داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

وہاں تو یہ لڑکے فخر نشے میں مخمور ، بوتلیں اور چپس کے پیکٹ ہاتھ میں لیے پاؤں اگلی سیٹوں کے پشت پر چڑھائے وہ بکواس فلم دیکھنے میں مگن تھے ۔ ادھر کسی بد خواہ نے بس اڈے سے کالج فون کر دیا ۔
’’کچھ سٹوڈنٹس دیکھے ہیں ہم نے یہاں ،پنڈی والی ویگن میں بیٹھے، کہیں آپ کے کالج کے تو نہیں ؟‘‘ اس نے تیلی لگائی۔
ایڈجوائنٹ کیپٹن آفریدی جو عام حالات میں بھی آپے سے باہر ہی رہتا تھا ، اسے گویا دورہ پڑگیا۔ سارے کالج میں گھنٹی بج گئی ۔ تمام سٹوڈنٹس کو کمروں سے نکل کر گراؤنڈ میں لائن حاضر ہونے کا حکم ہوا ۔ اس دن پی ٹی ٹریننگ کی باری تھی ۔ اس لیے سب پی ٹی یونیفارم پہنے گراؤنڈ میں صف آراء ہو گئے۔ اب ان کی گنتی شروع ہوئی۔
عدنان ملک جو اپنی ’’ہوش کو جوش‘‘ پر ترجیح دینے کی عادت کے سبب فلم دیکھنے نہیں گیا تھا ، اس نے اس موقع پر بھی ہوش مندی کا ثبوت دیا، چھپتا چھپاتا کالج میں موجود ٹیلی فون کے پاس گیا اور اس سینما میں کال کر دی جہاں اس کے دوست بیٹھے بکواس فلم دیکھ رہے تھے۔
ادھر فلم چل رہی تھی، بوتلیں اور چپس اڑائے جارہے تھے ، خوش گپیاں ہوررہی تھیں اچانک اوپر سے کسی نے فلم کا پرنٹ چلانے والا کھٹارا ٹیل پرنٹر پر ہاتھ رکھ کر فلم سکرین کو اندھیرا کر دیا اور اوپر گیلری سے آواز آئی۔
’’یہاں کیڈٹ کالج حسن ابدال کے کوئی طالب علم موجود ہیں ؟ آپ کے کالج میں پتا چل گیا ہے آپ کو فوراً واپس بلایا ہے ۔ ‘‘
پیروں کے نیچے سے زمین نکلنا، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانا، آسمان ٹوٹ پڑنا ، یہ وہ محاورے تھے جو آج تک وہ جملوں میں استعمال کرتے آئے تھے ۔ ان کا اصلی مطلب کیا ہوتا ہے ، یہ انہیں اب سمجھ میں آیا ۔ ان کے ہاتھوںسے بوتلیں گر پڑیں ۔ سارا ہال مڑ مڑ کر انہیں دیکھنے لگا ۔ گرتے پڑتے، رپٹتے، کرسیوں اور اپنے ہی پیروں میں الجھتے ، ایک دوسرے کو دھکیلتے وہ واپس بھاگے۔ لمبی دوڑ لگا کر بس اڈے پہنچے، ویگن پکڑی، حسن ابدال کے بس اڈے پراترے، وہاں سے دوڑے سیدھا چشمے والی دیوار کے سوراخ سے اندر داخل ہوئے۔ چھپتے چھپاتے اپنے کمروں تک پہنچے ، ہبڑ دبڑ میں پی ٹی یونیفارم چڑھایا اور افتاں و خیزاں گراوؑنڈ میں جا پہنچے۔
’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ کیپٹن آفریدی نے کڑک دار آواز میں پوچھا
’’ہم کمروں میں تھے سر۔‘‘ گنڈیری نے معصومیت سے کہا۔





’’یس سر! ہمیں گھنٹی نہیں سنائی دی۔ ’’فیصل نے تائید کی۔
’’تمہاری ایسی کی تیسی ، گھنٹی نہیں سنائی دی؟‘‘ کیپٹن آفریدی نے لال بھبھوکا ہو کر کہا۔
قصہ مختصر باقی تمام سٹوڈنٹس کو اندر بھیج دیا گیا اور یہ آٹھ دھر لیے گئے ۔ تین چار گھنٹے تک خوب رگڑا لگا ۔ نان سٹاپ قلابازیاں اور گراؤنڈ کے چکر لگوانے کے بعد انہیں لائن میں کھڑا کر کے مژدہ سنایا گیا کہ انہیں دو ہفتے کیلئے معطل کر دیا گیا ہے۔
