داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

کھانے کے بعد پندرہ منٹ کا ریسٹ ٹائم ہوا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر پلٹن چلنے کے لیے تیار گیٹ پر کھڑی تھی۔ پہاڑی علاقوں میںرات یوں بھی جلدی اُتر آتی اور ملٹری اکیڈمی میں تو ویسے بھی مقررہ گھنٹے پر بتیاں بند ہو جاتی اور خاموشی چھا جاتی تھی۔
فیصل نے حسبِ عادت اپنا بیگ چیک کیا ، راشن پانی کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر اس کے سڑپس کندھوں کے گرد کس لیے ۔ پلٹن چل پڑی ، سڑکوں سے گزرتے وہ کچے راستے پر اتر آئے ۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ نیچی پہاڑیوں کے اس سلسلے پرچڑھنے لگے جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پہاڑی کے دامن سے انہوں نے اس پگڈنڈی پر چڑھنا شروع کیا، جو بل کھاتی اوپر جاتی تھی اور درختوں میں گم ہو جاتی تھی۔ جوں جوں اوپر چڑھتے جاتی، جنگل گھنا ہوتا جاتا تھا۔ وہ دو دو کی قطار میں اپنے بھاری بیک پیک اٹھائے وہ اوپر ہی اوپر چڑھتے گئے ۔ تاریکی بڑھی تو ٹارچیں روشن ہو گئیں۔ جنگل کی رات کی اپنی ہی آوازیں تھیں۔ دور کہیں گیدڑ بولا۔
’’یہ گیدڑ کہاں بول رہے ہیں ؟‘‘ سبحان نے چونک کر پوچھا۔
’’قبرستان میں۔‘‘ فیصل اس کے پیچھے سے بولا۔
’’نہیں یار! قبرستان میں کیا کررہا ہے گیدڑ؟‘‘ سبحان گھبرا گیا۔
’’لڈی ڈال رہا ہے کمال کرتا ہے یار تو۔‘‘ یاسر نے کہا۔
’’قبروں سے مردے نکال کر کھاتے ہیں گیدڑ ۔سبحان آج رات اگر تو سو گیا تو کوئی گیدڑ تجھے بھی مردہ سمجھ کے گھسیٹ لے گا۔‘‘ فیصل نے بے پروائی سے کہا۔
’’چل چل!‘‘ میں کون سا کسی قبرمیں سوؤں گا۔ سبحان نے منہ بنا کر کہا۔
’’امی کی گود میں سوئے گا تو للو کہیں کا ، ڈرپوک۔‘‘ فیصل نے اسے چڑایا۔
’’تو بڑا بہادر ہے، اتنا ہی جگر ہے توتو سو کر دکھا دے قبر میں۔‘‘ وہ چڑ کر بولا۔
’’دکھا دیا تو کیا دے گا ؟‘‘ فیصل نے پختہ لہجے میں پوچھا۔
’’تو کرہی نہیں سکتا۔‘‘
’’اس کو چھوڑ! تو یہ بتا اگر میں نے قبر میں رات گزار لی تو کیا دے گا ؟‘‘
’’سور وپے!‘‘ سبحان نے بہت سوچنے کے بعد کہا۔
’’چل اوئے ! ہزار روپے دے تو بات بھی ہے ‘‘
’’ڈیڑھ سو۔‘‘
’’نو سو ننانوے۔‘‘





بڑی دیر سودے بازی ہوتی رہی۔ آخر معاملہ پانچ سو پر طے ہوا ۔ ارد گر د کے کچھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے ۔ کسی نے اپنے نئے جوتے بدلے ، کسی نے کھانا کھلانے کا وعدہ کیا ۔ شرط یہ تھی کہ فیصل پوری رات کسی کُھلی قبر میں گزارے گا اور پوپھٹنے سے پہلے باہر نہ آئے گا چاہے وہاں گیدڑ آئیں چاہے سانپ۔
