داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

یاسر کمرے میں آیا تو جوش سے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا ۔ کمرے میں فیصل ، سبحان اور ایک اور کیڈٹ حیدر بیٹھے گپ شپ میں مشغول تھے ۔
’’اٹھو جوانوں وقتِ شہادت ہے آیا۔‘‘ یاسر چلایا۔
’’جلدی بول ! کس کو شہید کرنا ہے ؟‘‘ حیدر اس سے بھی بڑھ کر جوش سے بولا ۔
’’جنٹل مین کیڈٹ عبدالودود۔۔۔۔‘‘ یاسر نے جیب سے کاغذ نکالا۔
’’اوئے ہوئے ہوئے مولوی۔‘‘ سبحان نے گھبرا کر کہا۔
’’کرتوت سن لے پہلے مولوی کے لو لیٹرلکھ رہا ہے کسی لڑکی کو۔‘‘ یاسر ڈپٹ کر بولا۔
’’اوتیری خیر! ہم سے تو بہادر ہی نکلا۔‘‘ حیدر نے ہنس کر کہا۔
’’پوری بات بتا۔‘‘فیصل نے کہا۔
’’یار میرا ایک دوست ہے اس کی منگنی پر یہ گیا تھا کسی طرح، وہاں اس کی منگیتر کی ایک سہیلی پر اس کا دل آگیا۔ اسے ایک محبت بھرا خط لکھ مارا اس نے۔‘‘ یاسر نے بتانا شروع کیا۔
’’لڑکی کیا کہتی؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
’’وہ منگنی شدہ ہے۔ اس نے مولوی صاحب سے ذرا اچھے طریقے سے بات کرلی، یہ لٹو ہوگئے۔ اتا پتا تھا نہیں اس کا، اس کے کالج کے پتے پر خط لکھ دیا، ساتھ اپنی تصویر بھی بھیج دی۔ اس بے چاری کی پیشی ہو گئی پرنسپل کے سامنے۔ اب وہ بڑی سخت ناراض ہے۔ اس نے اپنی سہیلی یعنی میرے دوست کی منگیتر کو شکایت کی ۔ اس نے میرے دوست سے کہا۔ دوست نے مجھے سے بات کی تو میں نے کہا فکر ہی مت کر۔ تیری منگیتر ہماری بہن ، اس کی سہیلی ہماری سہیلی۔ ایسا رگڑا دیں گے سالے کو ، ساری عاشقی ناک کے راستے نکل جائے گی۔‘‘ یاسر نے مکا بناتے ہوئے کہا۔
اللہ دے اور بندہ لے، جونئیر کو رگڑا دینا سینئر کا فرض ہے۔ چاروں نے جتھا بنا کر عبدالودود کے کمرے پر چھاپہ مارا اور اسے برآمد کر لیا۔ وہ بے چارہ سچ مچ عبدالودود نکلا ۔ محبت سے گندھا ہوا ، عاجزی اور انکساری کا پیکر ، میٹھا بول ، تمسخر سے پاک، چھوٹا سا لڑکا، نئی نئی نکلی ہو ئی خشخشی ڈاڑھی ۔ لیکن یہ وقت ترس کھانے کا نہیں تھا ۔ اسے مارچ کراتے ہوئے وہ گراؤنڈ میں لے آئے ۔ وہ بے چارہ پہلے ہی سینئرز کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا ۔ رہی سہی کسر کڑاکے کی سردی نے نکال دی۔
’’کیا بات ہے سر ؟‘‘ اس نے عاجزی سے پوچھا۔
’’ابھی بتاتے ہیں بیٹا۔ صائمہ اظہر طالبہ فلاں کالج فارویمن تھرڈ ائیر کو خط آپ نے لکھا تھا؟ مکرنا مت ہم نے خط بھی دیکھ لیا ہے اور اس کے اندر بھیجی گئی تصویر بھی۔‘‘ یاسر نے کہا۔





’’اوئے تو نے تصویر کیو ں بھیجی چھچھوندر کی اولاد؟ بہت حسین سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو؟‘‘ حیدر نے پوچھا۔
’’نہیں سر۔‘‘ اس نے سر نیچے کرکے کہا۔
’’نہیں سر کا کیا مطلب؟ خط نہیں لکھا تو نے ؟‘‘ فیصل نے ڈپٹا۔
’’وہ تو لکھا تھا جی، میرا مطلب ہے میں اپنے آپ کو بہت حسین نہیں سمجھتا۔‘‘ اس نے ’’بہت‘‘ پر زور دے کر کہا ۔