فیصل گھر پہنچا تورات ہو چکی تھی ۔ دادی گھر میں اکیلی تھیں اور لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ فیصل نے باہر سے کھڑکی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔
دادی ڈر گئیں، پھر انہیں فیصل کا چہرہ کھڑکی میں طلوع ہوتا دکھائی دیا ۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئیں اور فوراً دروازہ کھولا۔ ان سے امی ابو کو کچھ نہ بتانے کا وعدہ لے کر وہ چپکے سے کمرے میں جا کر سو گیا۔
اگلے دن عطیہ اور سرور دیکھ کر حیران ہوئے تو اس نے بڑی معصومیت سے انہیں گھر آنے کا جواز پیش کیا۔
’’امتحان ہونے والے ہیں نا ۔ کالج والوں نے کہا گھر جا کر پڑھائی کرو۔‘‘
ماں باپ نے یقین کر لیا ۔ لیکن ایک بات پر وہ حیران تھے ۔ فیصل میں و ہ شوخی اور شرارت غائب تھی جو اس کی طبیعت کا خاصہ تھی ۔ وہ چپ چاپ سا تھا۔ انہوں نے اسے امتحان کی ٹینشن پر سمجھ کر ٹال دیا۔ دو دن فیصل نے اپنے کمرے میں کتابوں میں سر دیے گزار دیے ۔دوسرے دن رات کو سرور اس کے کمرے میں آکر اس کے سامنے بیٹھ گئے۔
’’پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ٹھیک ابو!‘‘ فیصل نے جواب دیا۔
’’اور فلم کیسی تھی ؟‘‘انہوں نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔
’’کک۔۔۔۔۔کون سی فلم ابو؟‘‘ فیصل کے ہاتھ سے کتاب گر گئی
’’وہی جسے دیکھنے کے لیے تم کالج سے فرار ہوئے تھے اور پھر پکڑے گئے، اور جس کی پاداش میں تمہیں معطل کر دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں پکڑاحسن ابدال کیڈٹ کالج کی مہر والا لفافہ اس کے سامنے لہرایا۔
اس واقعے نے فیصل کے دل و دماغ پر ایک عجب سا اثر ڈالا، اتنی بے عزتی اسے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ وہ ہمیشہ ٹاپ کرنے والا لڑکا تھا، فٹ بال ٹیم کا کیپٹن ، امتحان میں اول ،ریس میں اول، گھڑ دوڑ میں اول۔ اس واقعے نے اس کا دماغ ساتویں آسمان سے اتار کر زمین پر گرا دیا ۔ یہ زندگی کا وہ پہلا سبق تھا جو اس نے فیصلہ کرنے کی قوت کے بارے میں سیکھا ۔ ہر عمل کا ردِعمل ہے اور ہر فیصلے کے نتائج ہیں جو لازمی طور پر فیصلہ کرنے والے کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ یہ سبق کتابوں میں لکھا ہوا ضرور پڑھا تھا ، مگر آج زندگی نے تجربے کی شکل میں سکھایا تھا ۔ یہ کبھی نہ بھولنے والا سبق تھا۔ پی ایم اے کے باقی سال نے یہ سبق دہراتے گزارے ۔شرارت، کھلنڈر پن ،جرات ، دلیری اسی کی فطرت تھی، اس کی رگوں میں پارہ بھرا تھا، اسے وہ دبا نہیں سکتاتھا لیکن احساس ذمہ داری وہ خوبی تھی جو اس میں اس واقعے نے پیداکردی ۔ اور اب، جب کہ اس کے کیڈٹ ہونے کے دن گزر گئے تھے اور وہ پاکستان آرمی کا کمیشنڈ آفیسر تھا ، وہ اپنے آپ کو بہت سی چیزوں کا خودبہ خود مکلف سمجھنے لگا تھا ۔
٭…٭…٭
