داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

جس رات فیصل زنیرہ کو لے کر لاہو ر پہنچا ، اس کے اگلے ہی دن صبح گھنٹی بجی ۔ فیصل نے دروازہ کھوالا تو آگے فوزیہ اور طاہر کھڑے تھے ۔ فوزیہ نے خوشی خوشی سلام کیا ،طاہر بڑی نیاز مندی سے اس سے گلے ملا۔
’’فوزیہ بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئی تھی۔ آپ میرے لیے فرشتہ ہیں آپ میری مدد نہ کرتے تو میں مرجاتی۔ میرے بچے رُل جاتے‘‘ اس نے آنسو بھری آنکھوں سے سرور ،دادی اور عطیہ سے کہا اور دوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔
’’ایسی کوئی بات نہیں۔ مدداللہ کی طرف سے آتی ہے۔ ہم نہ ہوتے تو وہ کسی اور کو بھیج دیتا۔‘‘ سرور نے ان کا دل بڑھانے کے لیے کہا۔
’’میری بڑی درخواست ہے کہ آپ میری بیٹی کی شادی میں شرکت کریں، میں آپ سے پیسے مانگنے نہیں آئی۔ کوئی اور مدد بھی نہیں چاہیے ۔ میرے لیے یہ بڑے اعزا ز کی بات ہو گی کہ آپ میرے گھر آئیں۔‘‘ فوزیہ نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
’’کب ہے شادی؟‘‘ عطیہ نے پوچھا۔
’’اگلے مہینے کی چوبیس کو۔‘‘ فوزیہ نے بتایا
’’اگلے مہینے تو میں کراچی جارہا ہوں۔‘‘ سرور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’ابو مجھے ان دنوں چھٹیاں ہوں گی اگر آپ نہ جا سکے تو میں چلا جاؤں گا۔‘‘ فیصل نے انہیں شش و پنچ میں دیکھ کر کہا اس نے ہمیشہ باپ کو کہتے سنا تھا کہ غریب کی دعوت ضرور قبو ل کرو۔
فوزیہ نے تشکر سے اسے دیکھا۔
’’میری بڑی خوش قسمتی ہوگی جی۔‘‘ وہ بار بار کہتی رہی۔
سرور نے اسے کچھ رقم شادی کیلئے دی ۔ دادی اور عطیہ نے کپڑ ے دیے پھر وہ اور طاہر بڑی احسان مندی سے ان کے آنے کا وعدہ لے کر رخصت ہوگئے۔
٭…٭…٭





ثنا، مریم اور علی شام کو ابو کے ساتھ واک پر نکلتے تو ابو پریڈ گراؤنڈ کے سامنے دائیں طرف مڑ جاتے ، مونا لیزا کیفے پریڈ گراؤنڈ سے بائیں طرف کو تھا ۔ ثنا مڑ مڑ کر اس طرف دیکھتی رہتی ۔ وہ مونا لیزا کی طرف دیکھتی اور مریم اس کی طرف ۔ آخر مریم نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا ۔
ثنا نے تشکر آمیز نظرو ں سے مریم کو دیکھا۔ وہ مونا لیزا کی طرف چل پڑے ۔ کیفے کے آگے سے گزرے تو وہ انہیں باہر رکھی میزوں کی ایک کرسی پر وہ بیٹھا چائے پیتا نظر آیا۔ اس کی نظر ثنا پر لمحے بھر کو ٹھہری مگر رک نہ سکتی تھی۔ ابو تیز قدموں سے چلتے تھے۔ اسے بھاگ کر ان کے ساتھ مل جانا پڑا۔ اگلے دو دن بھی یہی ہوا۔ فیصل اسی جگہ بیٹھا تھا ۔ ثنا پھر بغیررکے گزر گئی۔
دونوں نو جوان تھے، زندگی میں پہلی پہلی مرتبہ اس تجربے سے گزررہے تھے ۔اناڑیوں کو سمجھ نہ آتی تھی کہ کریں تو کیا کریں ۔ ثنا گم صم رہنے لگی، مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔ اپنی سکیچ بک میں کچھ بناتی رہتی یا کتاب پکڑے سوچوں میں گم رہتی۔
