ناجی کو آج اسکول کے ماحول میں عجب سی گھٹن اور حبس کا احساس ہورہا تھا۔ فضا میں کشیدگی تھی اور ہر اک چہرہ اس کے لیے سوالیہ نشان بنا پھر رہا تھا۔ وہ بہت سے واہموں اور وسوسوں میں گھری آدھی چھٹی کے وقت گھوم رہی تھی۔ پینو اور بانو اس سے کترائی کترائی سی تھیں۔ اس نے ایک دو بار کلاس میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی پر انہوں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کردیں۔ وہ مزید رنجیدہ اور دل برداشتہ ہوگئی۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ سب کا رویہ اتنا لیا دیا سا اور روکھا پھیکا کیوں ہے۔ پھر مختلف قسم کی سرگوشیوں اور چہ میگوئیوں نے اسے ٹھٹک جانے پر مجبور کردیا۔ وہ مین گیٹ کے باہر گولے والے سے گولا لینے جارہی تھی کہ اس نے سنا ایک لڑکی دوسری سے کہہ رہی تھی۔
”نی سن تجھے اس کے لچھنوں کا پتا چلا توبہ توبہ کیسی میسنی بنی پھرتی تھی۔ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے اپنے یار کے ساتھ سکوٹر پر چڑھ کے جارہی تھی۔“ سانولی سی لڑکی نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا۔
”ہائے نی قسم سے، اب اتنی بھی گھنی میسنی نہیں ہے بات کرو تو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے نہ لحاظ نہ مروّت۔ اماں بتاتی ہے صفیہ ماسی بھی ایسی ہی ہوا کرتی تھی جوانی میں اور اُس کا بھی کسی کے ساتھ چکر تھا۔“ دوسری نے کہا۔
”تو ایسے بول نا سارا رنگ ماں کے رنگ سے چڑھا ہے۔“ سانولی نے کہا اور ہولے سے اس کے کندھے پر چپت لگائی۔
”ویسے تو نے دیکھی ہے اس کی ماں۔“ سانولی نے سوال کیا۔
”ہا، اے وی کوئی پوچھنے والا سوال ہے۔ رب دی سوں بڑی چٹی کھیر ہے(بہت سفید) ہے۔ نین نقش اتنے نازک، نفیس، پتلے۔ اماں کہتی ہے جوانی میں غضب ڈھاتی تھی۔ پر عشق وشق کے چکر نے بچاری کو کملا کر رکھ دیا۔“ دوسری نے قدرے افسوس سے کہا۔
ناجی گیٹ کے دائیں طرف لگی ٹینکی کے پاس کھڑی ان کی نظروں سے اوجھل ہوکر باتیں سن رہی تھی۔ ناجی یونی فارم کی جیب سے بیس روپے نکال کر انہیں تروڑنے مروڑنے لگی۔
”اچھا اتنی محبت، تو شادی کیوں نہ کی کچھ لگتے سے۔“ سانولی کو اس سارے معاملے میں بہت دل چسپی پیدا ہونی شروع ہوگئی تھی۔ جب ہی تو ایک اور سوال داغ دیا اور اس طرح پوز کرنے لگی جیسے اسے جواب سننے کی بے حد جلدی ہو۔
”وہ دھوکا دے رہا تھا اس کی ماں کو، ٹائم پاس کررہا تھا۔ اوہ بھولی خالہ دل ہار بیٹھی تھی۔ سمجھتی تھی چاچا کرامت بھی اس کو پسند کرتا ہے۔ پر حقیقت کچھ ہور تھی۔
”ہائے کیا تھی حقیقت کتھے کوئی….“ دوسری نے اپنے منہ سے نکلتی بات کو پھسلنے سے باز رکھا۔ سانولی اس کی ادھ کہی بات سمجھ گئی تھی۔
”نہ نہ ایسا نہ تھا چاچا کرامت…. اماں بولتی ہے اسے صفیہ ماسی کے پکے پکوانوں کی لذت تیں سواد بڑا اچھا لگتا تھا۔ بس پھر کیا ہوا اچانک خبر نئیں کہ جھوک چھوڑی اور شہروسا (بسا) لیا۔“
”ماں کے کرتوتوں کا پتا ہوگا ناجی کو ساری وستی جانتی ہے۔ اسے کیویں خبر نہیں ہوگی۔
