ آؤٹ ہو چکی تھی اس لیے پریڈ کو بھی مہینے کا بریک مل گیا تھا۔ ورنہ وہ کسی بہانے پریڈ گراؤنڈ ہی چلا جاتا۔
’’کمال ہو گیا یار war strategies میں میڈل جیتا تھا میں نے love strategies میں فیل ہورہا ہوں۔‘‘ وہ دل میں سوچتا۔
اسے بھلانے کی کوشش کرتا تو بھلایا نہ جاتا تھا اور اس سے ملنے کی کوئی تدبیر سوجھتی نہ تھی ۔نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ۔ دوستوں میں بیٹھتا تو سوچوں میں گم رہتا ۔ ان کے ساتھ باہر جاتا تو گردن گھما گھماکر ادھر ادھر دیکھتا رہتا ۔ گویا کسی کو تلاش کررہا ہو۔ اس سے کچھ بن نہ پڑتی تھی اور وہ حیران و پریشان اپنے دل کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا تھا۔
٭…٭…٭
’’شاید میں پاگل ہو رہی ہوں۔‘‘ ثنا نے اپناسر تھا م کر سوچا۔
شام کو اس نے اپنے آپ کو لان میں پھولوں کے پاس کھڑے پایا۔ تو ایک دم سے چونک گئی۔
’’یہاں کیوں آئی میں ؟‘‘اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
لیکن کوئی جواب نہ ملا ۔ وہ اپنے آپ سے ناراض ہو گئی۔
دن تھا کہ ادھیڑ بن میں گزرتا تھا ،رات تھی کہ خیالوں میں گزرتی تھی۔
’’میں دیکھ رہا ہوں فیصل تو بہت عجیب ہو گیا ہے ۔ آج کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔ چل ہمارے ساتھ ذرا گھوم پھر کے آتے ہیں ۔ مونالیزا سے کافی پیئں گے۔‘‘ ’’یاسر نے کہا۔‘‘
’’کہاں ہے یہ تیری مونا لیزا؟‘‘ فیصل نے اسے بغیر دیکھے پوچھا۔
’’یار بڑا اچھا کیفے ہے۔ پریڈ گراؤنڈ کے پاس ‘‘
’’کہاں؟‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا ۔
’’پریڈ گراؤنڈ کے پاس، یار پہلے تو پریڈ کرکر کے ہمت نہیں رہتی تھی ادھر اُدھر دیکھنے کی ۔ اب ذرا یہ ۔۔۔۔۔‘‘ اس نے کچھ شوخ لہجے میں کہا۔
’’کب جارہے ہیں ؟‘‘ اس نے جلدی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
’’بس کوئی دو گھنٹے تک۔ـ‘‘
’’ابھی چل!‘‘ وہ تیزی سے اٹھتے ہوئے تو یاسر نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’ابھی اچھا چل پھر۔‘‘
بڑے دن بعد فیصل دل لگا کر تیار ہوا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پہنچے ۔ فیصل نے جان بوجھ کر اس کے گھر کے سامنے جیپ کو دو تین جھٹکے دیے اور جیپ روک دی ۔
’’کیاہو ا ؟‘‘ دوستوں نے پوچھا۔
’’پتا نہیں۔ انجن دیکھتا ہوں ۔‘‘ اس نے جیپ سے اتر کر اس کا بونٹ اٹھا لیا اور اس کی اوٹ میں کھڑا ہو کر ثنا کے گھر کی طرف دیکھنے لگا ۔ بڑی دیر دیکھتا رہا ، کوئی نظر نہ آیا ، مایوس ہو کر اس نے بونٹ بند کیا اور پھر سے ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا ۔ جیپ سٹارٹ کی اور وہ سب مونا لیزا پہنچے۔
’’ارے یہ تو اس کے گھر سے تین منٹ کا پیدل راستہ ہے۔‘‘ اس نے خوش ہو کر سوچا۔
’’بھئی مجھے یہ کیفے بہت پسند آیا ہے۔ اب یہاں روز آیا کروں گا۔‘‘ اس نے دوستوں سے کہا۔
’’لفٹین صاحب! اتنی تنخواہ نہیں ہے آپ کی کہ آپ روز روز یہاں آکر کافی پیئں، عیاشی آپ اپنے ابا کے پیسوں پر کر سکتے ہیں ۔ اپنے پیسوں پر نہیں۔‘‘ یاسر نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔
’’گڈ آئیڈیا!‘‘ فیصل نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