آخر مریم کا صبر جواب دے گیا۔
’’پاگل ہو تم۔ یہ دومنٹ کے فاصلے پر مونا لیزا، وہ روز وہاں آیا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ جاکر اس سے پوچھو کیا چاہتے ہو؟ کیوں روز روز تمہارے راستے میں آتا ہے؟‘‘ اس نے ڈانٹا۔
’’کیسے پوچھوں؟‘‘ ثنا نے منہ لٹکاکر کہا۔
’’زبان سے پوچھو کیا معلوم وہ وہاں تمہارے لیے آتا ہے یا نہیں۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’دیکھو بات کلیئر کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘ ثنا خامو ش ہو گئی اور مریم کو اس پر تر س آگیا۔
’’اچھا تم فکر مت کرو میں کچھ کرتی ہوں۔‘‘ اس نے دھیمی سی آواز میں کہا۔
اس دن شام ڈھلنے سے پہلے وہ دونوں گھر سے نکلیں اور مونا لیزا کی طرف چل پڑیں ۔دور ہی سے انہوں نے فیصل کو اپنی مخصوص میز پر بیٹھے دیکھ لیا۔ ہرروز کی طرح وہ آج بھی اکیلا تھا۔ فیصل کی نظریں ان دونوں پرپڑی تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کی طرف بڑھا۔ مریم نے ثنا کے کان میں کہا: بس بات کلئیر ہو گئی۔ یہ تمہارا ہی انتظارکررہا تھا۔‘‘
’’ہیلو! شاید میں آپ سے کہیں مل چکا ہوں۔‘‘ فیصل نے مصنوعی حیرانی سے کہا۔
’’اوہ رئیلی؟‘‘ ثنا نے جوابی معصومیت سے پوچھا۔ مریم ان دونوں کے بیچ کھڑی بے یقینی سے باری بار ی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ’’اف دیکھو ذرا ن دونوں کے ڈرامے۔‘‘
’’جی میں شاید ایک مرتبہ گھر آیا تھا آپ کے ۔‘‘فیصل کہہ رہا تھا ۔
’’اوہ ہاں یاد آیا ۔ کچھ دن پہلے شاید آپ ہی ملے تھے ابو کو ؟‘‘
مریم نے بے یقینی سے سر ہلا کر آسمان کو دیکھا ۔
’’جی ہاں! آپ روز واک کو نکلتی ہیں؟‘‘ فیصل نے خوش ہو کر کہا۔
’’جی نہیں آپ روز یہاں آتے ہیں ؟‘‘ اس نے بھی بات بلاوجہ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں تو! بس کبھی کبھی؟‘‘
’’ایک منٹ ایک منٹ! آپ کا نام فیصل ہے؟‘‘ مریم نے کہا۔
’’جی جی!‘‘ فیصل نے گڑبڑا کر کہا ۔
’’یہ ثنا ہے میں مریم ہوں ۔ ہم روز واک پر نکلتے ہیں اور آپ روز یہاں آتے ہیں ۔ آپ کو ثنا سے جو کہنا ہے کہیے۔ یہ دکھاوا بند کیجیے۔‘‘ مریم کا صبر گویا جواب دے گیا تھا۔
ثنانے کن اکھیوں سے فیصل کو دیکھا ۔ اسے یہ دیکھ کر بڑی تسلی ہوئی کہ وہ بھی ہکا بکا سا کھڑا تھا ۔ اسے اس صاف گوئی کی امیدنہ تھی۔
’’کچھ نہیں کہنا آپ کو؟ اچھا تو پھر ہم چلتے ہیں ۔ آؤ ثنا۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’ارے سنییــ! مجھے کچھ کہنا ہے۔‘‘ فیصل کو ہوش آیا تو وہ ان کے پیچھے لپکا۔
’’جی فرمائیے ؟‘‘ مریم نے رک کر پوچھا۔
