داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

عطیہ کی آنکھ کھلی تو ان کے دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ سانس لینے میں بھی دشواری ہورہی تھی۔ کیسا عجیب خواب دیکھا تھا انہوں نے؟ زنیرہ نے اُٹھ کر پانی پیا۔ اس کے حلق میں کانٹے پڑرہے تھے ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پررکھا فون اٹھا کر وقت دیکھا، ساڑھے تین بجے تھے، وہ جانتی تھی وہ اب نہیں سو پائے گی۔
٭…٭…٭
ثنانے ساتھ سوئی ہوئی مریم پر ایک نظر ڈالی اور دبے پاؤں بستر سے اُتر گئی۔ ساری رات اس نے سوتے جاگتے گزاری تھی ۔ کیسی عجیب سی کیفیت تھی ۔ پیٹ میں اینٹھن سی تھی ۔ رہ رہ کر نیند سے آنکھ کھل رہی تھی۔ وہ کھڑکی میں کھڑی ہوگئی اور ایبٹ آباد کی خوب صورت فضا میں سورج طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
٭…٭…٭
فیصل نے صُبحِ کاذب کا ہلکا سا اجالا افق پر پھیلتے دیکھا، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ وہ زیرِ لب گنگنانے لگا۔
’’بڑی غلطی کی عادل کومنگنی کے بغیر امریکا بھیج دیا۔‘‘ دو سال ہو گئے شادی پر زور دیتے، کسی طرح ہاتھ نہیں آتا یہ لڑکا۔‘‘ دادی نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا۔
’’اور جو ہاتھ آنے کو دل وجان سے تیار ہے ، اسے آپ لوگ لفٹ نہیں کراتے۔‘‘ فیصل کونے سے بولا۔
’’چپ کر۔‘‘ ’’بوٹ پالش کر تو اپنے ، بڑوں کی باتوں میں دخل نہیں دیتے۔‘‘ دادی نے جھڑکا۔ ’’ایک تو اللہ گھر میں سب سے چھوٹا کسی کو نہ کرے‘‘ جتنے مرضی بڑے ہو جاؤ ، رہوگے چھوٹے ہی۔‘‘ و ہ سر جھٹک کر بڑبڑایا۔
’’اے عطیہ! ’’ذرا پتا تو کر، کسی گوری کے ساتھ شادی تو نہیں کربیٹھا؟‘‘
’’نہیں اماں میں تو اس پر بھی راضی ہوں وہ کہے تو سہی مگر وہ تو شادی کا نام ہی نہیں سننا چاہتا۔‘‘
’’شادی کا نام نہیں سننا چاہتا؟‘‘ دادی حیران پریشان ہو کر بولیں ۔ انہوں نے مڑ کر ایک نظر فیصل کو دیکھا اور آگے جھک کر رازداری سے سرگوشی میں بولیں:
’’میں نے سنا ہے وہاں لڑکے لڑکیاں بغیر شادی کے ہی اکھٹے رہنا شروع ہو جاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں دادی میں نے پتا کروایا ہے، ابھی اکیلا ہی رہ رہا ہے وہ وہاں۔‘‘ فیصل کھسپانی ہنسی ہنستے ہوئے کونے سے بولا۔
’’آئے ہائے در فٹے منہ۔ کتنے تیز ہیں اس لڑکے کے کان بے شرم۔‘‘ دادی گڑبڑ اکر بولیں۔
فیصل نے اپنے جوتے دیوار کے ساتھ رکھے اور ہاتھ جھاڑ کر دادی کے پاس آبیٹھا:
’’دادی عادل کسی ایسی ویسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔‘‘
’’تو کیسی لڑکی سے شادی کرے گا؟ ہمیں بتا دے ہم ڈھونڈ دیتے ہیں۔‘‘
’’آپ نہیں ڈھونڈ سکتیں۔‘‘