تین گھنٹے کی ہائیک کے بعد قبرستان پہنچے۔ گُھپ اندھیرا، ہو کا عالم اور قبرستان کی ہول ناکی۔ لیکن جیسا صوبیدار صاحب نے کہا تھا، جوانی اور تھکن بڑی مزے دار چیز ہوتی ہے ۔ زندگی ہول ناکیوں میں بھی ہنسی خوشی گزرانے کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ آپ کے پاس جگہ ہو اور کوئی فکر نہ ہو۔ قبرستان میںرات گزارنے آنے والی پلٹن کے پاس یہ بہترین فارمولا موجود تھا۔ جوانی تھی ، تھکن تھی ، جگر تھا اور بے فکری تھی۔ قبروں سے ذرا ہٹ کے ، گورگن کے کمرے کے پاس کُھلے آسمان تلے ڈیرہ لگایا گیا۔ آدھی رات کے سناٹے میں ٹھنڈ بھی بڑھ چکی تھی اس لیے الاؤ روشن کیا گیا۔ کچھ لو گ اس کے ارد گر د بیٹھ گئے۔ کچھ نے چادریں بچھا کر سونے کی تیاری کی اور کچھ چائے بنانے میں مشغول ہوگئے۔
فیصل، سبحان ، یاسر اور شرط لگانے والے چند لڑکے کسی کھلی قبر کی تلاش میں روانہ ہوئے ۔ آہستہ آہستہ وہ الاؤ اور اس کے پاس بیٹھے لڑکوں سے دور ہوتے گئے ۔ قبرستان کا سب سے پیچھے والا کنارہ جہاں گھنے درختوں کی بہتات تھی ، وہاں کا سب سے پرانا اور نظر انداز شدہ حصہ تھا۔ یہاں ٹوٹے پھوٹے کتبے، آدھی مسمار شدہ قبروں اور کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ٹارچیں گھماتے گھماتے انہیں ایک ادھ کھلی قبر نظر آئی۔
فیصل نے بیک پیک کندھوں سے اتار دیا ۔
’’فیصل چھوڑ یار! میں نے شرط واپس لی ۔ آؤ واپس چلیں۔‘‘ سبحان نے ڈر کر کہا۔
فیصل نے کوئی جواب نہ دیا ۔ بوتل نکال کر دو تین گھونٹ پانی کے لیے ۔ بوتل واپس رکھی کیڑے مار لوشن نکال کر چہرے اور ہاتھوں پر ملا ۔ٹارچ روشن کر کے پنجوں کے بل قبر کے سرہانے بیٹھ گیا اور اندر کا جائزہ لیا ۔ اِدھر اُدھر بکھری چند ہڈیوں کے سوا قبر مکمل طور پر خالی تھی ۔اس نے اطمینان سے سر ہلایا اور ٹارچ یاسر کو پکڑا دی ۔ فیصل نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک اینٹ اٹھائی اور قبر میں اتر گیا ۔ اس کے سارے ساتھی ٹارچیں ہاتھ میں پکڑے قبر کے ارد گرد کھڑے تھے اور اسے دیکھ رہے تھے۔ سبحان کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا ، ایک جارہاتھا ۔ لگتا تھا ابھی رودے گا۔ فیصل نے اینٹ سرہانے رکھی اور مزے سے پوری وردی اور بوٹوں سمیت اس پر سر رکھ کر لیٹ گیا ۔
اس کے ساتھی اب بھی دم بہ خود کھڑے اسے دیکھ رہے تھے ۔
’’بتیاں بجھا دو روشنی میں نیند نہیں آتی مجھے۔‘‘ فیصل نے آنکھیں موندے مُسکر اکر کہا۔