’’ثنا سے کہنا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تو کہیے!‘‘ مریم بولی۔
’’آپ کے سامنے کہہ دوں؟‘‘ فیصل نے خفیف سے لہجہ میں پوچھا۔
’’جی بالکل۔‘‘
’’پرائیویٹ بات ہے۔‘‘ فیصل ابھی بھی کنفیوژ تھا۔
’’ہم اجنبیوں سے پرائیویٹ باتیں نہیں سنتے۔‘‘ مریم کا لہجہ ٹھوس تھا۔
’’میں اجنبی نہیں۔‘‘
’’خیر آپ کی بات اس لیے سن لیں گے کیوں کہ آپ کو سورڈ آف آنر ملا ہے۔ آپ عزت دار آدمی ہیں۔ اچھا تو کہیے۔‘‘ مریم اسے جیسے بولنے کی اجازت دی ہو۔
’’ثنا!‘‘ فیصل نے ثنا کو مخاطب کیا۔
’’جی!‘‘ وہ جو آرام سے کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی، گڑبڑا کر بولی۔
فیصل نے اس کی آنکھوں میں چمکتے جگنو دیکھے۔ الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ دم بہ خود کھڑا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
’’ہمارا وقت ضائع کرنے کا شکریہ۔‘‘ مریم نے کہا اور ثنا کا ہاتھ پکڑ کر تیز تیز قدموں سے گھر کو چل دی ۔ جاتے جاتے ثنانے مڑ کر دیکھا۔ اسے ہونٹوں کے گوشے مسکرائے۔ فیصل کوجیسے کسی نے آس کی ڈور تھما دی ، خوشی کا پیغام دے دیا ، زندگی کی خوش خبری سنا دی ۔ اس کا دل کھل اٹھا۔
فیصل نے ملٹری جیکٹ کی زپ بند کی اور آئینے میں اپنا جائزہ لیا ۔ باہر صبح طلوع ہو رہی تھی ۔ اس نے بڑھ کر پردہ ہٹایا اور کھڑکی کھول دی۔ عین اس کی کھڑکی کے نیچے کیڈٹس کا ایک دستہ دھپ دھپ گوریلا مارچ کرتا گزررہا تھا ۔ وہ انہیں دیکھتارہا ۔ دور ایک دوسرے گراؤنڈ میں فرسٹ ائیر کے نئے آئے لڑکے قلابازیاں لگارہے تھے۔ فیصل کے ہونٹو ں پر مسکراہٹ آگئی ۔ چشمِ تصور میں اس نے اپنے آپ کو اس جگہ دیکھا اورہنس پڑا ۔ اس کے دل میں ان پہاڑوں ، اس اکیڈمی اور یہاں کے لوگوں کیلئے محبت کا چشمہ ابل پڑا ۔
وطن کی محبت انسان کے ضمیر میں اس طرح گوندھ دی گئی تھی جیسے ماں باپ کی محبت یا اولادکی محبت۔ یہ پہاڑ کئی سالوں سے اس کا وطن تھے۔ اسے ان سبزہ زاروں سے، یہاں کی معطر فضاؤں سے ، صاف شفاف ہواؤں اور قلقل بہتے چشموں سے انس تھا۔ قلابازیاں کھانے والے لڑکے اب کھڑے ہو گئے تھے۔ ایڈ جوائنٹ نے چیخ کر کچھ کہا اور وہ سب بھاگنے لگے۔
’’come on gentlemen cadets، ابھی تو یہ شروعات ہے۔‘‘ فیصل نے ہنستے ہوئے دل میں سوچا۔
اس نے پلٹ کر آئینے میں اپنا جائزہ لیا ۔ اپنی ٹوپی اپنے سر پر جمائی اور دھیرے سے اپنے عکس سے بولا:
come on Lt Faisal sarwar khan ابھی تو یہ شروعات ہے، ایک طویل اور تاب ناک کیرئیر کی شروعات!‘‘
جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا تو اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ، تب سے وہ آرمی کے خواب دیکھتا آیاتھا ۔ بچپن سے اس اس قسم کے کام اچھے لگتے تھے ۔ اس کا کمرہ کھلونا بندوقوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ فرضی دشمنوں کے ساتھ جنگیں لڑتا ، اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر انہیں جہاز بنا لیتا اور دشمنوں پر بمباری کرتا۔ سکول میں لیڈر بن کر بڑے لڑکوں سے چھوٹے بچوں کو بچاتا، زنیرہ اور اس کی سہیلیوں کا باڈی گارڈ بن کر انہیں ہر جگہ لے جاتا۔ وہ ساری زندگی ایتھلیٹ رہا۔ گھر میں اس کے کمرے کی الماری تمغوں سے بھری پڑی تھی۔ عادل کتابی کیڑا تھا ۔ پہلے اس نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا، پھر سکالرشپ پر امریکہ چلا گیا۔ فیصل نے پانچویں جماعت میں ہی ماں باپ کو بتا دیا کہ وہ آرمی میںجائے گا ۔ سرور کو تو اس کیرئیر انتخاب پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر عطیہ پریشان ہو گئیں۔ وہ لاڈے بیٹے کو نگاہوں سے دور نہ کرنا چاہتی تھی۔ ان کے بر عکس سرور سخت حوصلہ باپ تھے۔ انہوں نے بیٹوں کی تربیت اپنے انداز میں کی تھی۔ گھر میں گاڑی تھی، ڈرائیور تھا لیکن وہ بیٹوں کو دس دس روپے دے کر کہتے، جاؤ ویگن پکڑ و اور چلے جاؤ جہاں جانا ہے۔‘‘
بیٹوں کو دنیا میں گزارہ کرنا سکھانے کیلئے انہیں دنیا میں پھینکنا ضروری تھا۔
’’یا تو بیٹے کو کچھ بنا لو یا اسے ساری زندگی گود میں بٹھائے رکھو۔‘‘ انہوں نے عطیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
یوں فیصل نے ساتویں جماعت کے بعد کیڈٹ کالج حسن ابدال کا امتحان دیا اور ہزاروں لوگوں میں پانچویں پوزیشن حاصل کر کے ہاسٹل چلا گیا۔
کئی دن تک عطیہ روتی رہیں اور زنیرہ انہیں تسلیاں دیتی ۔ انہیں ایک ہی بات کی فکر تھی وہ ابھی چھوٹا ہے ۔ لیکن جب وہ پہلی مرتبہ فیصل سے ملنے اس کے پاس حسن ابدال گئے تو اسے وہا ںرہتا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کتنا خود مختار ہوگیا تھا وہ۔ خود ہی بستر بنانا، کپڑے ، تولیے ، جوتے اپنی جگہ پر رکھتا، وقت کی پابندی، پڑھائی کی روٹین، فزیکل ٹریننگ، وہ ہر چیز بہت تیزی سے سیکھ گیا تھا۔ یہی وہ زندگی تھی جس میں وہ خوش تھا ۔ واحد چیز جسے وہ کنٹرول کرنے میں ابھی تک ناکام تھا ، وہ اس کی شرارت کی رگ تھی جو پھڑکنے پر آتی تو اسے نتائج اور انجام سب بھلا دیتی ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتیں چھوٹی چھوٹی سزاؤں پر ٹلتی رہیں ۔ گراؤنڈ کے چھے چکر ، ساٹھ سیکنڈ میں پچاس پش اپس یا چارسو میٹر سپرنٹ۔ وہ فٹ بال ٹیم کا کپتان تھا، ایتھلیٹ تھا ،کالج بینڈ میں کلارنیٹ بجاتا تھا اور شرارتی ٹولے کا ہیڈ تھا ۔ وہ میٹر ک میں پوزیشن لے کر ایف ایس سی میں آیا۔ کچھ سینئر ہو جانے کا نیا نیا غرور، کچھ پہ در پہ کامیابیوں کا اعتماد، اس کی دلیری عروج پر تھی۔