واپسی پر جیپ ثنا کے گھر کے سامنے سے گزارتے ہوئے اس نے آہستہ کر لی اور سائیڈ ویو مررمیں یک ٹک اس کے گھر کی طرف دیکھتا رہا ۔
’’کہاں جارہا ہے قریشی صاحب میں نہ ٹھونک دینا۔‘‘ یاسر نے چلا کر کہا تو فیصل نے اس زور کی بریک لگائی کہ یاسر کا سر ونڈ سکرین سے جا ٹکرایا۔
’’ابے مارڈالا۔‘‘ اس نے دہائی دی۔
لیکن فیصل کہاں سن رہاتھا۔ وہ کود کر جیپ سے اترا اور دوڑ کر قریشی صاحب کو جالیا۔ ان کے ساتھ شاید ان کی بیگم بھی تھیں ، فیصل نے غور نہیں کیا۔ اس کی نظریں تو صرف ثنا کے چہرے پر تھیں۔ وہ اسے دیکھ کر ذرا سا مسکرائی پھر اپنے ساتھ کھڑی لڑکی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہنے لگی ۔ فیصل نے قریشی صاحب سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا ۔
’’سر وہ میں کنٹونمنٹ ریکارڈ کی فائل لایا تھا آپ کے لیے ۔’’اس نے کہا۔
’’وہ فائل تو میں نے تب ہی منگوا لی تھی۔‘‘ قریشی صاحب نے کچھ حیران ہو کر کہا ۔
’’جی جی!‘‘ فیصل کو سمجھ نہ آیا اب کیا کہے ۔ نظریں تھیں کے ثنا کے چہرے کو دیکھنا چاہتی تھیں لیکن قریشی صاحب کے سامنے کھڑا وہ دل مسوس رہا تھا۔
’’جب آپ کا کام ختم ہو جائے تو میں لینے آجاؤں گا ۔‘‘ اس نے ایک اور کوشش کی ۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں ۔ میں خود بھجوا دوں گا ۔‘‘ یہ وار بھی خالی گیا ۔
’’نو پرابلم سر، میں اکثر یہاں مونا لیزا آتارہتا ہوں ۔ آپ کو کوئی کام ہو ، میں حاضر ہوں ۔‘‘
’’تھینک یو۔ ضرورت ہوئی تو ضرور کہوں گا۔‘‘ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
’’مونا لیزا نے اچھا اثر ڈالاہے اس کی صحت پر تب سے چہک رہا ہے۔‘‘ یاسرنے جب پی ایم اے واپس جاکر دوستوں کو بتایا تو سب کا ایک بھرپور قہقہہ پورے کمرے میں گونج اٹھا۔
٭…٭…٭
’’سن فیصل ۔ ایک لڑکی دیکھی ہے میں نے۔‘‘ دادی نے فون پر فیصل کو کہا۔
’’میں نے بھی۔‘‘ فیصل نے بھی جیسے دھماکہ کیا۔
’’عادل کے لیے؟‘‘ دادی نے پوچھا
’’نہیں اپنے لیے۔‘‘
’’چپ کر ۔ ہر وقت مذاق۔‘‘ دادی خفا ہو گئیں ۔
’’ اب ہی تو میں سیریس ہوا ہوں۔‘‘ وہ سنجیدگی سے ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’تو لاہور کب آئے گا ؟‘‘ دادی نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’ہائے دادی کیسے آؤں ؟ کسی نے باندھ رکھا ہے مجھے یہاں۔ دوتین مہینے تک آؤں گا۔‘‘ فیصل کی آنکھوں کے آگے ثنا کا چہر ہ آگیا۔
’’چلو اچھا ہے تب تک عطیہ بھی ٹھیک ہو چکی ہو گی۔‘‘ دادی روانی میں کہہ گئیں۔
’’کیا ہوا امی کو؟‘‘ فیصل نے چونک کر پوچھا
’’ارے میرا بھلکڑ دماغ۔ کچھ نہیں ہوا۔ بالکل کچھ نہیں ہوا۔‘‘
’’دادی مجھے فوراً بتاتیں امی کو کیا ہوا ہے ورنہ میں کبھی آپ کو شکل نہیں دکھاؤں گا۔ ’’فیصل نے دھمکی دی ۔
’’بیٹا بڑی بیمار ہے عطیہ ۔تجھے بتانے سے منع کیا تھا تو خوامخوا وہاں بیٹھا پریشان ہو گا۔ میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا۔‘‘ دادی نے ہتھیار ڈال دیے۔
’’امی سے بات کروائیں میری۔‘‘ اس نے جلدی سے دادی کو کہا۔
’’سورہی ہے وہ۔‘‘ ان کا لہجہ اب دھیما تھا۔
’’لگتا ہے طبیعت زیادہ خراب ہے ۔ دادی میں کل ہی لاہو رکے لیے نکلتا ہوں ایک دن ہی رک سکوں گا۔ آپ امی ابو کو بتا دیجیے گا۔‘‘ اس نے گویا انہیں اپنا فیصلہ سنایا۔