تہوں تاں (امی لیے تو) اتنی دیدہ دلیری آگئی ہے۔“ دوسری نے قیاس آرائی کی۔
”بڑی ضروری گل تو بتائی نہیں تو نے تھا کون جس کے ساتھ گل چھڑے اڑا رہی تھی۔“
”اپنا سجاول تھا ہور کون عابی دا بھرا سارے جگ دا آوارہ، لوفر لفنگاتیں بدمعاش۔“ سانولی نے نخوت سے کہا۔ ناجی نے بات سنی تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ دندناتی ہوئی ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
”تیری ہمت کیسے ہوئی میرے سجاول کے بارے میں کچھ کہنے کی، ہاں کرتی ہوں عشق اس سے پسند کرتی ہوں اس کو تیکوں (تجھے) کیا تکلیف ہے۔ تو بڑی پاک صاف ہے اور ہم ہیں گندے تیں پلید جب سے اسکول آئی ہوں فضول بکواسیں سن رہی ہوں وڈے آئے دوجوں پر انگلیاں اٹھانے والے میں ڈساں (بتا) رہی ہوں تم دونوں کو اپنے کم سے کم رکھو میرے معاملے اچ ٹانگ اڑانے دی ضروری نئیں اپنی زبانو میرے پنل دا ناں لیا تو زبان کھینچ لوں گی تیری۔“ ناجی جھپٹ جھپٹ جارہی تھی اس پر اور سانولی اس سے بھی چار ہاتھ آگے تھی۔ ناجی نے سمجھا تھا وہ ڈر جائے گی پر نہ جی۔
”چل چل اے دھمکی کسی اور کو جاکے ڈیویں بے شرم، بے حیا، بے غیرت پیو دی عزت بھرا دی، لاج داوی تیکوں خیال نئیں۔ کس کس کی زبان کھچے گی۔ اگر اتنی ہی جلدی پڑی ہے تو ویاہ کرلے اس کمینے کے ساتھ اپنے باپ ہور بھراکے سروں میں خاک نہ ڈال لور لور پھرکے۔“ سانولی بھی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح جھپٹی ناجی نے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔
”بس اب ہک ہور لفظ نئیں۔“ ناجی دہاڑی۔ دوسری نے یہاں سے کھسک جانا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جاہی رہی تھی کہ ناجی نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”تو کہاں چلی، بڑے مزے لے لے کے، چٹخاروں کے ساتھ قصے سن رہی تھی ہور اب جارہی ہے تو وی سن لے آج کے بعد دوبارہ توں نے زبان کھولی تو ایسا ماروں گی یاد رکھے گی۔“ وہ اس ردِ عمل کی توقع نہیں کررہی تھی بلبلا کر رہ گئی۔
وہ ان دونوں کو اسی حالت میں چھوڑتی وہاں سے چلتی بنی۔ برف گولا لینے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ سختی سے ہونٹ کاٹتی انہیں برا بھلا کہتی اسکول کے برآمدے میں آگئی۔ جہاں پینو اور بانو کھڑی کسی بات پر کھی کھی کررہی تھیں۔ وہ جل کے رہ گئی اور کلاس میں چلی گئی۔
”اسے کیا ہوا۔“ پینو نے حیرت سے پوچھا۔
”پوچھ تو ایسے رہی ہے جیسے اس دن کا واقعہ بھول گئی۔ سارے اسکول میں اس کے عشق کا چرچہ ہے۔“ بانو نے کہا۔
”چرچہ ہوا بھی تو تیری وجہ سے سب کو پکڑ پکڑ کے بتارہی تھی توں۔“ پینو نے اسے اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہا۔
”میری بلا سے بھاڑ میں جائے جب اکھ مٹکا کررہی تھی تو ساکوں کیوں بے خبر رکھا۔ بچپن ساتھ گزرا اکٹھے کھیڈتی تھیں اور اب ہمارے ساتھ ہی چھپن چھپائی کھیڈنی شروع کردی۔“ بانو پر قطعی کوئی اثر نہ ہوا۔