اس دلیری نے اسے وہ دن دکھایا جسے یاد کر کے وہ آج بھی ہنس پڑتا تھا ۔ کالج میں چھٹیاں تھیں اور فرسٹ ائیر کے امتحان ہونے والے تھے۔ کالج میں فرسٹ ائیر اور میڑک کے طلبہ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ فرسٹ ائیر کے لڑکے ڈیٹ شیٹ کا انتظار کررہے تھے۔ پڑھائی زوروں پر تھی کیوں کہ صرف دو ہفتے بعد امتحان متوقع تھے۔ جب ڈیٹ شیٹ آئی تو معلوم ہوا کہ امتحان تو چھے مہینے بعد ہیں۔ اس دن ان کے کامن روم میں جشن منایا گیا ۔ پورا دن کسی نے کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ سب لڈو اور کیر م کھیلتے اور گپیں لگاتے رہے۔
’’میری پڑھائی تو سمجھو مکمل ہے۔ میں تو اب ایک ہفتہ ریسٹ کرکے پھر پڑھائی شروع کروں گا۔‘‘ ایک لڑکے نے جسے اس کی لمبی ٹھوڑی کی وجہ سے گنڈیری کہا جاتا تھا کہا۔
’’ہاں یار اب پڑھنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ فیصل نے کہا۔
’’چلو فلم دیکھنے چلیں۔‘‘ گنڈیری نے جو ش سے کہا۔
’’پاگل ہو گئے ہو؟ پکڑے جاؤ گے۔‘‘ ان کے گروپ کے سب سے ہوش مند لڑکے عدنان نے وارننگ دی۔
اس کی اس بات نے کام کیا۔ چیلنج تو پھر چیلنج تھا ۔ تین چارد ن تک پلاننگ کی جاتی رہی۔ فرار کے لیے دوپہر کا وقت چنا گیا ۔جب ٹائم آؤٹ ہوتاتھا اور سب طلبا اپنے کمروں میں آرام کے لیے بھیج دئیے جاتے تھے ۔ کالج کی پچھلی دیوار پہاڑی کے دامن میں تھی جہاں سے ایک خوب صورت چشمہ کالج میں داخل ہوتا تھا، وسیع و عریض گراؤنڈ میں بہتے ہوئے وہ بائیں طرف کی دیوار سے باہر نکلتا تھا۔ پہاڑی کے دامن میں بنی ہوئی یہ دیوار سنسان رہتی تھی جس کے پیچھے کافی فاصلے سے چیک پوسٹس بنی تھیں، اور وقفے وقفے سے ملٹری پولیس وہاں گشت کرتی تھی۔ ان کے گشت کے اوقات نوٹ کئے گئے اور پوری پلاننگ کر کے ایک دن آٹھ دس لڑکے دوپہر کے دو بجے اس چشمے میں اتر گئے جو پہاڑی سے اتر کرگراؤنڈ میں بہتا تھا۔ جہاں سے چشمہ گراؤنڈ میں داخل ہوتا تھا، وہاں دیوار میں ایک سوراخ بنایا گیا تھا جو بہت بڑا تو نہ تھا، مگر اتنا ضرور تھا کہ اس میں سے ایک شخص کسی نہ کسی طرح سکڑ سمٹ کر نکل سکتا۔ کسی نہ کسی طرح یہ جوشِ جوانی میں اس میں سے نکلے اور بس اڈے کی طرف دوڑ لگا دی ۔ اس دوڑ سے کپڑے بھی سوکھ گئے اور خیریت سے بغیر چوکی دار کی نظروں میں آئے وہ بس اڈے پہنچ گئے ۔ بس اس سے آگے کی منزلیں بہت آسان تھیں ۔ بس اڈے سے ویگن پکڑی اور پنڈی اترے۔ سینما پہنچ کر جو فلم لگی نظرآئی ، اس کی ٹکٹیں خرید لیں، فلم بہت بکواس نکلی لیکن ایڈونچر کی کامیابی نے سب پر جوش کا جو عالم طاری کر رکھا تھا، اسے ردی سے ردی فلم بھی نہ اتار سکتی تھی ۔




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!