داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

سرور، فوزیہ اور طاہر کو گھر لائے تو عطیہ اور دادی نے کچھ سوال ضرور کیے مگر دونوں جانتی تھیں کہ سرور اپنی ضد کا پکا ہے، جو بات کہہ دی سو کہہ دی ۔ فوزیہ کو گھر کا باہری کمرہ دے دیا گیا جو گھر سے ذرا الگ تھلگ تھا اور کبھی کبھار دادی کے گاوؑں سے آنے والے رشتہ داروں کو ٹھہرانے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ فیصل چھٹی پر آیا تو مہمانوں کو دیکھ کر کچھ خاص حیران نہ ہوا۔ سرور اس قسم کے کام کرتے رہتے تھے۔ اپنی خوش خصال طبیعت کی وجہ سے وہ فوزیہ کا حا ل پوچھنے بھی گیا ۔ اس کے آنے کے اگلے دن سرور نے اسے فوزیہ کو اسپتال لے جانے کی ڈیوٹی سونپی ۔ وہ دونوں کو اسپتال لے گیا اور وہاں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ڈاکٹروں سے فوزیہ کی رپورٹس ڈسکس کیں ۔ دوائیاں بھی خرید دیں ۔ راستے میں جوس بھی پلایا۔ طاہر کو زندگی میں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ جن لوگوں کے ساتھ وہ آج تک اٹھتا بیٹھتا رہا تھا ، ان میں اور ان لوگوں میں کیافرق تھا ۔ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی نے شفیق اور ذمہ دار بڑے بھائی کا سا برتاوؑ کیا تھا۔ فیصل نے اسے اپنی وردی بھی دکھائی اور مختلف مقابلوں میں جیتے ہوئے میڈل اور کپ بھی۔ جتنے دن فیصل گھر رہا، طاہر فیصل بھائی، فیصل بھائی کہتے دیوانہ وار اس پر نثار ہوتا رہا۔
فوزیہ کی حالت اب بالکل سنبھل گئی ۔ وقت پر دوا اور چیک اپ نے مرض کنٹرول کردیا ۔ گھر کے کھانے اور آرام نے جسمانی اور ذہنی صحت بحال کر دی ۔ہزار ہا تشکر اور احسان مندی سے اس نے گھر والوں کا شکریہ ادا کیا ۔ عطیہ نے پھلوں کی پیٹی ساتھ دی ۔ سرور نے کچھ رقم کا لفافہ تھمایا اور فوزیہ واپس اپنے گھر چلی گئی۔
٭…٭…٭





زنیرہ نے گھر کے دروازے کولاک کر کے چابی کھینچ لی ۔ خالی گھر سے نکلنا اور خالی گھر میں واپس آنا دونوں ہی کام اسے بہت مشکل لگتے تھے۔ اس نے پورچ میں کھڑی جدید ماڈل کی خوب صورت گاڑیوں کو دیکھا ۔ بے اختیار اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ کوئی چھوٹی سی سائیکل کھڑ ی ہو۔ چشمِ تصور سے اس نے ایک نیلی اور گلابی سائیکل وہاں کھڑی دیکھی وہ مسکرا دی۔
’’پورچ میں سائیکلیں کھڑی کر دیں اندر کھڑی کیا کرو بھئی ۔ باہر خراب ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے تصور میں کسی سے کہا۔
سڑک پر کسی گاڑی کا ہارن بجا اور تصور ٹوٹ گیا۔ زنیرہ کی مسکراہٹ بھی بکھر گئی۔ مڑ کر ایک نظر اس نے گھر کے بند دروازے کو دیکھا پھر ٹھنڈا سانس لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔ آج اسے ڈینٹسٹ کے پاس جانا تھا ۔ چند دنوں سے اسے دانت میں تکلیف تھی۔ کل شام کو درد بہت بڑھ گیا تھا تو اس نے رات کے کھانے پر عامر کو بتایا:
’’ہاں چلی جاوؑ ڈینٹسٹ پہ۔‘‘ اس نے کھانا کھاتے ہوئے جواب دیا ۔