زنیرہ نے پردے ہٹائے اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ بہت خوب صورت موسم تھا ۔ کئی روز کی گرمی کے بعدآج بادل چھائے تھے ۔ اس نے کھڑکی کھول دی۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا اس نے مسکرا کر صبح کی تازہ ہوا میں جھومتے درختوں اور چہچہاتے پرندوں کو دیکھا ۔ موسم نے اس کا موڈ خوش گوار کردیا تھا۔ اس نے بستر کی چادر درست کی اور باہر نکل آئی ۔ صفائی کرنے یا چیزیں سمیٹنے کا کام گھر میں ہوتا نہیں تھا۔ بس یونہی بلا مقصد چیزوں کو ادھر سے اٹھا کر ادھر رکھتے ہوئے اس کی نظر ڈرائینگ روم کے کھلے دروازے پر پڑی۔ اس نے اندر جھانکا، میز پر گلاس پڑے تھے جن میں تھوڑی سی کوک بچی تھی ۔ اس نے مڑ کر سٹڈی کے دروازے کی طرف دیکھا ۔ عامررات کو لیٹ آتا تھا تو کمرے میں آکر اسے ڈسٹرب کرنے کی بجائے سٹڈی میں سو جاتا تھا ۔ ڈرائنگ روم میں گلاس کی موجودگی کا مطلب تھا وہ رات گئے آیا تھا اور اس کے اس کے چندددست بھی تھے ۔ زنیرہ اندرجاکر گلاس اٹھانے لگی ۔ اسے مہمانوں کا آنا ہمیشہ اچھا لگتا تھا ۔ اسے ایک ہنستے بستے گھر کا احساس ہوتا تھا ۔ چیزیں اٹھانے رکھنے کی فرحت بخش مصروفیت گھر کے سونے پن کو کم کردیتی تھی۔ اس نے گلاس اٹھا کر کچن میں رکھے۔ ایش ٹرے صاف کرنے کے ارادے سے اٹھایا تو اس کے پاس اسے عامر کا فون پڑا نظر آیا ۔
’’اوہو! یہ فون عامر یہیں بھول گیا۔ ‘‘ اس نے فون اٹھاتے ہوئے سوچا ۔
فون لیے وہ لاؤنج میں چلی آئی ۔ فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس نے اخبار اٹھا لیا ۔ اسی وقت فون وائبریٹ ہوا ۔ کوئی میسج آیا تھا ۔ زنیرہ نے بے خیالی میں فون اٹھا کر دیکھا ۔
’’گڈ مارننگ ڈارلنگ!‘‘ میسج کے آگے دل کا نشان بنا ہوا تھا۔
’’ایک تو یہ رانگ نمبر بھی نا… پیار کا مسیج بھیجو کسی کو اور چلا کسی اور کو جائے ۔Too bad‘‘ وہ مسکرائی۔
مسکراتے ہوئے اس نے میسج کھولا۔ کسی منور کی طرف سے میسج تھا۔ زنیرہ کا تجسس ذرا بڑھا۔ منور تو عامر کے والد کا نام تھا۔ کیا والد صاحب کسی کو محبت بھرے مسیج بھیج رہے تھے۔ وہ شرارتی بچے کی طرح ہنس پڑی۔ دیکھو ذرا، ابا جان کا سیکرٹ میسج عامر کو آگیا۔ اس نے میسجز کی لسٹ کھولی۔ اس کی مسکراہٹ منجمد ہو گئی۔ منور کی طرف سے رومانی میسجز کی بھر مار تھی۔ اس نے تیزی سے کانٹکٹس کھولے۔ وہاں ابو کے نام سے ان کا نمبر موجود تھا ، پھر اس نے منور کا نام کھولا ۔ یہ ابو کا نمبر نہیں تھا ۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ یہ کیا ہورہا تھا ؟ اس نے کال لسٹ چیک کی تو اس کا سر چکر ا گیا ۔ دن میں پندرہ پندرہ کالیں اسی نمبر پر کی گئیں تھیں یا ریسیو کی گئی تھیں ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ یہ سب دیکھتی رہی ۔ نظر اٹھا کر اس نے سٹڈی روم دیکھا۔ درواز ہ بند تھا ۔ وہ بھاگ کر بیڈروم میں آئی اور اپنا فون اٹھا لیا ۔ کچھ دیر ہمت مجتمع کرتی رہی ۔ ایک مرتبہ پھر سٹڈی کی طرف جھانکا اور منور کا نمبر ڈائل کرنے لگی ۔