گورگن کے حجرے کے پاس جلتے الاؤ تک پہنچے پہنچتے سبحان کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھنے لگے۔ آخری ایک گز کا فاصلہ اس نے بھاگ کر طے کیا اور لوٹا اُٹھا کر درختوں کے پیچھے دوڑ گیا ۔ ساری رات اس نے اسی طرح کاٹی ۔ پلک سے پلک نہ جڑی۔ باقی سب لوگ سوگئے تو وہ بے چارہ لوٹا لیے درختوں کے گرد چکر کاٹتا رہا ۔ ساری رات روشن رہنے سے اس کی ٹارچ کی بیٹر ی صبح سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ ادھر پو پھٹی، ادھر ان کے کیمپ میں ہلچل مچی ۔اِدھر اُدھر سے لوگ اٹھنے لگے ۔ منہ ہاتھ دھونے اور ناشتہ بنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں ۔
سبحان نے یاسر کو جھنجھوڑ کر اٹھایا ۔ یاسر نے اس کا چہرہ دیکھا تو حیران رہ گیا ۔
’’ابے تجھے کیا ہو ا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’فیصل!‘‘ سبحان کے منہ سے سرسراتی آواز نکلی۔
یاسر ہنسا ’’یہ کس بیماری کا نام ہے؟‘‘ لیکن پھر سبحان کی شکل دیکھ کر وہ سنجیدہ ہو گیا۔
’’ہاں یار، چل اس کا پتاکریں۔ کوئی سانپ وانپ ہی نہ کاٹ گیا ہو۔‘‘
انہوں نے پچھلی رات ساتھ جانے والے ساتھیوں کو اٹھایا اور قبرستان کے اس حصے کی طرف تیز قدموں سے چل پڑے، جہاں فیصل کو چھوڑ آئے تھے۔ جھاڑیاں اور قبریں پھلانگتے وہاں پہنچے ۔ گھنے درختوں کی وجہ سے وہاں اب بھی نیم اندھیرا تھا۔
’’فیصل!‘‘ یاسر نے قبر کے قریب پہنچ کر آواز دی کوئی جواب نہ آیا۔ انہوں نے اپنی ٹارچیں روشن کیں اور دل میں ہزاروں وسوسے لیے قبر کے اندر جھانکا ۔ اندر فیصل اسی طرح لیٹا تھا جس طرح وہ اسے کل چھوڑ گئے تھے ۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے سینے پر ایک چھوٹا سا بلاؤ بیٹھا بہ غور اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
’’فیصل!‘‘ یاسر نے تشویش سے آواز دی ۔ مگر فیصل میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔
’’میرا خیال ہے مر گیا ہے۔‘‘ ایک لڑکے نے رائے ظاہر کی ۔
’’فیصل!‘‘ اب کے یاسر چلایا ۔
’’ہاں!‘‘ فوراً ہی زور دار کڑکتی آواز میں جواب آیا ۔ فیصل نے آنکھیں کھولیں ۔ چند لمحے وہ اور ننھا بلاؤ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے پھر فیصل نے ایک ہاتھ مار کر اسے اپنے سینے سے گرادیا۔ یاسرنے ہاتھ بڑھایا ۔ فیصل نے نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ تھامنے کی بجائے قبر کے کناروں پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ کو اٹھا لیا ۔ باہر آکر اس نے وردی جھاڑی اور سبحان کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بولا:
’’نکال میرے پانچ سو روپے‘‘
سبحان چند لمحے آنکھیں پھاڑے کھڑا سے دیکھتا رہا ، ایسے جیسے کسی بھوت کو دیکھ رہا ہو، پھر یک دم بڑھ کر اس سے لپٹ گیا۔
٭…٭…٭
’’عادل تم سے ناراض ہے۔‘‘ زنیرہ نے کیک اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا ۔
’’کیوں میں نے کیا کہا؟‘‘ فیصل نے حیران ہو کر پوچھا ۔