’’کیوں؟ ’’اتنی اچھی لڑکیاں ہیں میرے جاننے والوں میں، وہ بتائے تو سہی اسے کیسی چاہیے، گھریلو، ڈاکٹر یا انجینئر۔‘‘
’’ہاں اماں عادل انجینئر ہے تو اس کے ساتھ انجینئر ہی سوٹ کرے گی۔ جیسے ڈاکٹر کے ساتھ ڈاکٹر۔‘‘ عطیہ فوراً بولیں۔
’’اور گھریلو کے ساتھ گھریلو۔‘‘ فیصل نے لقمہ دیا ۔
’’چپ کر ہاں تو وہ اپنے نعمان کی بیٹی ہے نا۔ انجینئر بن رہی ہے بڑی لائق ہے۔‘‘
’’ارے دادی اسے تو ڈھنگ کی چائے بھی نہیں بنانی آتی ۔ اس کا آپ دو سگھڑ خواتین کے ساتھ گزارا کیسے ہو گا جن کی زندگی کھانے پکانے کے گر د گھومتی ہے۔‘‘ فیصل نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔
’’ہیں اچھا؟‘‘ کھانا نہیں پکانا آتا اس کو ؟ ویسے تو بڑی لائق ہے۔‘‘ دادی نے ہاتھ منہ پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’انجینئر نگ میں لائق ہے نا، اس کا کھانے پکانے سے کیا تعلق؟ لوگ پوچھیں گی آج بہو نے کیا پکایا ؟ امی کہیں گی نٹ بولٹ۔‘‘ فیصل نے ہنس کرکہا۔
دادی سو چ میں پڑگئیں۔ فیصل نے دادی کے کندھوں پر بازو پھیلا یا اور بڑے لاڈ سے کہا: ’’دادی کیوں فکر کرتی ہیں؟ میں نے عادل کے لیے بڑا اچھا رشتہ ڈھونڈا ہے۔‘‘
’’تو نے کہاں سے ڈھونڈا ہے ؟‘‘ دادی نے اسے گھورکر دیکھا۔
’’اخبار کے اشتہار سے۔ بہت بڑے بزنس کی مالک، قبول صورت، پابند صو م و صلوٰۃ، بیوہ بانجھ چار بچوں کی ماں۔‘‘
دادی جو بہت غور سے اُس کی بات سُن رہی تھیں، آخری جملہ سُن کر گڑبڑا گئیں۔ عطیہ ہنسنے لگیں، دادی نے جھک کر اپنی چپل اٹھا لی۔
’’ٹھہر میں تجھے بتاتی ہوں ۔ بیوہ بانجھ کا کچھ لگتا۔‘‘
’’ابھی بانجھ ہے تو چار بچوں کی ماں ہے ، پتا نہیں ٹھیک ہوتی تو کیا ہوتا۔‘‘ عطیہ نے ہنستے ہوئے کہا:
دادی کی ہنسی نکل گئی۔ فیصل نے چپل ان کے ہاتھ سے لے کر پھینک دی اور ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا لیا۔
’’یہ لیں دادی آج آر یا پار۔ پوچھیں عادل سے اور آج فیصلہ کر کے اٹھیں۔‘‘ اس نے نمبر ڈائل کر کے دادی کو پکڑا دیا۔
’’ہیلو عادل!‘‘ کیسا ہے بیٹا؟‘‘ دادی نے پیار سے کہا۔
’’ٹھیک ہوں دادی۔ آپ کیسی ہیں؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں، رشتہ طے کرنے لگی ہوں تیرا۔‘‘
’’اوہ فار گاڈ سیک! دادی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ وہ بے زاری سے بولا۔
’’کیوں نہیں کرنا چاہتا؟‘‘ دادی نے ڈپٹ کر پوچھا۔
’’ہاں ہا ں پوچھیں اس سے کیوں نہیں کرنا چاہتا؟‘‘ فیصل نے دادی کو شہ دی۔
’’میری مرضی!‘‘ عادل نے اکتا کر کہا۔
’’دادی اس سے پوچھیں کہاسے کوئی مسئلہ تو نہیں۔‘‘ ساتھ بیٹھے فیصل نے کہنی مار کر دادی کو کہا۔