دادی کا فون رکھ کر فیصل نے زنیرہ کو فون کیا اور اسے تیاررہنے کو کہا۔ وہ آرمی کے ٹرک میں اسلام آباد تک چلا جاتا تھا اور پھر وہاں سے زنیرہ کو ساتھ لے کر اس کی گاڑی میں لاہو ر آجاتا تھا ۔ اس اچانک ٹرپ کا سن کر زنیرہ خوش ہو گئی ۔ فیصل کی کمپنی میں وہ بہت خوش رہتی تھی ۔ وہ اسے جتنا ہنساتا تھا اسے لگتا تھا ایک مہینے کا ہنسی کا کوٹہ پورا ہو گیا۔ اس نے خوشی خوشی کھانے پینے کی ڈھیروں چیزیں بنائیں، سینڈوچ، براؤنیز، روسٹ اور فیصل کی پسند کی کوکیز۔ فیصل اپنی فٹنس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ کھانے پینے میں بہت احتیاط کرتا تھا۔ اس نے اپنے لیے چائے رکھی اور فیصل کیلئے تھرماس بھر کر دودھ، کسی یاد نے اس کے ہونٹو ں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ فیصل کو دودھ بہت پسند تھا۔ دو گھنٹے میں وہ پورا دیگچہ دودھ کا ختم کر دیتا۔ ابو نے اس کی خاطر گھر میں بھینس پال لی ۔ اس کا دودھ کا گلاس اتنا بڑا تھا کہ جگ لگتا تھا ۔ عادل اس کا مذاق اڑاتا۔
’’دودھ پیتے بچے ہی رہو گے یا بڑے بھی ہو گے؟‘‘ وہ پوچھتا ۔
’’میں تو بڑھاپے میں بھی دودھ پیا کر وں گا۔‘‘ فیصل سنی ان سنی کردیتا۔
’’اپنے پوتوں پوتیوں کے فیڈر چھین کر۔‘‘ عادل اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا۔
’’بھئی مجھے تو جنت میں جانے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی۔ میں تو دودھ کی نہر کے کنارے گھر بناؤں گا اپنا۔‘‘ وہ سنجیدگی سے کہتا۔
’’اور میں رات کو جا کر دودھ کو جھاگ لگا دیا کروں گا۔‘‘ صبح دود ھ کی نہر کی جگہ دہی کی دلدل کھڑی ہو گی۔‘‘ عادل چھیڑتا۔
’’و ہ بھی ٹھیک ہے ایک دن لسی ہی سہی فرشتوں کیلئے ٹیکنیکل فالٹ ٹھیک کرنا کیا برابلم؟‘‘ فیصل شاہانہ بے نیازی سے کہتا۔
زنیرہ نے اتنا کچھ کھانے کیلئے رکھ لیاتھا کہ فیصل دیکھ کر حیران ہو گیا۔
’’چار گھنٹے کا راستہ ہے چار دن کا نہیں‘‘ اس نے یاد دلایا۔
’’راستے میں کہیں پکنک کیلئے رکیں گے۔‘‘ زنیرہ نے کہا ۔
’’کہاں؟ موٹر وے کے کنارے تو چند گاؤں ہیں جہاں بھینس بندھی ہوتی ہیں۔‘‘
’’یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ تمہاری بیسٹ فرینڈ بھینس۔‘‘ زنیرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ویسے آئیڈیا برا نہیں۔ یہ دودھ کا تھرماس یہیں رہنے دیں، راستے میں تازہ دودھ خرید کر پئیں گے۔‘‘
سارا سفر ہنستے بولتے کٹا ۔ ایک دو مرتبہ فیصل نے اسے ثنا کے بارے میں بتانے کا سوچا لیکن پھر ارادہ بد ل دیا۔ ابھی تو خود اس کے لیے کچھ واضح نہیں تھا۔ وہ کس کو کیا بتاتا؟ اسے معلوم تھا زنیرہ بہت پر جوش ہو جائے گی اور سوال پر سوال پوچھنے لگے گی ۔ اس کے پاس کسی سوال کا جواب نہ تھا ۔
عطیہ اپنے دونوں بچوں کو دیکھ کر خوش ہو گئیں۔
’’ایک ہفتے سے بستر پر پڑی ہے تمہاری ماں۔ خدمت کر کرکے ہم تھک گئے انہوں نے ٹھیک ہونے کا نام نہ لیا ۔ بچے آگئے ہیں تو کیسے چہک رہی ہیں۔‘‘ سرور نے انہیں بتاتے ہوئے کہا۔
’’بچوں پر تو ہمیشہ سے جان دیتی ہے عطیہ۔ اب اکیلی ہوتی ہے تو ہمسائیوں کے بچوں کو بلوالیتی ہے۔ راہ جاتوں کے بچوں کو پیار کرنے کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ دادی نے بھی جملہ مکمل کیا۔