’’وہ کہتا ہے تم نے دادی کو اس کی شادی کے بارے میں اُکسایا۔‘‘
’’میں نے کہاں اُکسایا۔۔۔۔‘‘ فیصل کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
’’وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تم نے دادی کو اس سے فضول سوال پوچھنے کا کہا۔‘‘ زنیرہ نے بات کاٹی:
’’اللہ خوش رکھے میرے بھائی کو فضول سوال کے جواب میں اس نے دادی سے کہا کہ آپ فیصل کی شادی کر دیں۔‘‘
’’پہلے بڑے تو ہو جاؤ منے۔ پھر شادی بھی کروا لینا‘‘ زنیرہ نے اس کی ناک مروڑی۔
’’دیکھیں آپی یہ نہ کہا کریں، چھے فٹ تین انچ قد ہے میرا ۔ ساڑے اکیس سال کا ہو گیا ہوں ۔ ابھی بھی آپ مجھے منا کہتی ہیں۔‘‘ فیصل نے برُا مان کر کہا۔
’’ساڑھے اکیس سال تم ساڑھے اکانوے سال کے بھی ہو جاؤ گے تو بھی میرے منے ہی رہو گے۔‘‘ زنیرہ ہنس پڑی۔
’’کدھر پھنس گیا یار! ادھر والد ہ محترمہ فرماتی ہیں کہ فیصل تیری تو بھنویں بھی سفید ہو جائیں گی ، تب بھی میں تجھے گود میں بٹھا کر ماتھا چوما کروں گی ۔ادھر آپی صاحبہ نے منا بنائے رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’اچھا بڑے میاں، نہیں کہتی تمہیں منا مگر بتاؤ آج لاہور جانا ضروری ہے؟ ’’زنیرہ نے پوچھا۔
’’ہاں بس اسی ویک اینڈ کی چھٹی ہے ۔ پرسو ں رات واپس آجاؤں گا۔ ‘‘
’’آج رات میرے پاس رک جاتے۔‘‘ زنیرہ خاموش ہوگئی۔
’’نہیں رُک سکتا آپی، امی انتظار کررہی ہوں گی۔ اگلی دفعہ آؤں گا تو ضرور رکوں گا آپ کے پاس۔‘‘ اس نے ہولے سے کہا۔
اس کو خداحافظ کہنے کے بعد زنیرہ اندر آئی تو کتنی دیر لاؤنج میں کھڑی خالی خالی نظروں سے ادرھر ادھر دیکھتی رہی ۔ اس نے نک سک سے درست کمرے میں پڑے قیمتی کرسٹل لیمپس کو دیکھا۔ اپنی جگہ پر جمے خوب صورت پردوں پر نگاہ ڈالی۔ پاس پڑے صوفے پر ہاتھ پھیرا جس کی پوشش بے داغ تھی اور سب کشن اپنی جگہ ترتیب سے رکھے تھے۔ سب کچھ اسی طرح تھا جیسے کل اور پرسوں تھا، ایک مہینہ پہلے تھا اور ایک سال پہلے تھا۔ اس گھرمیں بے ترتیبی پھیلانے والا کوئی نہ تھا ۔ نہ کہیں کوئی ننھا سا جوتا پڑا تھا نہ کہیں کھلونے اوندھے تھے۔ فرش پر کسی کے جوتوں کے نشان نہ تھے۔ اور نہ ہی کہیں کتابیں، کاپیاں، پنسلیں بکھری ہوئی۔ لاؤنج کی بے روح خوب صورتی سے نظریں چرا کر وہ اپنے بیڈروم میں آئی۔ یہاں کی صفائی ستھرائی دیکھ کر اس کا دل گھبرانے لگا ۔ اسے لگا وہ عالمِ برزخ میں کھڑی ہے۔ خاموش، خالی، بے رحم سی ٹھنڈک جو جسم کو محسوس نہ ہو مگر ہڈیوں میں اتر جائے۔ اس نے تیزی سے الماری کھولی ، پرس نکالا ، گہرے رنگ کی لپ اسٹک اٹھا کر لگائی اور تیز قدموں سے باہر نکلی۔ بیڈروم کے دروازے سے نکلتے نکلتے وہ ٹھٹھک کر رک گئی۔ اسے خیال آیا کہ جب وہ شام کو واپس آئے گی تو گھر میں اندھیرا ہو گا۔ سارا دن ادھر ادھر گھومنے پھرنے ، شاپنگ اور دوستوں سے دل بہلانے کے بعد جب وہ خالی اور اندھیرے گھر میں داخل ہو کر بتیاں روشن کرے گی تو اس کا یہ ڈپریشن پہلے سے دس گنا بڑھ جائے گا۔ جس سے وہ اس وقت فرار چاہ رہی ہے۔ اس نے ساری بتیاں جلا دیں۔ لاؤنج کا فانوس اور لیمپ روشن کر دیئے۔ راستے میں موجود تمام سوئچ آن کرتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھتی گئی۔ سب سے آخر میں بتی جلا کر اس نے دروازہ کھولا۔ اس کی چیخ نکل گئی۔ سامنے فیصل کھڑا تھا۔
’’میں نے سوچاآج یہیں رہ جاتا ہوں لاہو ر کل چلا جاؤں گا۔‘‘ اس نے مُسکرا کر کہا تو زنیرہ کی بجھی آنکھوں میں ہزار قندیلیں روشن ہوئیں۔ وہ دروازے کے پٹ تھامے کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔
’’اب اندر بھی آنے دیں گی یا یہیں کھڑا رکھیں گی ؟‘‘
زنیرہ نے پیچھے ہٹ کر اسے راستہ دیا۔
’’امی کو فون کر دیا میں نے، وہ میرے لیے کھانا پکا کر بیٹھی تھیں۔ خیر اب آپ کھلائیں گی مجھے مزے دار کھانا ۔ کیوں نہ رات بار بی کیو کریں ؟ اور یہ ساری بتیاں کیوں جلا رکھی ہیںدن دیہاڑے ؟‘‘ وہ بولتا بولتا لاؤنج کی طرف جارہا تھا اور زنیرہ وہیں کھلے دروازے کے آگے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔
’’خواہ مخواہ ہی شکوہ کرتی ہوں میں اللہ سے کہ مجھے اولاد نہیں دی۔ فیصل ہے نا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
٭…٭…٭
زنیرہ آٹھ سال کی تھی جب اس نے پہلی مرتبہ فیصل کو گود میں لیا۔ عادل اس سے تین برس چھوٹا تھا اس لیے اس کے ساتھ بچپن اسی طرح لڑتے جھگڑتے گزرا جیسے عام بہن بھائیوں کا گزرتا ہے ۔ زنیرہ کو گڑیوں کا بہت شوق تھا ۔زمانے بھر کی گڑیاں اس کے ذخیرے میں موجود تھیں ۔ سب کے اپنے اپنے نام تھے۔ وہ گھنٹوں ان سے کھیلتی تھی۔ کبھی ٹیچر بن کر ان کو سامنے بٹھا لیتی تھی اور انہیں پڑھاتی ، کبھی امی بن جاتی، گڑیوں کو نہلاتی، ان کے کپڑے بدلتی، کھلاتی پلاتی او جوتوں کے ڈبوں سے بنائے ہوئے ان کے بستروں میں سلا دیتی ۔ عادل اس کے کمرے میں کھیلنے آتا تو وہ ذرا ہی دیر میں گھبرا کر اسے باہر دھکیل دیتی۔ وہ اس کی گڑیوں کے بازو اور ٹانگیں مروڑ دیتا، ان کے گھروں کو الٹ پلٹ کر دیتا، انہیں قطار میں رکھ کر گیند سے نشانے لگالگا کر انہیں گراتا۔ زنیرہ چیختی چلاتی اس کو دھکے دیتی ، وہ جواب میں اس کے بال نوچ لیتا اور کبھی داؤ لگتا اور اس کی کوئی گڑیا ہاتھ آجاتی تو پھر وہ سلامت نہ بچتی ۔ ایسی ہی ایک لڑائی کے بعد زنیرہ ٹوٹی ہوئی گڑیا ہاتھ میں پکڑے روتی ہوئی عطیہ کے پاس گئی تو انہوں نے اس کے آنسو پونچھے ، پیار کیا اور پاس بٹھاکر کہا:
اگر میں تمہارے لیے سچ مچ کی جیتی جاگی گڑیا لے آؤں تو کیسارہے گا؟‘‘
’’یہ تھی نہ میری جیتی جاگتی گڑیا آنکھیں کھولتی اور بند کرتی تھی ۔ روتی بھی تھی۔‘‘ زنیرہ نے سسکی بھر کر کہا۔
یہ تو بیٹر ی سے چلتی ہے میں تو سچ مچ کے منے کاکے کی بات کررہی ہوں عطیہ ہنس پڑیں۔
’’مناکاکا ؟‘‘ وہ کہاں سے لائیں گی آپ۔‘‘ زنیرہ رونا بھول گئی۔
’’ہاسپٹل سے‘‘
’’میرے لیے؟‘‘ اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا:
’’ہاں! تم اس سے کھیلنا، اس سے پیار کرنا، اسے کوئی تم سے چھین کر نہیں توڑ سکے گا۔‘‘ زنیرہ نے اگلے چار پانچ ماہ انتظار کی کس شدت سے گزارے یہ وہی جانتی تھی۔ ہرروز وہ عطیہ سے پوچھتی:
’’کب آئے گا میرا مناکاکا؟‘‘ اور جب وہ آگیا تو خوشی کے مارے وہ ناچنے لگی۔
’’میرا منا آگیا، میرا بے بی آگیا۔‘‘ وہ ایک ایک کو بتاتی۔
جب فیصل کو گھرلایا گیا تو سب سے پہلے اسے زنیرہ نے گو د میں لیا۔ اسے لے کر وہ اہتمام سے صوفے پر بیٹھ گئی اور جب عادل نے اشتیاق کے مارے آگے بڑھ کر اسے دیکھنے کی کوشش کی تو اس نے مالکانہ استحقاق سے فیصل کو سینے سے بھنچ لیا۔
’’میرا بے بی ہے۔ خبردار جو تم نے ہاتھ لگایا۔‘‘
’’یہ تو دوسری ماں ہے فیصل کی۔‘‘ عطیہ اکثر ہنس کر کہتیں:
وہ سب کچھ جو وہ گڑیوں کے ساتھ کرتی تھی ، فیصل کے ساتھ کرنے لگی۔وہ اصرار کر کے عطیہ کے ساتھ اسے نہلاتی۔ وہ صابن لگاتیں، زنیرہ پانی ڈالتی، نہلاکر تولیے میں لپیٹ کروہ اسے زنیرہ کو پکڑا دیتیں۔ وہ اسے کپڑے پہناتی ، فیڈر پلاتی ، حتیٰ کہ سُلا بھی دیتی۔ عطیہ کو بڑا سکھ ہو گیا ۔ فیصل ذرا بڑاہوا تو زنیرہ کے پیچھے پیچھے پھرنے لگا۔ وہ اسے اپنی گڑیوں کے بیچ بٹھا کر اس کے ساتھ گھر گھر کھیلتی ، ٹیچر بن کر اسے پڑھاتی، امی بن کر اسے جھوٹ موٹ کے سکول بھیجتی، اپنی گڑیوں کے چھوٹے چھوٹے برتنوں میں اسے فرضی کھانا کھلاتی ۔ فیصل کے لیے اس کے اصول عادل سے بالکل مختلف تھے۔ وہ اس کے برتن یا گڑیاں توڑ بھی دیتا تو وہ حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتی۔ وہی تو تھا اس کا سب سے پیار ا گڈا ۔ اس کے ہوتے دوسری گڑیاں نہ بھی ہوتیں تو کیا فرق پڑتا؟ زنیرہ نے ماں کی بات کو دل پر لکھ لیا تھا۔
’’وہ تمہارا ہو گا‘‘ انہوں نے اس سے کہا تھا۔ پانچ چھے سال کی عمر تک اگر کوئی فیصل سے پوچھتا کہ تم کس کے بیٹے ہو تو وہ جواب میں کہتا ’’امی، ابو اور آپی کا۔‘‘ اور جب اسے بتایا جاتا کہ آپی اس کی ماں نہیں بہن ہے تو اسے سمجھ نہ آتی۔
’’اچھا بہن ہی سہی، لیکن میں ان کا بیٹا ہوں۔‘‘ وہ کندھے اچکا کر کہتا۔
وہ آج بھی اس کا بیٹا تھا۔
٭…٭…٭
؎ ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا ایک در ہے میری گود کے اندر کھلا