فون کیا تھا میں نے اسے کل شام کی aapointment دی ہے اس نے ابھی پین کلر کھانے کو کہا ہے۔‘‘ زنیرہ نے بتایا۔
عامر خاموشی سے کھانا کھاتارہا ۔ زنیرہ کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتی رہی ۔
’’ڈرائیور چھٹی پر ہے کل میری پانچ بجے کی appointment ہے۔ کیا تم مجھے لے جاسکتے ہو؟‘‘ آخر اس نے خود ہی بات شروع کی۔
’’تم یہ پوچھ بھی کیسے سکتی ہے؟ پانچ بجے میں اٹھ سکتا ہوں آفس سے؟ پرائم ٹائم ہے وہ کام کا۔‘‘ عامر نے چمچ پلیٹ میں پٹخ کر۔ اس نے غصے سے کہا۔
زنیرہ نے گلاس اٹھا کر ٹھنڈے پانی کا گھونٹ لیا اور اپنے اندر امڈتے ملال اور غصے کو دبانے کا فی الحال اور کوئی ذریعہ نہیں تھا اس کے پاس۔
’’تمہارا ہر ٹائم پرائم ٹائم ہوتا ہے اگر مجھے کوئی ضرورت ہو، اپنے لیے تم کسی بھی وقت اٹھ سکتے ہو۔‘‘ زنیرہ کے ضبط کے بندھن اب جواب دے گئے تھے۔
’’میرے کام ضروری ہوتے ہیں ۔ تمہاری طرح نخرے نہیں کرتا میں عیش و عشرت میں بیٹھ کر۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
’’میرا کام بھی ضروری ہے، عامرـ میں تکلیف میں ہوں ، اکیلی ڈرائیو کر کے نہیں جاسکتی ۔ اگر تم نہیں آسکتے تو آفس سے مجھے کوئی ڈرائیور بھیج دو۔‘‘ ـ اس نے تحمل سے کہا۔
’’نئی فرمائش!‘‘ کل بہت ضروری ڈلیوری ہے ایک کنسائنمنٹ کی ۔ کوئی ڈرائیور فارغ نہیں ہے۔‘‘ عامر نے خفگی سے کہا۔
’’تو میں اس درد اور تکلیف کے ساتھ اکیلی جاوؑں اور اکیلی واپس آوؑں؟‘‘ زنیرہ کا تحمل بھرا جواب دے رہا تھا۔
’’نہیں میں لے جاتا ہوں تمہیں اور اسپتال میں پھینک آتا ہوں۔ عورتوں کی عادت ہوتی ہے نخرے کرنے کی۔ تم وہاں رہو ہفتہ دس دن اور جب یہ نخرے نکل جائیں تو مجھے فون کر دینا میں آکر لے جاؤں تمہارا ملبہ۔‘‘ عامرنے نیپکن میز پر پھینکتے ہوئے کہا۔
زنیرہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اسی وقت ملازمہ آکر برتن اٹھانے لگی ۔ زنیرہ نے کرسی دھکیلی اور کھڑی ہو گئی۔
’’مجھے چائے کا کپ دے جاؤ میرے کمرے میں‘‘ اس نے ملازمہ سے کہا۔
’’جی اچھا! صاحب جی آپ کے لیے بھی؟‘‘ ملازمہ نے کہا۔
’’نہیں!‘‘ میں باہر جارہا ہوں، رات کو دیر سے آؤں گا۔‘‘ عامر بے نیازی سے بولا۔
٭…٭…٭
دانت کی تکلیف ایک عذاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ چیک اپ پر معلوم ہوا کہ داڑھ ٹوٹ گئی ہے اور اس کی کرچیاں مسوڑھے میں دھنس گئی ہیں ۔ اسی وقت لوکل سرجری کی گئی۔ دو گھنٹے میں نہ صرف وہ دانت نکالاگیا بلکہ ارد گرد کے دانتوں کی بھی سرجری ہوئی ۔ زنیرہ کھڑی تو اس کا سر چکرا رہا تھا ۔ درد تھی کہ پین کلر انجکشن سے بھی پوری طرح نہ گئی تھی ۔ اس حالت میں اس نے گاڑی کی چابی پکڑی اور گاڑی میں آبیٹھی ۔ بڑی دیر وہ پارکنگ میں بیٹھی ہمت مجتمع کرتی رہی ۔ آخر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پارکنگ سے نکال لی ۔ سڑک پر لاتے ہی اس کا پہلا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ گاڑی دائیں طرف سے فٹ پاتھ پر رگڑ کھاتی چلی گئی ۔