’’عادل! سُن بیٹا تجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ؟‘‘ دادی نے معصومیت سے پوچھا۔
’’عطیہ نے ہاتھ میں پکڑی دھاگے کی نلکی فیصل کو دے ماری ۔
’’دادی‘‘ ’’آپ سے یہ باتیں کون کر رہا ہے؟‘‘ عادل دانت پیس کربولا:
’’فیصل پوچھ رہا ہے ۔‘‘دادی نے صفائی دی ۔
’’دادی آپ کو شادی کرانے کا شوق ہے ناں؟ آپ فیصل کی کرادیں۔‘‘ ’’مجھے ذرا کام ہے، میں چلتا ہوں ۔ خداحافظ۔‘‘ عادل نے رکھائی سے کہا۔ دادی ’’سنو سنو‘‘ کرتی رہ گئیں۔
صبح صبح ثنا کی آنکھ ڈرم کی کان پھاڑ دینے والی تیز آواز سے کھلی ۔اس نے دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر ڈرم اور بھی اونچی آواز میں بجنے لگا ۔اب سونا ناممکن تھا ۔ اس نے اٹھ کھڑکی کی پردے ہٹائے باہر جھانکا۔ باہر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ گھر کے پچھلی دیوار کے دوسری طرف اسے ڈھیروں ڈھیر درخت نظرآئے ۔ جانے جنگل تھا یا کوئی باغ، نیم اندھیرے میں کچھ ٹھیک سے پتا نہ چلتا تھا۔ پچھلے لان میں شیشے کی دیواروں والا سن روم تھا اور اس کے پیچھے بھی اونچے اونچے درخت نظر آرہے تھے۔
’’کتنے درخت ہیں یہاں۔‘‘ ثنا نے خوش ہو کر سوچا۔ درخت ہوں، پرندے نہ ہوں، یہ تو ممکن نہیں۔ پرندوں کی ایسی ایسی چہچہاہٹ گونج رہی تھی جو ثنا نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ ادھر ڈرم تھا کہ مستقل بجے جارہا تھا۔ یوں لگتا تھا کوئی دیوار کے باہر کھڑا ڈھما ڈھم کا راگ الاپ رہا ہو۔ ثنا نے مریم پر نظر ڈالی۔ مریم کے بارے میں امی اکثر کہتی تھیں کہ اس کی نیند اس قدر گہری ہے کہ کوئی اس کے سرہانے ڈھول بھی بجارہا ہو تو اس کی آنکھ نہ کھلے ،آج واقعی اس کے سرہانے ڈھول بج رہا تھا اور وہ گھوڑے بیچ کر سورہی تھی ۔ وہ لوگ رات ہی یہاں پہنچے تھے ۔ لاہور میں چار سال رہنے کے بعد ابو کا تبادلہ ایبٹ آباد ہوا تو گھر میں ملا جلا ردِ عمل ہوا۔ امی نے پہاڑی علاقے کی پوسٹنگ آنے پر شکر کا کلمہ بڑھا۔ انہیں گرمی بہت لگتی تھی ۔ مریم کو اپنی پڑھائی کی فکر تھی۔ ثنا برف باری دیکھنے کے اشتیاق میں خوش تھی تو چھوٹا علی دوستوں سے بچھڑنے کے خیال سے منہ بسور رہا تھا۔ صرف ابو تھے جو غیر جانب دار تھے۔ جہاں بھی غمِ روز گار لے جائے۔
ڈرم بجنے میں تیزی آچکی تھی۔ مریم نے کسمسا نا شروع کر دیا تھا۔ ثنا نے دروازہ کھولا اور لاؤنج میں چلی آئی۔ وہاں ڈھیروں ڈھیر کارٹن اور سوٹ کیسز کے بیچوں بیچ امی کھڑی تھیں۔





’’یہ کیا ہورہا ہے امی؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔
’’سڑک کے اس پار پریڈ گراؤنڈ ہے ، پریڈ ہورہی ہے ۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’اس وقت؟ ابھی تو سورج بھی نہیں نکلا ٹھیک سے۔‘‘ ثنانے حیران ہو کر کہا۔