’’لیکن حسین سمجھتا ضرور ہے ۔‘‘ سبحان نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
’’تجھے معلوم ہے یہ لڑکی کون ہے ؟ کزن ہے میری۔‘‘ یاسر نے ڈانٹا
’’میں نے کوئی غلط بات نہیں لکھی۔ بس اپنی پسند کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اس نے لجاجت سے کہا:
’’اظہار کے بچے! تجھے شرم نہیں آئی لو لیٹر لکھتے، وہ بھی کالج کے پتے پر۔‘‘
’’گھر کا پتا مانگنے کے لیے ہی تو لکھا تھا تاکہ اپنے گھر والوں کو اس کے گھر بھیج سکوں ۔‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔
’’کس لیے؟‘‘ سبحان نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’نکاح کے لیے سر!‘‘ وہ شرما کر بولا۔
’’اوئے اُگ تو جا پہلے زمین سے اماں کی گود سے نکل کر سیدھا نکاح پڑھائے گا۔‘‘ سبحان کی حیرت برقرار تھی۔
’’کمینے میں کراتا ہوں تیرا نکاح کپڑے اتار اپنے۔‘‘ یاسر نے ڈانٹ کر کہا۔
’’جی سر؟‘‘ اس نے بھونچکا ہو کر کہا۔
’’کپڑے اتار! ’’یاسر چلایا۔
اس نے گھبر ا کر کپڑے اتارنے شروع کیے حتی کہ ایک نیکر او ر بنیا ن اس کے جسم پر رہ گئے۔
’’چل بھاگنا شروع کر چکر لگا گراؤنڈ کے ہم بیٹھے ہیں یہیں پر ۔ خبردار جو رکا ۔ نئے سرے سے شروع کرائیں گے۔‘‘ یاسر نے آرڈر کیا۔
سردی سے کانپتے ہوئے عبدالودود نے گراؤنڈ میں بھاگنا شروع کردیا۔
’’جانے دو یار دل کا معاملہ ہے۔‘‘ فیصل نے دل پسیج کر کہا۔
’’ضرور جانے دیتے، اگر لڑکی راضی ہوتی۔ اس نے باقاعدہ شکایت بھیجی ہے ۔ اب یہ دل کا نہیں، فوج کی عزت کا معاملہ ہے۔‘‘ یاسر نے سنجیدگی سے کہا۔
مولانا عبدالودود ہانپتے ہوئے وسیع و عریض گراؤنڈ کے چکر لگاتے رہے ۔
’’speed up! ‘‘ سبحان پانچویں چکر کے بعد للکارا۔ اس نے تین چکر مزید لگائے۔
’’میرا خیال ہے بس کریں، گرجائے گا اب یہ۔‘‘ یاسر نے اس کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
وہ قریب آیا تو اسے روک لیا گیا ۔ اس نے کھڑے ہو کر ماتھے کا پسینہ پونچھا۔
’’گرمی لگ رہی ہے ؟‘‘ یاسر نے پوچھا
’’یس سر!‘‘ اس نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا۔
’’وہ پانی کھڑا دیکھ رہے ہو گراؤنڈ کے centre میں ؟ یہ جوتے موزے اتارو اور جاکر اس میں کھڑے ہو جاوؑ ۔‘‘ یاسر نے اشارہ کیا۔
’’یس سر!‘‘ اس نے جوتے موزے اتارنے شروع کیے۔
’’وہاں جا کر کھڑے ہو جاؤ اور قومی ترانہ پڑھو ہمیں آواز آنی چاہیے یہا ں تک، تب تک نہیں رکنا جب تک ہم نہ کہیں۔‘‘ یاسر نے کہا۔
’’پاک سر زمین شاد باد۔۔۔۔۔۔‘‘ برفیلے پانی میں کھڑے ہو کر عبدالودود نے ترانہ پڑھنا شروع کیا۔
’’آواز نہیں آرہی دوبارہ شروع کرو۔‘‘ حیدر نے آواز لگائی۔
’’پاک سر زمین شاد باد۔۔۔۔۔‘‘ اس نے فل والیوم میں پڑھنا شروع کیا ۔ سردی نے کہیں کے ’’سُر‘‘ کہیں لگا دیئے۔
جب وہ چیخ چیخ کر پندرہ مرتبہ پڑھ چکا اور اس کی آواز بیٹھ گئی تو اسے واپس بلایا گیا ۔