’’ہیلو ‘‘ کسی لڑکی کی کھنکتی ہوئی آواز آئی ۔
زنیرہ نے فون کاٹ دیا ۔ اس کے بدترین خدشے کی تصدیق ہو گئی تھی ۔
٭…٭…٭
بٹراسی کے حسین سبزہ زار کا سکیچ بناتے بناتے ثنا نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔ اس سے تھوڑی دور علی اور مریم بال سے کھیل رہے تھے ۔ حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا سبزہ ، ترائیاں ، پگڈنڈیاں ، دور سے گڑیوں کے گھر نظر آتے چھوٹے چھوٹے مکان ۔کیسی سکون آور خاموشی تھی ۔ اس نے اپنے سکیچ کو دیکھا۔
’’سبزے کے کئی شیڈ بھرنے ہوں گے اس سکیچ میں‘‘ ، اس نے سوچا ۔ اس کی آنکھوں کے آگے سبز آنکھیں آگئیں ۔
’’ویسا شیڈ ہے تمہارے رنگوں میں؟‘‘ کسی نے چپکے سے اس کے کان میں کہا۔
’’نہیں!‘‘ وہ مسکرادی، وہ سبز دھوپ میں کچھ اور لگتا ہے، چھاؤں میں کچھ اور ،کسی کے پاس بھی نہیں ہے ویسا شیڈ ۔ ہاں مگر بس اس کے پاس ۔
اس نے سکیچ ہاتھ سے رکھ دیا اور گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سر گھٹنے پر ٹکا لیا ۔ اس کے دل پر سبز رنگ چھا رہا تھا ۔ اب وہ ڈرائینگ نہیں بنا سکتی تھی ۔
٭…٭…٭
زنیرہ دم بہ خود تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ دو تین دن اس نے اسی بے یقینی میں گزارے۔ عامر غصے کا قدرے تیز تھا ۔ اس نے کبھی کسی عورت سے اسے زیادہ فرینک ہو کرباتیں کرتے نہ دیکھا تھا ۔ نہ تو اس کی بہن بھائیوں سے زیادہ بنتی تھی نہ ہی اس کے بہت سے دوست تھے ۔وہ ان مردوں پر بڑھ چڑھ کر باتیں بنایا کرتا تھا جو غیر عورتوں سے دوستیں لگاتے تھے یا افئیر چلاتے تھے ۔ شادی کے نو سالوں میں زنیرہ نے کبھی شکی بیویوں کی طرح اس کا فون چیک نہیں کیا ، نہ ہی اس کے دفتر فون کرکے اس کی ٹوہ لینے کی کوشش کی ۔ جب کبھی وہ رات کو گھر نہیں آتا تھا ۔ وہ ایک دو مرتبہ حال چال پوچھنے یا کوئی ضروری بات کرنے کے لیے آفس فون کرتی تھی تو وہ وہیں ہوتا تھا ۔ زنیرہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس کی ناک کے نیچے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ اس نے ہرروز اس کا فون چیک کرنا شروع کر دیا ۔ جو نمبر منور کے نام سے محفوظ تھا۔ اس پر بے تحاشا کالز آئیں اور گئیں۔ اس کے علاوہ ایک نمبر جو ایس عثمان کے نام سے محفوظ تھا ، اس سے بھی معمول سے زیادہ کالز ریسیو کی گئی تھیں۔ یہ نمبر لینڈ لائن کا تھا۔ زنیرہ نے اس پر فون کیا تو وہ ایک بینک کا نمبر نکلا ۔
’’ایس عثمان سے بات کروا دیجیے۔‘‘ زنیرہ نے اندھیرے میں تیر چلایا۔
’’یہاں تو دو ایس عثمان ہیں۔ آپ کو کن سے بات کرنی ہے ؟ ’’فون اٹھانے والے شخص نے پوچھا ۔
’’مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کچھ عرصہ پہلے میں نے ان سے ڈیل کیا تھا ۔ ان کا نمبر میرے پاس ایس عثمان کے نام سے محفوظ ہے ۔‘‘زنیرہ نے بات بنائی