’’سر! بندے کا پتر بنیں سر، کھوتے کا پتر نہ بنیں۔‘‘ پریڈ گراؤنڈ سے مائیکروفون میں سے کڑکتی آواز آئی۔
’’یہ کیسا شور ہے ؟‘‘ مریم کی آواز آئی ۔ آخر کار اس کی نیند نے آوازوں کے حملے کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔ الجھے بالوں اور نیند سے مندی آنکھوں کے ساتھ وہ دروازے میں کھڑی تھی ۔ امی نے اسے پریڈ گراؤنڈ کی اطلاع دی ۔
’’یہ کوئی وقت ہے پریڈ کا؟ میں تو سمجھی شاید حملہ ہوگیا ہے ، جنگ چھڑ گئی ہے اور ہمیں جگایا جارہا ہے کہ اٹھو اور محاذ پر چلو۔‘‘ مریم نے منہ بنا کر کہا۔
’’ابھی تو یہ محاذ سر کرنا ہے بیٹا۔‘‘ امی نے لاؤنج میں بکھرے سامان کی طرف اشارہ کیا۔
’’ہائے امی! رات دو بجے سوئے تھے ۔ چار بجے اس آفت نے جگا دیا۔ مجھ میں توہمت نہیں کچھ بھی کرنے کی۔‘‘ مریم صوفے پر گر پڑی۔
’’چلو اچھا ہی ہوا۔ ساری پیکنگ کھلنے والی پڑی ہے۔ میں تمہیں اٹھاتی رہتی تو نہیں اٹھنا تھا اب اُٹھ گئی ہو تو ناشتہ کر کے کام شروع کرو۔ دوپہر میں سو جانا۔‘‘ امی نے مسکرا کرکہا۔
’’اونو!‘‘ مریم نے سر صوفے کی پشت پر پھینک کر ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیئے۔
’’سر!‘‘ آپ انسان ہیں یا مری ہوئی مرغی؟‘‘ پریڈ گراؤنڈ سے کسی نے ڈپٹ کر پوچھا:
مریم اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ امی اور ثنا ہنسنے لگیں۔
ایبٹ آباد سے انہیں ایک ہی دن میں اُنس ہو گیا۔ ہوا معطر اور صاف تھی، خوب صورت سڑکیں تھیں، جو پہاڑوں ے ساتھ اونچی نیچی بل کھاتی چلی جاتی تھیں۔ سڑک سے ایک لمبی روش بجری سے بھری ہوئی اندر تک چلی جاتی تھی ۔ جہاں روشنی ختم ہوتی وہاں کالے رنگ کا گیٹ تھا جس کے کناروں پر بیلیں لپٹی تھیں، بہت بڑا سا باغ آگے تھا اور اس سے ذراہی چھوٹا پیچھے اگلے باغ میں پھولوں کی کیاریاں اور پھول دار جھاڑیوں کی قطاریں تھیں اور پچھلے لان میں سن روم کے ساتھ املوک ، چیڑ اور گل موہر کے تناور درخت تھے ۔ ابو کو پھولوں کا شوق تھا ۔ وہ جہاں جاتے ، گھر کو پھولوں سے بھر دیتے ۔ یہاں آکر بھی امی اندر کی صفائی ستھرائی اور سیٹنگ میں مشغول ہوئیں اور ابو نے باغ اور برآمدے کو پھولوں کے گملوں اور بیلوں سے سجادیا۔ سُرخ اینٹوں کا گھر، نقرئی ڈھلوان چھت ، پھولوں سے لدا باغ ، ثنا کو یوں لگتا وہ کسی پریوں کی کہانی میں سجے گھر میںرہتی ہے ۔ اس پریوں کی کہانی والے گھر میں ایک دیو بھی تھا ۔ پریڈ گراؤنڈ کا چیختا چنگھاڑتا دیو۔