’’کپڑے پہنو!‘‘ حکم ملا۔
’’گیلی گھاس پر پڑے کپڑے بھی گیلے ہوچکے تھے ۔ اس نے جیسے تیسے کپڑے پہنے اور تھر تھر کانپتا ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
’’بیٹھو!‘‘
وہ وہیں گیلی گھاس پر بیٹھ گیا ۔ یاسر نے لیٹر پیڈ اور پین برآمد کیا اور اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔
’’معافی نامہ لکھو۔‘‘ یاسر نہ آرڈر دیا
’’کس کو سر ؟‘‘ اس نے دانٹ کٹکٹاتے ہوئے پوچھا ۔
’’جس کو پہلے لو لیٹر لکھا تھا، اس بہن کو لکھ۔‘‘ یاسر نے ڈپٹ کر کہا
’’ڈئیر سسٹر!‘‘ عبدالودود نے پین کاغذ پر رکھا۔
’’ڈئیر کس کو لکھ رہا ہے؟‘‘ یاسر نے آنکھیں نکال کر پوچھا۔
’’سسٹرکو سر!‘‘ عبدالودود نے روتے ہوئے کہا۔
’’کاٹ! کاٹ ڈئیر کو۔‘‘ یاسر نے ڈانٹا۔
ڈئیر کاٹا گیا اور ایک طویل معافی نامہ لکھا گیا، جس میں گڑگڑا کر اپنی غلطی کی معافی مانگی گئی اور آئندہ کوئی شکایت نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ بیچ بیچ میں چاروں اس کو ہدایتیں دیتے رہے۔
’’پتا لکھ لیں سر اپنی کزن کا۔‘‘ خط لکھ کر اس نے یاسر کو پکڑا دیا۔
یاسر کا ہاتھ وہیں رک گیا ۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا ۔ وہ گومگو کی کیفیت میں کھڑا رہ گیا ۔ فیصل اس کی مدد کو آیا ۔
’’نہیں تم لکھو اس کالج کا پتا جس پر پہلے بھیجا تھا ۔ اس کی بدنامی ہوئی تھی کالج میں وہیں خط بھیجو تاکہ سب کو پتا چلے کہ اس معاملے میں اس کاکوئی قصورنہیں تھا۔‘‘
آخر عبدالودود کو چھٹی ملی ۔ بے چارے کا سارا عشق ناک کے راستے نکل چکا تھا۔
’’I must say! نیت صاف تھی مولوی کی۔‘‘ یاسرنے اس کے جانے کے بعد مسکرا کر کہا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کے شوہر کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا طاہر دو برس کا تھا اور بیٹی شاذیہ چھے ماہ کی۔ شوہر سرکاری محکمے میں ملازم تھا اور وہ لاہورمیں سرکاری کوارٹر میں ٹھاٹھ سے رہتی تھی ۔ نئے سے نیا پہنتی اوروڑھتی، اچھے سے اچھا کھاتی پیتی اور ہمسائی خواتین سے میل ملاپ میں مگن رہتی ۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ پتوکی کے غریب سے گھر سے اٹھ کر وہ اس طرح بیگم صاحبہ بن جائے گی ۔ فوزیہ نو بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھی ۔ پتوکی تب چھوٹا سا شہر تھا ۔ مہنگائی کا وہ عالم تھا جو بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں خوش حالی نہ سہی، بہت زیادہ غربت بھی نہ تھی ۔ ماں باپ نے بیٹیوں کے لیے کچھ جمع جوڑ رکھا تھا۔ مشکل صرف یہ تھی کہ چھے بیٹیاں بیاہنا کچھ آسان کام نہ تھا ۔ جو رشتہ آتا ، زیادہ چھان بین کیے بغیر وہ کسی بھی بیٹی کا ہاتھ تھامتے اور رخصت کر دیتے۔ فوزیہ کے لیے اشفاق کا رشتہ آیا تو گویا نعمت غیر مترقبہ ہاتھ آئی۔ وہ لاہور میں سرکاری ملازم تھا ۔ موٹر سائیکل پاس تھی۔ شکل و صورت کا معقول اور شریف آدمی تھا۔ بس عمر ذرا زیادہ تھی۔ بہنیں بیاہتے اور بھائیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتے اس کی شادی نہ ہو سکی تھی۔ خیرا س کا فائدہ یہ تھا کہ اب چھڑا چھانٹ تھا ۔ کوئی ذمہ داری سرپر نہ تھی ۔ بہن بھائی اپنے اپنے گھر کے تھے ، ماں باپ اگلے جہاں سدھار چکے تھے۔ جہیز کاکوئی مطالبہ نہ تھا ۔ انہوں نے خوشی خوشی فوزیہ کو بیاہ دیا۔ وہ لاہور آکر رہنے لگی۔ وہ یہاں خوش تھی۔ پہننا ، اوڑھنا ،موٹر سائیکل پر سیر وتفریح ، اچھا شوہر ، اس کی اڑان اس سے زیادہ کیا ہوتی؟ پھر اللہ نے اولاد بھی دے دی ۔ طاہر پیدا ہوا۔ ڈیڑھ سال بعد بیٹی بھی ہوگئی۔ فوزیہ نے سوچا اب زندگی مکمل ہو گئی۔ لیکن اس مکمل زندگی کو چکنا چور ہونے میں چھے ماہ کا عرصہ بھی نہ لگا۔ اشفاق کو دل کا دروہ پڑا اور وہ پہلے ہی دورے میں جان سے گزر گیا ۔ فوزیہ کی کہانی ویسی ہی تھی جیسی ان حالات سے گزرنے والی ہزاروں عورتوں کی ہوتی ہے۔ پر جس تن لاگے سو تن جانے۔ زندگی میں جہاں کٹھن راستے آتے ہیں، سہل راہیں بھی آتی ہیں ۔ فوزیہ کی زندگی میں سکھ کے لمحے پلک جھپکتے ختم ہوگئے اور کٹھنائیاں کبھی نہ ختم ہونے والی رات کی طرح مسلط ہو گئیں۔ لاہو ر میں اس کا کوئی نہ تھا۔ محکمے سے ملے ہوئے کوارٹر میں دو مہینے سے زیادہ نہ رہ سکتی تھی ۔ اسے خاندان کا سہارا بھی درکار تھا اور سر پر چھت بھی۔ وہ واپس آگئی۔ سسرال تو کوئی تھا نہیں جہاں رہتی، میکے کے نام پر ضعیف باپ تھا اور بے نیاز بھائی۔ باپ کے گھر آئے بغیر چارہ نہ تھا۔ اس گھر میں اس نے بہ مشکل ایک سال گزارا گھر پر بھابھیوں کا راج تھا۔ وہ تو اس کے بوڑھے باپ کو روٹی جوتی کی نوک پر رکھ کر دیتی تھیں ، اسے اور اس کے بچوں کو کہاںسے ڈھوتیں؟ ایک بھائی کی سائیکل پنکچر کی دکان تھا، دوسرا کسی دکان میں سیلز مین تھا ۔ آمدنی کم، خرچے زیادہ، جھگڑے ڈھیر، فوزیہ لاہورمیں رہ کر اچھی اور پر سکون زندگی کی اہمیت سے آشنا ہوئی تھی۔ اسے اپنے بچوں کے لیے کچھ فیصلہ کرنا ہی تھا۔ شہر سے باہر بہت کم قیمت میں زمین کا اشتہار آیا تو اس نے اشفاق کی گریجویٹی کی رقم سے وہ زمین خرید لی ،کچھ اپنا زیور بیچا ،کچھ قرضہ اٹھایا اور ایک چاردیواری اور ایک کمرے کا مکان ڈال کر وہ باپ اور بچوں کو لے کر وہاں اٹھ آئی ۔
فوزیہ نے قریبی فیکٹری میں ملازمت کر لی ۔ کچھ معمولی سی پنشن بھی آتی تھی، لہٰذا گزارا ہونے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردگر د اور مکان بھی بن گئے ۔ بچے سکول جانے لگے ۔ فوزیہ گویا اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ۔ بوڑھے باپ کا انتقال ہوا تو اس کا بہت بڑا سہارا اٹھ گیا ۔فوزیہ نے طاہرکی طرف آس لگائی اور اس کو گھر کا سمجھنے لگی۔ اس کی بدقسمتی کہ گھر کے اس بڑے مرد کے پاس رول ماڈل کے نام پر یا ضعیف نانا تھا یا گلی محلے کے وہ لڑکے جن کے ساتھ وہ دن رات آوارہ گردی کرتا تھا ۔ فوزیہ دن بھر کام پر رہتی تھی۔ اس کے بھائی کبھی بھولے بھٹکے سال چھے مہینے میں ایک آدھ چکر اس کے گھر کا لگا لیتے تھے۔ بہن پیسے نہ مانگ لے یا اس کا کوئی کام نہ کرنا پڑ جائے، اس خدشے کے تحت وہ کھڑے کھڑے آتے اور خیر خیریت پوچھ کر چلے جاتے۔ ان کی پانچ بہنیں اور بھی تھیں ۔ ایک کے سر پرست بنتے تو سب کا بننا پڑتا ۔ ان کو کیا پڑی تھی کہ فوزیہ کے بچوں میں دل چسپی لیتے۔ ایسے میں طاہر جو بے مہار اونٹ بنا سو بنا، شازیہ نے بھی پر پرُزے نکالے اور محلے کے ایک دکان دار سے میل ملاپ بڑھانے لگی ۔ فوزیہ کو تب معلوم ہوا جب اس نے ایک دن اس کا خط پکڑا ۔ وہ دل تھام کر رہ گئیں ۔ قسمت نے اسے اپنے بچوں کا باپ بننے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس کوشش میں وہ ان کی ماں بھی نہ بن سکی ۔ صدمے نے اسے بیمارکرڈالا ۔ پہلے پہل وہ معمولی ٹوٹکوں اور بخار کی دواؤں سے کام چلاتی رہی۔ جب بیماری کسی طرح قابو نہ آئی اور فیکٹری سے روز روز چھٹیاں ہونے لگیں تو اس نے دل کڑا کرکے ہسپتال جانے کا ارادہ کیا ۔ طاہر آوارہ گرد تھا ، پڑھائی میں نالائق تھا، غیر ذمہ دارتھا مگر ماں سے محبت کرتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ماں کے سوا اس کا کوئی نہیں ۔وہ اس کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر کاٹتارہا ۔ فوزیہ کو لگتا تھا اس کا دماغ سن ہو چکاہے ۔ وہ گم صم رہنے لگی۔ گھر میں ہوتی تو فیکٹری کی نوکری کے بارے میں سوچتی رہتی ۔ اسے خدشہ ستاتا کہ آئے دن کی چھٹیوں کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اگروہ صحت مند نہ ہوئی تو کہیں فیکٹری سے اس کی چھٹی نہ کر دی جائے۔ وہ اپنی سوچوں میں غلطاںرہتی۔ گھر سے باہر نکلتی تو دھیان شازیہ کی طرف لگا رہتا۔ وہ کیا کرتی ہوگی؟ خط لکھتی ہوگی یا اس دوکان دار سے ملنے چلی گئی ہوگی؟ کہیں اسے گھر ہی نہ بلا رکھا ہو۔ شازیہ کو اس نے سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا، مگر اس سے زیادہ کیا کرتی، ڈر کے مارے اس نے اس بات کا تذکرہ طاہر سے نہ کیا تھا۔ طاہر نوجوان تھا، کہیں جذباتی ہو کر کوئی غلط قدم اٹھا بیٹھتا تو وہ اس واحد سہارے کی آس سے بھی جاتی ۔ وہ اندر ہی اندر گھلتی رہی اور اس جلنے کڑھنے کا نتیجہ اس رپورٹ کی صورت میں سامنے آیا جو ڈاکٹروں نے اسے مشینوں کے اندر ڈالنے کے بعد لکھی تھی، اسے بریسٹ کینسر تھا۔ فوزیہ کو لگا وہ جیتے جی مرگئی ہو۔ گھر میں دووقت کی روٹی کے لالے پڑے تھے۔ لاکھوں کا بندوبست وہ کہاں سے کرتی؟ جمع پونجی اب تک کے علاج پر خرچ کر چکی تھی ۔ بہن بھائیوں سے کوئی امید نہ تھی۔ وہ کہاں جاتی؟ کس کے در پر سر ٹکراتی ؟ کہتے ہیں مصیبت اکیلی نہیں آتی ۔ اس کے گھر میں مصیبت اکیلی نہیں آئی تھی ۔ اپنے ساتھ ایک رحمت بھی پھسلا لائی ۔ طاہر بدلنے لگا۔ ماں کی بیماری نے اس کے پیروں تلے زمین نکا ل دی۔ وہ ماں کو فاقے کاٹتا، درد سے تڑپتا دیکھتا تو رونے لگتا۔ سترہ سال کی عمر تک اسے ہر دھوپ سے بچانے والی چھاؤں آج سُکڑرہی تھی۔