’’اچھا آپ سحر عثمان کی بات کررہی ہیں ۔ ہولڈ کیجیے میں بات کرواتا ہوں ۔‘‘
’’ہیلو‘‘! وہی کھنکھناتی آواز، زنیرہ کا سانس بند ہونے لگا ۔
’’ہیلو کون ؟ بولیے تو۔‘‘ کھنکھتی آواز کنگنائی۔زنیرہ نے گہرا سانس لے کر اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا۔
’’ہیلو سحر!‘‘ میں جانتی ہوں تم کون ہو اور آج کل کیا کررہی ہو ۔‘‘ اس نے مضبوط آواز میں کہا۔
’’ایکسکیوز می! آپ کون بول رہی ہیں؟ آواز کی ساری کھنک اور گنگناہٹ ختم ہوگئی۔ ’’میں عامر منور کے دفتر میں کام کرتی تھی۔‘‘ زنیرہ نے ایک ایک لفظ واضح کرتے ہوئے کہا۔
’’بڑا عرصہ وہ مجھے شادی کے سبز باغ دکھاتا رہا ۔ اب مجھے چھوڑ کر اس نے تمہارے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے ۔ کیا کیا وعدے کیے ہیں اس نے تم سے ؟‘‘ زنیرہ کے ذہن میں کہانی خودبہ خود بنتی جارہی تھی اور وہ بولتی جارہی تھی ۔
’’میں کسی عامر کو نہیں جانتی۔‘‘ سحر عثمان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا ۔
’’میرے پاس تمہاری تصویریں ہیں۔‘‘ لگ گیا تو تیر نہیں تو تکا، زنیرہ نے سوچا۔
’’کک۔۔۔ کون سی تصویریں ؟‘‘ وہ گھبرا گئی۔
’’تمہاری اور عامر کی تصویریں۔‘‘
’’آپ وہ تصویریں مجھے دے دیں۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں کل تمہیں فون کر کے جگہ اور وقت بتاؤں گی ۔تم وہاں آکر مجھ سے ملو، میں تمہیں تصویریں دے دوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہی زنیرہ نے فون بند کر دیا۔
اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی تھی ۔ اس کا شوہر کسی دوسری عورت میں انوالو تھا ۔
بے یقینی کا عالم گزرا تو اس کی جگہ غم و غصے نے لے لی ، رنج تھا کہ بڑھتا ہی جاتا تھا ۔ عامر سے اس کی بات نہ ہوپارہی تھی ۔ صبح وہ عجلت میں نکل جاتا ، رات دیر سے گھر آتا ۔
زنیرہ کسی سے کہہ نہ سکتی تھی کہ وہ کس اذیت سے گزررہی ہے ۔ بہن کوئی تھی نہیں ، ماں باپ کو وہ پریشان نہ کرنا چاہتی تھی اور بھائیوں سے کہنے کا مطلب تھا ایک نئے ہنگامے کو دعوت دینا ۔ عادل باہر تھا اور اس کو کچھ خاص پروا بھی نہ تھی لیکن اگر فیصل کو پتا چل گیا تو اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ عامر سے لڑ پڑتا ۔ زنیرہ خود ہی سوال کرتی ، خود ہی جواب دیتی ۔روتی پھر خود ہی چپ ہو جاتی ۔
اس کے دن اسی عالم میں گزررہے تھی جب اسے حمیرا کا فون آیا۔ حمیرا اس کی بچپن کی دوست تھی ۔ کالج تک دونوں اکٹھی رہیں ۔ پھر وہ بیاہ کر اسلا م آباد چلی گئی تو اس سے رابطہ کم ہوگیا ۔
وہ فون پر زنیرا کی روتی ہوئی آواز سن کر چونک گئی ۔
’’کیا ہوا زنیرہ ؟تم رو کیوں رہی ہو ؟‘‘ حمیرا نے گھبر ا کر پوچھا ۔
زنیرہ پھٹ پڑی ، اب اس میں ضبط جواب دے چکا تھا۔ روتے ہوئے وہ حمیرا سے صرف چند لفظ کہہ سکی:
’’ Humaira Amir is having an affair ‘‘
حمیرا بھی گھبرا گئی۔ اس نے زنیرہ کو چپ کروانے کی کوشش کی:
’’رونا بند کرو اور مجھے پوری بات بتاؤ۔ زنیرہ قابو رکھو خود پر۔‘‘ اس اپنی بات جاری رکھی۔
’’یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے زنیرہ۔‘‘ساری بات سن کر حمیرا نے توقع کے بالکل بر عکس بات کی ۔
’’ تمہیں یہ بڑی بات نہیں لگتی ؟‘‘زنیرہ حیران رہ گئی اس نے بے یقینی سے پوچھا ۔
’’زنیرہ میری بات غور سے سنو ۔ وہ لڑکی جو کوئی بھی ہے اس کی عامر بھائی کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ۔ تم ان کی بیوی ہو ۔ تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔‘‘ حمیرا اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم عامر کی اس حرکت کا دفاع کررہی ہو ۔‘‘ زنیرہ نے ناراضی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات لیے کہا۔
’’میں دفاع نہیں کررہی، صرف تمہیں ذرا ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اس وقت تم بہت جذباتی ہورہی ہو ۔ میں نہیں چاہتی کہ تم غصے میں آکر کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھو۔‘‘ حمیرا نے کہا
’’فیصلہ تو کرنا ہی ہوگا حمیرا۔ میں نے بہت کچھ برداشت کیا ، یہ نہیں کرسکتی ۔ مجھے لگتا ہے میرا دل پھٹ جائے گا۔‘‘ زنیرہ کی آواز بھرا گئی۔
’’زونی تم اس کی بیوی ہو ۔ تمہارا پیار وہ کسی اور کو نہیں دے سکتا ۔ یہ وقتی رشتے ہوتے ہیں۔‘‘
’’میں پیار کے لیے نہیں رو رہی ۔ مجھے اپنی ناقدری پر اپنی بے عزتی پر رونا آرہا ہے ۔ میرے لیے اس کے پاس دومنٹ نہیں ہیں اور اس لڑکی کو وہ دو دو گھنٹے کی کالز کررہا ہے ۔ میرے لیے غصہ، بے اعتنائی، بد مزاجی اور اس کے لیے پیار کی باتیں ؟‘‘ زنیرہ چیخ پڑی ۔
’’دیکھو میں سمجھ رہی ہوں تم پر کیا بیت رہی ہے لیکن پلیز ٹھنڈے دل سے سوچو۔ ‘‘حمیرا اسے ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
’’بھاڑ میں گیا ٹھنڈ ا دل میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ میں اسے چھوڑ رہی ہوں ۔‘‘زنیرہ نے غصے سے کہا۔
’’تاکہ وہ تمہارے جانے کے بعد کھل کر کھیل سکے ؟ میدان چھوڑ کر بھاگ رہی ہو ؟‘‘ اب حمیرا کا لہجہ بھی جارحانہ ہوگیا۔
’’وہ میرے ہوتے ہوئے بھی کھل کر کھیل رہا ہے اور یہ رشتہ اب اس قابل نہیں رہا کہ میں اس کے لیے جنگ لڑوں ۔‘‘ زنیرہ نے گویا اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
اس رات عامر گھر آیا تو گھر پر کوئی نہ تھا ۔ وہ حیران ہوا ۔ زنیرہ شام کو کہیں نہیں جاتی تھی اگرجاتی بھی تھی تو ہمیشہ اس کے آنے سے پہلے پہلے گھر واپس آچکی ہوتی تھی ۔ وہ اپنی سٹڈی میں چلا گیا ۔ میز پر اپنا بریف کیس رکھتے ہوئے وہ ٹھٹھک گیا ۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے پیپر ویٹ کے نیچے دبا ہو ا کاغذ نکال لیا ۔ اس پر ایک مختصر سی عبارت کے سوا کچھ نہ تھا ۔
’’نئی محبت مبارک ! میں واپس نہیں آؤں گی ۔‘‘
زنیرہ
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!