یوں تو ابو کی جب بھی پوسٹنگ ہوتی تھی ، وہ لوگ نئے شہر کے کینٹ ہی میں رہتے تھے، مگر پریڈ گراؤنڈ کی ہمسائیگی سے پہلی مرتبہ واسطہ پڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سورج اور فوجی شرط باندھ کر نکلتے تھے۔ ادھر سورج طلو ع ہوتا، اُدھر فوجی نمودار ہوتے۔ اوپر سورج کا سفر شروع ہوتا، نیچے فوجیوں کی لیفٹ رائٹ۔ دھما دھم ڈرم بجتے۔ کبھی کبھی کوئی ترانہ بھی لگا دیا جاتا۔ صبح کی نیند تو جو گئی سو گئی ، دوپہر کو ذراآنکھ لگتی تو پریڈ گراؤنڈ سے للکارآتی:
’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘ صوبیدار صاحب جو پریڈ انچارج تھے ، بھونپو منہ سے لگائے قطاریں سیدھی کراتے ، قدم درست کرواتے، پیٹ اندر ،کندھے سیدھے ، سر اونچا اور جو کوئی بے چارہ ان احکام سے ذرا روگردانی کرتا،اسے بڑے ادب سے ڈانٹا جاتا:
’’سر! بندے کا پتر بنیں سر! کھوتے کا پتر نہ بنیں۔‘‘
پہلے دن جب ثنا، مریم اور علی ابو کے ساتھ چہل قدمی کو نکلے تو سورج ڈوب چلا تھا ۔ ایبٹ آباد کی سہانی شام ، خوش بو سے مہکتی اتر رہی تھی۔ پریڈ گراؤنڈ خاموش ہوچکا تھا۔ وہ گھر سے نکل کر سٹرک پر آئے تو ٹھٹھک کررک گئے۔ پریڈ گراؤنڈ سے باہر،سڑک کے کنارے، چھوٹے سے نالے کے پاس ڈھیروں نوجوان گرد میں اٹے بُوٹ اور وردیاں پہنے آڑھے ترچھے پڑے تھے ۔ قریب جاکر دیکھا تو تقریباً سب کے سب سورہے تھے۔ کسی کا سر کسی کے جوتوں پر تھا تو کسی کا دھڑ نالے میں پڑا تھا۔ صوبیدار صاحب ہاتھ میں بھونپولیے جھک کر ان کا معائنہ کررہے تھے ۔ ابو کو دیکھا تو سلام کرنے دوڑے آئے، سیلوٹ کیا ہاتھ ملایا۔
’’یہ یہیں سو گئے؟‘‘ ابو نے مُسکرا کرپوچھا۔
’’یس سر! جوانی اور تھکن بڑی مزے دار چیز ہوتی ہے سر ۔‘‘ صوبیدار صاحب نے موٹی موٹی مونچھوں کے نیچے سے مسکر ا کر کہا۔
’’یہ تو ہے۔‘‘ ابو بھی مسکرائے۔
مریم کو بڑا ترس آیا۔ ہائے بے چارے ۔ اب یہ رات یہیں گزاریں گے؟‘‘
’’نہیں سر!‘‘ ’’رات تو قبرستان میں گزاریں گے جی۔‘‘ صوبیدار صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
مریم اور ثنا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ہیں۔
’’ہم تو سمجھے یہ سورہے ہیں، یہ مر کیسے گئے؟‘‘ ثنا نے سخت پریشان ہو کر پوچھا۔
صوبیدار صاحب پہلے تو حیران ہوئے پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے‘‘ مرے نہیں ہیں جی، آج رات کو مشقوں پر جانا ہے ۔ پہاڑی چڑھیں گے ، پھر قبرستان میں سوئیں گے‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’فوجی جو ہوئے۔‘‘ انہوں نے سینہ تان کر کہا ۔
’’اُف!‘‘ ’’شکر ہے میں فوجی نہیں۔‘‘ ثنانے گھر آکر امی سے کہا۔
پی ایم اے کاکول کے وسیع میس ہال میں رات کے کھانے کی میزیں لگ چکی تھیں ۔ آہستہ آہستہ کیڈٹ آتے گئے اور میس بھرتا گیا ۔ یاسر میس میں آیا تو فیصل چاق و چوبند سا پہلے سے میز پر موجود تھا۔