محبت بھی کیا عجیب چیز ہے؟ ایسی طاقت ور کہ کایا پلٹ دے، ولی کو گناہ گار کردے، گناہ گار کو ولی۔ وہ طاہر جو غیر ذمہ دار اور آوارہ گرد تھا، اب ماں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگا۔ ایک دکان پر معمولی سی تنخواہ پر سیلز مین بھرتی ہوگیا۔ ایف اے، فرسٹ ائیر کو اور نوکری بھی کیاملتی؟ آدھا دن دکان پر گزارتا، آدھا دن ماں کولیے ہسپتالوں کے چکر کاٹتا۔ فوزیہ کے علاج کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کیوں کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے لاہور جانے کا مشورہ دیا۔ کینسر ہسپتال میں اس کا علاج زکوٰۃ سے ہو سکتا تھا۔ اسے کچھ ڈھارس بندھی۔ شازیہ کو بھائیوں کے پاس چھوڑ رکر وہ طاہر کے ساتھ لاہور آگئی ۔ یہاں ٹھہرنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ بس اسپتا ل ہی تھا جہاں فوزیہ کو داخل کر لیا گیا ۔ طاہر کا کیاتھا فٹ پاتھ پر بھی سو جاتا۔ فوزیہ اسپتال کا کھانا کھالیتی، طاہر کسی مخیر کے دیئے ہوئے پر گزارا کرتا ، ورنہ بھوکا ہی رہتا۔ آپریشن سے ایک رات پہلے اس نے مصلیٰ پر بیٹھ کر صرف ایک دعا مانگی، اس نے زندگی کے پانچ سال مانگے ۔ پانچ سال میں و ہ شازیہ کو بیاہ دے گی ، طاہر پنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا ۔ پھر بھلے وہ مرجائے۔ اس زندگی کی اسے ایسی کچھ چاہ بھی نہ تھی کہ سالوں جیئے جانے کی کوشش کرتی۔
فوزیہ کا آپریشن ہوا۔ اس کی قسمت یہاں اچھی نکلی ۔ ڈاکٹروں نے کام یابی کی خوش خبری سنائی۔ فوزیہ ابھی ٹھیک سے سکھ کا سانس بھی نہ لے پائی تھی کہ اس خوش خبری کا دوسرا حصہ اسے بتایا گیا ۔ اسے ہسپتال سے چھٹی دی جارہی ہے کیوں کہ بستر کم تھے مریض زیادہ۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی بتادیا کہ ایک مہینے تک ہر ہفتے کم از کم دومرتبہ چیک اپ کے لیے آنا پڑے گا۔ اب کیا ہو؟ ان کے پاس تو واپس جانے کا کرایہ تک نہ تھا۔
اسپتال میں ہی فوزیہ کو ایک عورت ملی جس کا شوہر اشفاق کے محکمے میں ملازم تھا ۔ اس نے فوزیہ کو راہ سجھائی کہ وہ محکمہ کے دفتر جائے اور پتا کرے کہ پرانے ملازم کی بیوہ کو علاج معالجے کی مدد میں کچھ رقم مل سکتی ہے یا نہیں ؟ شاید محکمہ کی پالیسی میں بیوہ کے لیے کچھ سہولت ہو ۔ نہ بھی ہو تو شاید افسر ہی کچھ امداد کردیں ۔