خلد کا ایک در ہے میری گود کے اندر کھلا
ثنا نے کتاب بند کر دی۔
’’خدا کی پناہ اب اس کا مطلب بھی بتا دو۔‘‘ مریم منہ بنا کر بولی۔
’’میری کیا مجال کہ غالب کی تشریح کروں۔‘‘ ثنا نے کان کی لو چھو کر کہا۔
’’چلو تم نہ کرو میں کردیتی ہوں۔‘‘ مریم نے اپنی کیمسٹری کی کتاب اوندھی کرتے ہوئے ثنا کے ہاتھ سے دیوانِ غالب لے لیا۔
’’شاعر کہتا ہے۔۔۔۔۔‘‘ وہ رُکی اور غورسے شعر کو دوبارہ پڑھا:
’’ہاں! شاعر کہتا ہے کہ میں بہت حسن پرست ہوں اور مرنے کے بعد بھی رہوں گا۔‘‘
’’غالب کی روح تڑپ اٹھی ہو گی یہ تشریح سن کر۔‘‘ ثنا ہنس پڑی۔
’’شکریہ! یہ میرا انتقام ہے ۔ تم اس کے شعر سن کر پھڑک اٹھتی ہو ، وہ میری تشریح سن کر تڑپ اٹھے گا ۔ جیسے کو تیسا۔‘‘ مریم نے بے نیازی سے کہا۔
’’ٹھہرو! میں تمہیں سمجھاتی ہوں ۔۔۔۔۔‘‘ ثنا نے اس کے ہاتھ سے دیوان غالب لیا۔
’’مہربانی!‘‘ ’’مجھے معاف رکھو اپنے غالب سے۔ کل تم مجھے شیکسپئر سمجھانے لگی تھیں، آج غالب پڑھانے لگی ہو۔ کل ان کی باری آجائے گی، وہ جو ایک روتے دھوتے منہ بسورتے صاحب تھے۔ کیا نام تھا ان کا؟ کون سا درد؟‘‘ ثنا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’دردِ دل؟‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’نہیں!‘‘
’’دردِ جگر!‘‘
’’نہیں بھئی! ان کی بیماری کا نہیں ان کا اپنا نام تھا ۔۔۔۔ کچھ سردرد قسم کا ۔‘‘
’’میردرد!‘‘ اس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں وہی! توبہ ہے جس شخص کا نام ہی درد ہو ، وہ خود کتنا درد ناک ہو گا ۔‘‘
’’شا عر حساس ہوتے ہیں، درد مند ، ہمدرد، مہربان۔‘‘ ثنا نے ہاتھوں کو بلند کرکے ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔
’’صرف حسینوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں دردمند ، ہمدرد اور مہربان ؟ کبھی بدصورتوں پر عاشق ہو کر دکھائیں۔‘‘
’’شاعری او ر حسن پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔‘‘
’’پھر تو تمہیں بھی شاعر ہونا چاہیے تھا ۔‘‘
’’ہاں بیوٹی بہت متاثر کرتی ہے مجھے، قدرت میں، الفاظ میں۔‘‘ ثنا ہنس پڑی۔
’’اور انسانوں میں!‘‘ ثنا نے تائید کی۔
’’کتنا فالتو وقت ہے تمہارے پاس۔ اس لیے کہا تھا فائن آرٹس مت پڑھو ۔ سائنس پڑھتی تو زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرتی ۔ یہ خوابوں خیالوں کی باتوں سے دل نہ لگاتی جیسے میں ہوں پریکٹیکل ، لاجیکل اور عقل مند۔‘‘ ثنا مسکرائی
؎ اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
مریم نے ٹھنڈا سانس بھر ا اور کیمسٹری کی کتاب چہرے کے آگے کرلی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!