’’افوہ! پوری سائیڈ پر ڈینٹ پڑ گیا ہوگا ۔ اب عامر کی باتیں سننی پڑیں گی۔‘‘ زنیرہ نے کوفت سے سوچا۔
دوسرا ایکسیڈنٹ مین روڈ پر ہوا ۔ رکشے کو بچانے کی کوشش میں اس کی گاڑی سائیڈ پر کھڑی وین سے ٹکرا گئی ۔ اس نے گھبرا کر ریورس کی تو ایک موٹر سائیکل سوار ریورس ہوتی گاڑی کے پیچھے آگیا ۔ گاڑی اس سے ٹکرائی اور وہ نیچے گر گیا۔ زنیرہ کو وہ نظر ہی نہ آیاتھا۔ اس نے مکا لہرا کر اسے ڈانٹنے کی کوشش کی ۔ تب اسے احساس ہوا کہ اس کے حواس کام نہیں کررہے ۔ زبان دو من کی محسوس ہورہی تھی اور دماغ سن ہوا جارہا تھا ۔ اسے فلموں میں دیکھے گئے وہ کردار یاد آئے جو نشے میں دھت، لڑکھڑاتے پھرتے تھے ۔ شاید ڈاکٹر نے اسے کوئی ایسی نیندآوردوا دی تھی جو اس کے حواس مفلوج کررہی تھی یا پھر یہ بے ہوشی کی دوا کا اثر تھا۔
بیس کلومیٹر کی سپیڈ سے گاڑی چلاتی وہ ایک گھنٹے اور چار ایکسیڈنٹس کے بعد گھر پہنچی ۔ آخری دفعہ گاڑی اس نے گھر آکر پورچ میں رکھے گملوں میں ماری ۔ گاڑی ٹیڑھی میڑھی کھڑی کر کے وہ باہر نکلی ۔ پرس میں سے چابی ڈھونڈتے اور دروازے کالاک کھولنے میں اسے مزید پندرہ منٹ لگے۔ اندر آکر اس نے بتیاں جلائیں اور ملازمہ کو آواز دی۔ اس سے عامر کا پوچھا، وہ ابھی تک نہیں آیاتھا۔ اسے گرم دودھ لانے کہ کہہ کر وہ کمرے میں چلی گئی۔ اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اس کے پورے منہ پر سوجن تھی اور آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔
دودھ کے ساتھ پین کلر کھا کر وہ سو گئی۔ دو بجے کے قریب درد کی شدت سے اس کی آنکھ کھلی، اسے تیز بخار تھا ۔ لیٹے لیٹے اس نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ جلایا اور درد کی گولی پتے سے نکالی ۔ پانی کے لیے نظر دوڑائی تو پانی کا گلاس خالی پڑا تھا ۔ اس نے ڈریسنگ روم کی طرف نظر ڈالی ۔ وہاں کی لائٹ آف تھی ۔ یعنی عامر آج رات بھی گھر نہیں آیا تھا ۔ زنیرہ نے کمرے میں پانی کی بوتل کی تلاش میں نظر دوڑائی ۔ در د کی شدت اور بخار کی حدت نے اسے نڈھال کر دیا تھا ۔ اس نے اٹھ کر کچن میں جانے اور پانی لانے کی ہمت نہ تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر نڈھال ہو کر پھر تکیے پر گر پڑی۔ اسے اپنی بے بسی، لاچاری اور تنہائی پر رونا آگیا۔ شادی کے نو سالوں میں ہر قسم کی کوشش کے باوجود وہ اس شادی کو وہ شکل نہ دے سکی تھی جو کسی بھی قسم کا کوئی سکھ دے سکتی۔ آج اس کے منہ میں دو گھونٹ پانی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ وہیں پڑی روتی رہی۔
اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا، اس نے سوچا شاید عامر کا فون ہو۔ اس نے فون اٹھا کر نیم اندھیرے میں نام پڑھنے کی کوشش کی، ’’فیصل۔‘‘
کانپتے ہاتھوں سے اس نے کا ل ریسیو کی ۔
’’ہیلو!‘‘ بہ مشکل اس کے منہ سے نکلا۔
’’آپی آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ اسے فیصل کی آواز سنائی دی۔ وہ بے آواز روتی رہی۔