زنیرہ کے چہرے کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی ۔ شاید یہ صفت اس نے امی سے ہی لی ہے ۔ اس نے سوچا اپنے بچپن سے ہی وہ چھوٹے بچوں پر جان دیتی تھی۔ شاید اس لیے اللہ نے اس آزمائش کے لیے اسے چنا۔ اب اس کا بھی یہی حال تھا۔ راہ چلتے لوگوں کے بچوں کو پیار کرتی ، دوستوں کے بچوں سے دل بہلاتی۔
’’اللہ زنیرہ کو بچے دے ۔ پھر ہم دل بھر کر ان کو پیار کریں گے۔ غیروں کے بچوں سے دل بہلانے کی نوبت نہیں آئے گی۔‘‘ دادی سے دعائیہ انداز ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’امی آپ فکر نہ کریں آپ میری شادی کر دیں۔ چھے سال میں میرے چھے بچے ہو جائیں گے تین آپی کو دوں، تین آپ کو۔ آپ دل بھر کر ان سے پیار کیا کرنا۔‘‘ فیصل نے عطیہ کے کندھوں کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے لاڈ سے کہا۔
’’اور تم اور تمہاری بیوی کیا کرو گے ؟‘‘ عطیہ نے ہنس کر پوچھا۔
’’عیش!‘‘ وہ عطیہ کی گود میں سررکھ کر لیٹ گیا۔
’’کاش عادل ہی شادی کے لیے مان جائے۔‘‘ دادی نے آہ بھری۔
’’واقعی فیصل تم اپنے بچے ہمارے پاس چھوڑ جایا کرنا ہمارا بڑھاپا سنور جائے گا ۔ ہم ان بچوں کو میکڈونلڈ لے جایا کریں گے اور رائیڈ پارکس ، ہم بھی خوش، تم بھی خوش۔‘‘ عطیہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
زنیرہ خاموشی سے سنتی رہی ۔
’’فیصل تمہارے بال کیوں اتنے گررہے ہیں ؟‘‘ عطیہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پھیرتے رکیں۔
’’پتا نہیں امی۔ کچھ نہ پوچھیں میں خود بڑا پریشان ہوں۔‘‘ اس نے منہ بسور کر کہا۔
’’بڈھا ہو گیا لڑکا۔‘‘ زنیرہ شرارت سے بولی۔
’’اسی لیے تو کہتاہوں شادی کر دیں میری۔‘‘ وہ بھی بڑھ بڑھ کر بول رہا تھا۔
’’ارے ہاں! عادل کے لیے بڑی اچھی لڑکی دیکھی ہے۔‘‘ دادی شروع ہو گئیں۔
’’او خدایا! عادل نے شادی نہ کی تو میں تو کنوارہ ہی مر جاؤں گا۔ فیصل نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
فوزیہ کے مصیبت کے دن اس طرح آ ئے اور کٹ گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں ۔ زندگی نے اپنا تار وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا ۔آہستہ آہستہ اس کی زندگی واپس اسی ڈگر پر آنے لگی ۔ اسے فیکٹر ی میں وہی نوکری دوبارہ مل گئی ۔ وہ دیانت دار اور محنتی ورکر تھی ، فیکٹری والوں نے بہ خوشی اسے اس کی پرانی جگہ پر بحال کر دیا۔ جہاں زندگی کی اپنی ڈگر پر واپس آئی وہیں زندگی کے جنجال بھی لوٹ آئے۔ طاہر نے اپنے لفنگے دوستوں سے میل ملاپ دوبارہ شروع کردیا ۔رو دھو کر ایف اے پاس کیا اور پڑھائی چھوڑ دی۔ کبھی کہیں کوئی کام کر لیتا ،مگر ٹک کر کہیں نوکری نہ کی ۔ وہ ماں کاخیال بھی رکھتا تھا ،کبھی کبھی گھر گھر میں پیسے بھی دے دیتا تھا ۔ مگر فوزیہ دیکھ رہی تھی کہ سامنے زندگی کی کوئی واضح راہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ پھر سے ادھر ادھر بھٹکنے لگا تھا۔ طاہر کو اپنی پچھلی زندگی کی طرف مڑتے دیکھ کر فوزیہ کو یہ خیال ہولانے لگا تھا کہ شازیہ بھی وہی گل نہ کھلانے لگے ۔ وہ شازیہ پر چوبیس گھنٹے نظر نہیں رکھ سکتی تھی اس نے شد و مد سے شازیہ کیلئے رشتہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!