آپریشن کے فوراً بعد فوزیہ کی حالت کہیں آنے جانے کی نہ تھی ۔ وہ کچھ سنبھلی تو اسے ڈسچارج ہونے کاسندیسہ ملا ۔ اسپتال سے نکل کر وہ طاہر کے ساتھ سیدھا محکمے کے دفتر پہنچی ۔ اشفاق کے ساتھ کے پرانے ملازموں اور افسروں کے ساتھ کے صرف چند لوگ ہی بچے تھے۔ انہوں نے ہم دردی کے ساتھ اس کی بپتا سنی، اشفاق کی ملازمت کا ریکاڑد بھی نکال لیا گیا ۔ دفتر میں اتنی دیر بیٹھنا پڑا کہ فوزیہ کی حالت پتلی ہونے لگی ۔ معاملہ تھا کہ سلجھ کر نہ دیتا تھا ۔ کلر ک اس کی درخواست کاغذوں کے پلندے میں دبائے افسر کے کمرے کے اندر باہر آجارہا تھا ۔ آخراسے افسر کے کمرے میں بلایا گیا ۔ ہانپتی کانپتی فوزیہ پھولا سانس اور زرد رنگت لیے طاہر کے سہارے بڑے افسر کے کمرے میں پہنچی۔ انہوں نے ہم دردی سے اسے بٹھایا، پانی پلایا اور ندامت سے اسے بتایا کہ محکمہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ پرانے ملازموں کی بیواؤں کو پنشن ملتی تھی مگر اس کے علاوہ اور کسی مد میں ان کو فنڈ جاری نہیں کیے جاسکتے تھے ۔
فوزیہ مایوسی سے سنتی رہی ۔طاہر اس کی کرسی کے پیچھے سر جھکائے کھڑا رہا ۔ افسر کے کمرے میں کچھ اور لوگ بھی تھے۔ اسے ان کے کام بھی نمٹانے تھے ۔ اپنی بات کر کے اس نے فوزیہ کووہیں بیٹھا چھوڑا اورخود دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔فوزیہ کچھ دیر کسی اور حوصلہ افزا بات کے انتظار میں بیٹھی رہی پھر مایوس ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ طاہر اسے سہارا دے کر باہر لایا اوردونوں درخت کے نیچے پرانے بنچ پر بیٹھ گئے۔ فوزیہ پسینے پسینے تھی۔ طاہر گھبرا کر اسے پنکھا جھلنے لگا۔ فوزیہ کے منہ سے آواز نہ نکلتی تھی اور طاہر کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا ۔ بڑی دیر وہ دونوں وہیں بیٹھے رہے ۔ اپنے کاموں میں مصروف ادھر ادھر آتے جاتے لوگوں کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے رہے ۔ پھر ایک شخص اندر سے نکلا اور آکر ان کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
’’بی بی آپ کو کہاں جانا ہے ؟‘‘اس نے نرمی سے پوچھا۔
فوزیہ خالی نظروں سے اسے دیکھے گئی ۔ اس کا ذہن بالکل خالی سلیٹ بن چکا تھا ۔ ایک بے حسی سی تھی جو اس کے حواس پر طاری تھی ۔ وہ بے حسی جو ناامیدی کی انتہائی شکل ہے، جو مشکلوں اور مصائب سے ٹوٹے انسان پراپنے پنجے گاڑ کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے ۔
’’پتو کی!‘‘ طاہر نے جواب دیا۔
اس شخص نے طاہر کو اشارے کے ساتھ آنے کو کہا اور اسے لے کر فوزیہ سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ ہلکی آواز میں دونوں کچھ بات چیت کرنے لگے ۔ فوزیہ نے اسے دیکھا ۔وہ ادھیڑ عمر کا شخص تھا ۔ غیر معمولی طور پر دراز قد تھا اور لباس اور چہرے مہرے سے خوش حال نظر آتا تھا ۔ فوزیہ نے طاہر کے نوجوان چہرے کو رنگ بدلتے دیکھا ۔ اس کے چہرے پر پہلے حیرت ، پھر امید ، پھر خوشی اور پھر احسان مندی کے رنگ آئے اور ٹھہر گئے ۔
’’امی! چلیں اٹھیں۔ اللہ نے مدد بھیج دی ہے۔‘‘ وہ بھاگ کر فوزیہ کے پاس آیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!