’’آپی کیاہوا؟ کچھ بولیں۔‘‘ فیصل کی آواز میں بے قراری تھی۔
’’فیصل مجھے بہت درد ہے ۔‘‘ زنیرہ نے سسکیوں سے روتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہوا؟ کہاں ہیں آپ؟ در د کیوں ہے؟ عامر بھائی کہاں ہیں؟‘‘ فیصل نے تشویش سے پوچھا۔
روتے ہوئے زنیرہ نے اسے اپنے دانت کی سرجری کا مختصر احوال بتایا۔
’’مجھے بہت بخار ہے عامر کوآج آفس میں کام تھا۔ وہ گھر نہیں آیا میں اس وقت بالکل اکیلی ہوں۔ میرے پاس پانی بھی نہیں ہے دوا کھانے کے لیے۔‘‘ اس نے بچوں کی طرح کہا۔
فیصل خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا:
’’عامر بھائی کو معلوم تھا آپ کی سرجری کا؟‘‘ تو اس کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔
’’ہاں یا شاید نہیں!‘‘ زنیرہ نے بے بسی سے کہا۔
’’آپی۔ آپ میری بات غور سے سنیں ۔ سب سے پہلے آنسو پونچھیں ۔ رونے کاکوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پونچھ لیے؟‘‘
’’ہاں‘‘ زنیرہ نے آنسو پونچھ کر سعادت مند ی سے کہا
’’اب اٹھ کر بیٹھیں، ہمت کریں۔ اکیلی نہیں ہیں آپ، میں ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘
زنیرہ اٹھ بیٹھی۔ اسے ایک عجیب سی تقویت کا احساس ہورہا تھا ۔
’’اٹھ کر کھڑی ہوں، اب آہستہ آہستہ دیوار کا سہارا کے کر چلنا شروع کریں۔‘‘ فیصل نے اپنی بات جاری رکھی۔
اسی طرح ہدایات دیتے دیتے فیصل نے اسے کچن تک پہنچایا۔ اس سے فریج کھلوا کر پانی بوتل نکلوائی ۔
’’گلاس میں پانی نہیں ڈالنا بوتل لے کر واپس بیڈ روم میں جائیں۔‘‘ اس نے کہا۔ زنیرہ واپس آئی۔ فیصل کی ہدایت کے مطابق اس نے کسی روبوٹ کی طرح گلاس میں پانی انڈیلا اور ٹھنڈے پانی کا پورا گلاس پی گئی۔
’’ایک گلاس اور پئیں، شاباش! تھوڑا سا پانی ہاتھوں پر لگا کر اپنے چہرے پر پھیریں۔‘‘ فیصل نے حکم دیا۔
زنیرہ و ہ سب کچھ کرتی گئی جو فیصل کہتا گیا ۔ پانی پی کر وہ تکیے کے سہارے لیٹ گئی ۔ ایک سکون سا اسے اپنے رگ و پے میں اترتا محسوس ہورہا تھا۔
’’آرام سے لیٹی رہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ بس ابھی ٹھیک ہوجائیں گی آپ۔ ‘‘ فیصل کہہ رہا تھا۔
فیصل باتیں کرتا رہا اور وہ سنتی رہی۔ غنودگی اس کے حواس پر چھانے لگی۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ آخری بات جو اس نے نیندمیں جانے سے پہلے پوچھی وہ یہ تھی۔ فیصل نے کیا جواب دیا۔ اسے پتا نہ چل سکا ۔اس کے بولنے سے پہلے ہی وہ نیند میں جا چکی تھی۔
٭…٭…٭
’’بیٹا تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟‘‘ عطیہ کہہ رہی تھیں۔
’’امی آپ لوگ کیا کرلیتے پریشان ہونے کے سوا؟‘‘ اور پھر میرا خیال تھا معمولی سا ٹریٹمنٹ ہو گا اور میں ٹھیک ہو جاوؑں گی۔ سرجری کرنی پڑے گی یہ تو مجھے وہاں جا کر پتہ چلا۔‘‘ زنیرہ نے کہا۔
’’ہمیں تو جب فیصل نے صبح فون کیا تو ہم بہت پریشان ہوئے۔‘‘ عطیہ نے پریشانی سے کہا۔