’’تو یہاں بیٹھا ہے اور میں تجھے دوسرے کمروں میں ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
’’کیوں ؟‘‘ فیصل نے پوچھا ۔
’’میں نے سوچا کہیںسویا نہ پڑا ہو۔ ‘‘ یاسر نے کہا ۔
’’ہماری نیند ہمارے قابو میں ہے پارٹنر ، ہم نیند کے قابو میں نہیں۔ ’’وہ فرضی مونچھوں کو تاؤ دے کر بولا۔
’’یار ویسے مجھے تیری نیند کی سمجھ نہیں آتی۔ عجیب سوئچ کی طرح کی نیند ہے تیری۔ جہاں دل چاہے، جب دل چاہے تو سوئچ آن کر کے سو جاتا ہے اور پھر اس طرح اٹھ بیٹھتا ہے جیسے سویا ہی نہیں۔‘‘ یاسرنے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’کہاں تھا سبحان؟‘‘ یا سر نے ان میں سے ایک سے پوچھا۔
’’یار میں نے سوچاآج رات بہت چلنا پڑے گا ،تھوڑا سولوں آج رات قبرستان میں گزارنی ہے، پتا نہیں وہاں نیند آئے نہ آئے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں نیند بھری تھی۔
’’مرد بن یار! قبرستان سے ڈرتا ہے؟‘‘ فیصل نے قہقہہ لگایا۔
’’قبرستان سے نہیں بدروحوں سے ڈرتا ہوں۔ میرے ابا کو بچپن میں قبرستان میں ایک بدروح چمٹ گئی تھی۔‘‘
’’تبھی ان کے گھر تیرے جیسی اولاد پیدا ہو گئی۔‘‘ فیصل نے ہنس کر کہا۔
’’تو بڑا ہیرو بنا پھرتا ہے آج دیکھیں گے تیر ی حالت قبرستان میں۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا۔
’’یہی بات تو نے مجھے پیرا ٹروپنگ سے پہلے بھی کہی تھی اور یاد ہے سب سے پہلے میں نے ہی چھلانگ لگائی تھی۔‘‘ فیصل نے کہا۔
’’وہ اور بات تھی۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’بات ایک ہی تھی ڈر کی اور تیرے اندر سے ڈر نہیں نکلتا ۔ آج تو قبرستان کی بدروح سے ڈررہا ہے، تب تجھے ڈر تھا کہ اگر پیرا شوٹ نہ کھلا تو کیا ہو گا۔ تجھے اپنی جان کا خوف لگا رہتا ہے۔‘‘
’’یار جان کا خوف فطری چیز ہے۔‘‘ اس نے معصومانہ انداز میں کہا۔
’’اگر ایسی خوف زدہ فطرت تھی تو فوج میں کیوں آیا ، کہیں کلرکی کر لیتا ۔‘‘ فیصل نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔
’’میرے ابا کو شوق تھا یار انہوں نے کہا تم پڑھتے لکھتے تو ہو نہیں، ہر وقت کھیل کود میں لگے رہتے ہو تو فوج میں ہی چلے جاؤ۔‘‘ اس نے منہ لٹکا کرکہا۔
’’فوج میں ہی چلے جاؤ! اپنے کیرئیر کو option کے طورپر لو گے تو کیپٹن پر ہی ریٹائر ہو جاؤ گے۔‘‘ فیصل نے ناراض ہو کرکہا۔
’’اور تو کہاں پہنچ جائے گا؟‘‘ چیف آف آرمی سٹاف بن جائے گا؟‘‘ سبحان نے چڑ کر پوچھا۔
’’بالکل بنو ں گا۔ اس سے بھی اوپر کچھ ہوا تو وہ بھی بنوں گا انشااللہ۔ تم دیکھنا تو سہی۔‘‘
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!