’’ہاں امی! فیصل کا مجھے رات تین بجے فون آیا ۔ اسے کیسے پتہ چلا کہ میں تکلیف میں ہوں۔ زنیرہ کو کچھ یا دآیا۔
’’وہ کہتا ہے اسے رہ رہ کر تمہارا خیال آرہا تھا۔ جب وہ ایکسرسائز پر جانے کے لیے اٹھا تو اس نے سب سے پہلے تمہیں فون کیا۔‘‘ عطیہ نے بتایا ۔
’’وہ ہمیشہ سے ہی ایسا کئیرنگ ہے امی آپ کو یاد ہے جب میں شادی سے پہلے بہت بیمار ہو گئی تھی تو اس نے میرا کتنا خیال رکھا تھا۔‘‘ اس نے پیار سے کہا۔
’’یاد ہے! اللہ تم بہن بھائیوں کا پیار اسی طرح سلامت رکھے۔‘‘ عطیہ نے مسکرا کر کہا۔
’’بھائیوں کا نہیں صرف ایک بھائی کا۔ عادل کو تو شاید یا د ہی نہیں کہ اس کی کوئی بہن بھی ہے۔‘‘ زنیرہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ایسی بات نہیں ہے۔ بس وہ بہت مصروف رہتا ہے‘‘۔ عطیہ نے صفائی دی۔
’’چلیں چھوڑیں امی دادی کیسی ہیں۔‘‘ زنیرہ نے بات بدلی۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد زنیرہ نے فون رکھ دیا۔ فون بند کیا ہی تھا کہ فیصل کی کال آنے لگی۔
’’کیسے ہو فیصل؟‘‘ زنیرہ نے پیار سے پوچھا ۔
’’آپ کیسی ہیں؟ بخار اترا؟ دانت کادرد کیساہے ؟‘‘ اس نے آپ پر زور دے کر پوچھا۔
’’بہترہوں۔‘‘ زنیرہ کادل بھر آیا۔
’’عامر بھائی ہیں آپ کے پاس؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں۔ وہ آج کل ذرا مصروف ہیں۔‘‘ زنیرہ نے اپنے آنسو اندر اتار لیے اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ فیصل خاموش ہو گیا۔
’’میں بھی نہیں آسکتا ابھی آپ کے پاس ۔‘‘ کچھ دیر بعد اس نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، نہیں میں ابھی ٹھیک ہوں ۔ ملازم ہیں میرے پاس ۔ تم فکر مت کرو۔‘‘ زنیرہ جلدی سے بولی۔
’’کوئی پرابلم ہو تو مجھے کال کر دیجیے گا۔‘‘ فیصل نے کہا ۔
’’ضرور فیصل ضرور!‘‘ زنیرہ کی آواز نم ہوگئی۔
’’جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میرے پاسنگ آؤٹ میں صرف تین مہینے رہ گئے ہیں۔ آپ کے بغیر پاس آؤٹ ہونے سے انکار کردوں گا میں۔‘‘ اس نے معصومانہ انداز میں کہا۔
’’آف کورس فیصل میرے بغیر تم پاس آؤٹ ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ زنیرہ نے ہنس کر کہا۔
’’یار آپی! سورڈ آف آنرملنے کی بڑی امید ہے ۔ دعا کریں۔‘‘ اس نے دبے دبے جوش سے کہا۔
’’واقعی؟ ہائے اللہ میں تو سو نفل مانوں گی۔‘‘ زنیرہ کا دل خوش ہو گیا۔
کچھ دیر مزید گپ شپ کرنے کے بعد زنیرہ نے فون بند کر دیا ۔ اس کا دل ہلکا پھلکا تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’میرا منا اتنا بڑا ہوا گیا ہے۔ ماشااللہ‘‘ اس نے مسکر اکر سوچا۔
وہ فون ہاتھ میں لیے بیٹھی مسکراتی رہی۔
’’کتنی خود ترسی میں مبتلا رہتی ہوں۔‘‘
’’ماں با پ دور ہیں، ایک بھائی پوچھتا نہیں، شوہر بے قدر اور لاپروا ہے، اولاد سے محروم ہوں۔ لیکن ان سب محرومیوں کا مداوا اللہ نے مجھے فیصل کی شکل میں دے دیا ہے۔ یااللہ تیر ا لاکھ لاکھ شکر۔ یااللہ تیرا کروڑ ہاشکر۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔
٭…٭…٭
ثنا نے سکیچ بنا کر ایک نظر مسجد پر ڈالی او ر رنگوں کا انتخاب کرنے لگی۔ و ہ بڑی دیر سے الیاس مسجد کے سامنے گاڑی میں بیٹھی تھی ۔چشموں کے سنگم پر بنی ہوئی اس چھوٹی سی مسجد کا پانی بڑا مشہور تھا ۔صاف شفاف چشموں کا پانی! ڈرائیور پانی کے کینز بھر کر لایا۔ ثنا نے اپنی چیزیں سمیٹیں۔
گھر کے برآمدے میں کورئیر سروس کا نمائندہ کھڑا تھا ۔ ثنا نے اس سے لفافہ پکڑ کر دست خط کیے۔
’’امی یہ ابو اور آپ کے نام آیا ہے۔‘‘ اند رآکر اس نے لفافہ امی کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہے؟ کوئی دعوت نامہ لگتا ہے؟‘‘ مریم نے اشتیاق سے پوچھا ۔ امی نے لفافہ چاک کیا اور اند ر موجود دعوت نامہ نکال لیا۔
’’کاکول اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ کا انویٹیشن ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا۔ تو مریم کو غش آگیا۔۔۔
’’یہاں پہلے دن رات کانوں میں پریڈ بجتی ہے اب تو خوابوں میں بھی پریڈ آنے لگی ہے ۔ میری توبہ جو ایک اور پریڈ دیکھنے جاؤں۔‘‘ اس نے جل کر کہا۔
’’لیکن میں تو جاؤں گا آپا آپ چلو نہ ہمارے ساتھ۔‘‘ علی مچل کر بولا۔
’’ہاں ضرور ویسے بھی میں کاکول اکیڈمی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ ثنا نے کہا۔
لیکن صرف پی ایم اے ہی وہ واحد چیز نہیں ہوتی جو وہ دیکھنا چاہتی تھی، دن رات کی جو پریڈ ان کے ہمسائے میں ہوتی تھی ، وہ اس کا فائنل شو دیکھنا چاہتی تھی۔
شام کو سٹرک کنارے پڑ ے فوجیو ں سے اسے ہم دردی ہو چلی تھی اور وہ اسے اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ وہ ان کی سپورٹ کے لیے جانا چاہتی تھی تاکہ ان کے لیے خوب تالیاں بجا کر حقِ ہمسائیگی ادا کر سکے۔
پریڈ ہوئی ۔ مختلف شعبوں میں کار کر دگی دکھانے والے کیڈٹس کے نام اناؤنس ہوئے اور پھر سورڈ آف آنر کا اعلان ہوا ۔
’’جی سی فیصل خان!‘‘
ثنانے اپنے سے آگے دوسری قطار میں بیٹھے لوگوں کو خوشی سے کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے دیکھا اور جب فیصل خان سورڈ آف آنر لینے آیا تو وہ دم بہ خود رہ گئی۔
’’ارے اتنے خوب صورت لوگوں کو تو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ کمپلیکس ہو جاتا ہے ان کو دیکھ کر۔‘‘ اس نے گھر آکر مریم سے کہا۔
’’ایسا بھی کیا تھا اس میں؟‘‘ مریم نے بے نیازی سے پوچھا۔
’’واقعی بڑا ہینڈ سم بچہ تھا ماشااللہ میں تو بعد میں اس سے ملی بھی تھی ۔ تم نے دورسے اس کا قد کاٹھ دیکھا تھا ۔ اس کی تو آنکھیں بھی سبز تھیں۔‘‘ امی نے کہا۔
’’افوہ مجھے نہ بتائیں میں پہلے ہی جیلس ہورہی ہوں ۔‘‘ ثنا نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’اور تھا بھی بڑا تمیز دار اور نرم لہجے والا مہذب خاندان کا لگتا تھا۔‘‘ اس نے تعریف کی۔
’’خیر ہمیں کیا کون سا اس سے کبھی سامنا ہونا ہے جو ہم اس سے مرعوب ہوں۔‘‘ ثنا نے کندھے اچکا کر کہا۔
’’خیر تم تو یہ مت کہو تم کسی سے کم تو نہیں ۔ اگر کبھی سامنا ہو بھی گیا تو ہوسکتا ہے وہ بھی تم سے مرعوب ہوجائے۔‘‘ مریم نے کہا۔
انسانوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نقشِ محفوظ کی طرح ان کی قسمت میں لکھا ہوتاہے ۔ کوئی گھڑی قبولیت کی ہوتی ہے ، کوئی رد دعا کی اور کوئی اس ان مٹ سچائی کی جو تقدیر کی گود سے پھسل کر انسانوں کی جھولی میں آگرتی ہے ۔ تقدیر انسان کی تدبیر پر مسکراتی ہے اورچپکے چپکے زندگی کی کہانی بنتی رہتی ہے ۔ کبھی اس میں بہت سے پھند نے ٹانک دیتی ہے ، کبھی جھٹکے سے دھاگا توڑد یتی ہے۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ کو پورا ایک ہفتہ گزرا تھا جب دروازے پر بیل ہوئی ۔ ثنا کو یوں لگا جیسے گھنٹی نے اسے آواز دے کر بلایا ہو ۔ وہ دروازے کی طرف چلی تو اس کا دل دھڑک دھڑک کر خطرے کی گھنٹی بجانے لگا۔ اس کا رواں رواں گنگنانے لگا۔
’’دروازہ مت کھولنا اپنے آپ کو کھو بیٹھو گی۔‘‘ اس کی چھٹی حس نے خبردار کیا۔
’’بھاگ کر دروازہ کھولو باہر تمھارا جیون کھڑا ہے۔‘‘ اس کے وجدان نے خوشی سے جھوم کر کہا۔
گہرا سانس لے کر ثنا نے اپنے کانپتے ہاتھوں پر قابو پایا اور دروازہ کھول دیا ۔ وہ برآمدے میں دروازے کی طرف پشت کیے کھڑا تھا ۔ ثنا نے اس کا لمبا قد اور چوڑے شانے دیکھے ۔ اس کا چہرہ دیکھے بغیر بھی وہ جان گئی کہ وہ کون ہے ۔ وقت نے انگڑائی لی اور اس انمول لمحے نے جھک کر سرگوشی میں اسے بتایا کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ مڑا۔
’’اف خدایا اس کی آنکھیں تو واقعی سبز ہیں ۔‘‘ ثنا کے دل نے دھڑک کر کہا کائنات کی سانس تھم گی اور اس سناٹے میں دونوں دم بہ خود کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ ثنا نے اس کے کندھوں پر سجے ستاروں کو دیکھا ، فیصل نے اس کی آنکھوں میں چمکتے ستارے دیکھے۔
’’تو تو گئی ثنا!‘‘ ثنا کے دل نے مایوسی سے کہا۔
’’مرگئے!‘‘ فیصل کے دل نے فیصلہ سنایا۔
باغ میں سے ایک رنگ برنگے پروں والی چڑیا اڑ کر برآمدے میں لٹکے گملے کے پھولوں پر آبیٹھی ۔ چوں چوں چوں گویا کہتی ہو ،کچھ بولو ،کچھ بولو۔
اس کی آواز سے فیصل نے چونک کر اس کو دیکھا۔ تو ثنا نے خفیف ہو کر نظر جھکائی ۔
فیصل نے کھنکار کر ہاتھ میں پکڑی فائل دوسرے ہاتھ میں منتقل کی اور دھیمی آواز میں پوچھا: ’’قریشی صاحب ہیں ؟‘‘
’’مرے کو مارے شاہ مدار آواز بھی کتنی خوب صورت ہے۔‘‘ ثنا نے سوچا۔
’’جی نہیں‘‘ اس نے کہا۔ فیصل کے کانوں میں گھنٹیا ں بجیں۔
’’کب تک آئیں گے۔‘‘
’’معلوم نہیں ۔‘‘
فیصل کی آنکھیں مسکرانے لگیں ، جگمگانے لگیں ، ہونٹوں کے گوشوں میں مسکراہٹ کی جنبش ہوئی۔
’’میں۔۔۔۔۔۔ دوبارہ آجاؤں؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔۔ ضرور‘‘ ثنا نے اپنی مسکراہٹ چھپا لی۔
’’ضرور آنا‘‘ اس کا دل پکارا۔
’’آؤں گا! ضرور آؤں گا ۔ بار بار آؤں گا۔‘‘ فیصل کی آنکھوں نے مسکرا کر کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!