بیری کے درخت کی چھاﺅں تلے دھری چارپائی پر بیٹھی دونوں ماں بیٹی نظروں کے اشاروں سے ہم کلام تھیں۔ راشدہ خاتون کی آنکھیں ہزار ہا ان کہی باتوں کے راز فاش کرتی تھیں اور عابی کے کورے نینوں میں مٹیالے پانی کے موتی جھلملا رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں چادر تھی جس پر وہ گول اور چکور شیشے نسواری گوٹے کی مدد سے لگارہی تھی۔ وہ پوری محویت سے اپنے کام میں جتی ہوئی تھی کہ ماں کے یوں دیکھنے پر پریشان ہوگئی اور اسی پریشانی کے عالم میں سوئی اس کی انگلی میں چبھ گئی۔ وہ ہلکی سی سی کرکے رہ گئی اور انگلی منہ میں ڈال لی۔
”عابی جانتی ہو بیٹی کی اصل سہیلی کون ہوتی ہے۔“ راشدہ خاتون نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
”کون ہوتی ہے اماں؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ماں۔“ ماں نے پیار سے کہا۔
”وہ تو ہے اماں۔“ اس نے جواب دیا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔
”تو پھر سہیلی تو ہم راز بھی ہوتی ہے نا۔“ راشدہ خاتون نے کہا۔
”بالکل اماں ہوتی ہے ہم راز تو؟“ عابی نے چادر پر سوئی لگائی اور اسے رکھ دیا۔
”اگر ایسا ہے تو پھر میں تیری سہیلی ہوئی اور ہم راز بھی ہے نا۔“ وہ اب ایک ٹک ماں کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ بنا پلک جھپکائے۔
”اماں سیدھی سیدھی بات کر، گول مول باتیں کیوں کررہی ہیں۔“ اس نے الجھ کر کہا۔
”میرے سر کی قسم کھا کے بول! کہ جو پوچھوں گی تم کیا، کیوں، نہیں اور کیسے کہے بغیر جواب دوگی اور جو کہوگی سچ کہوگی سچ کے سوا کچھ نہیں۔“ راشدہ نے اس کا دایاں ہاتھ اٹھا کے اپنے سر پر رکھ دیا۔ وہ اس افتاد پر سٹپٹا کے رہ گئی۔ سر پر رکھا ہاتھ تھر تھر کانپتا اور ہونٹ لرز رہے تھے۔
”پہلا سوال! یہ بتاﺅ رات کو جب میں اور سجاول سو رہے ہوتے ہیں تو تم اٹھ کر صحن میں انگلیاں مروڑتے ہوئے ٹہلتی ہو تو کسے سوچتی ہو؟“ وہ تو سچ مچ سوچ میں پڑگئی کہ اماں کو کیسے خبر ہوگئی کہ وہ بستر چھوڑ کے ٹہلتی ہے تو کسی کو سوچتی بھی ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ یہ سوال پوچھے کہ ”اماں تجھے کیسے پتا چلا کہ بستر چھوڑتی ہوں تو صحن میں ٹہلتے سوچتی ہوں کسی کو۔“ لیکن وہ بڑے جتن کرکے ضبط کیے ہوئے سوال پی گئی۔
”یوں گھور کے کیا دیکھ رہی ہو اور یہ میرے سر پر رکھا ہاتھ کانپ کیوں رہا ہے۔ اسی لیے نہ کہ جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی میں نے، یا پھر اس لیے کہ جھوٹ کا سرا چھوٹنے سے بے حد ملال ہے تجھے۔ خیر اب ڈولتے وجود کو ڈھارس دے اور جواب دے اور جواب سے پہلے یاد رکھو کیا، کیوں، نہیں اور کیسے والا آپشن بھی نہیں ہے تمہارے پاس۔“ راشدہ خاتون نے اک اک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کیا۔ اب تو خوف سے زیادہ حیرت تھی اسے کہ وہ میٹرک پاس کی ڈگری جو اماں نے برسوں پہلے لے کر جیسے مٹی میں دفن کردی تھی اب کیسے برآمد ہوگئی۔ گاﺅں کے ماحول میں ڈھل کر رچ بس کر اماں کو تو سارے لفظوں کے کھیل بھول بھال گئے تھے۔ اب ایسے جادو کے چراغ کی طرح پھوٹ پڑے کے جیسے برسوں سے بند پڑی نہر کا پانی کھل گیا ہو۔
”یوں ہی چُپ کی رہوگی تو مجبوراً مجھے کوئی سخت لائحہ عمل اپنانا پڑے گا۔“ اب کی دفعہ راشدہ خاتون نے غصے سے کہا۔
”کسی کو نہیں اماں میں بھلا کسے سوچوں گی!“ پہلا تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
”میں نے کہا نہیں والا آپشن نہیں ہے تیرے پاس۔“ راشدہ نے گرج کر کہا۔
”ابا یاد آتے ہیں اماں ان ہی کو یاد کرتی ہوں۔“ جھوٹ بولتے ہوئے وہ ماں کی آنکھوں سے آنکھیں نہ ملا پارہی تھی۔
”ادھر دیکھو تو میری طرف اور بتاﺅ تو جسے سوچتی ہو وہ ابا ہی ہے نہ؟“ راشدہ خاتون نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چارپائی کی طرف جھکتا ہوا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا۔
”بس کوئی ہے اماں۔“ اس نے بے زاری سے جواب دیا۔
”میں بھی جانتی ہوں کہ ”کوئی ہے۔“ اب وہ ”کوئی ہے۔“ کون ہے؟ یہ جاننا ہے مجھے۔“ انہوں نے درشتی سے کہا۔
”اماں کیا کروگی جان کر جانے دو نہ یہ قصہ مجھے یہ چادر مکمل کرنی ہے۔ خالہ لینے آجائے گی شام کو۔“ اس نے دوسرے ہاتھ سے چادر اٹھالی اور دایاں ہاتھ جو ماں کے سر پر تھا ہٹا دیا۔
”میں کہتی ہوں ہاتھ رکھو سر پر پھینکو اس چادر کو، عدالت میں پیشی مہینوں بعد ہوتی ہے اور ملزم کٹہرے میں بڑے مرحلوں سے گزرنے کے بعد کھڑا ہوتا ہے۔ کٹہرے کی تحویل میں قسم کھا کے کھڑی ہو تو میرے کلیجے کو چھلنی کرنے کے بجائے خود کی سوچو عابی کہ عدالت برخواست ہوگئی تو قسم کھا چکنے کے بعد بھی بولے گئے ہزاروں جھوٹوں کا بوجھ کیسے لادوگی اپنے کندھوں پر، بی بی اتنی ہمت ہے تم میں کہ اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے گنوادو۔ میں کہتی ہوں اور سچ کہتی ہوں کہ آخری کتاب پر ہاتھ رکھے کیے گئے عہد کا قرض چکانا اور حساب میں پورا اترنا بڑا جان جوکھوں کا کام ہے اور دوسرا ماں کے سر پر ہاتھ رکھ کے قسم کھا کے سچ کی سولی چڑھ جانا تکلیف دہ ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔ اسی لیے ڈرو نہیں شکر کرو کہ تمہارا جج تمہاری ماں ہے، بے فکر رہو فیصلہ معاون ثابت ہوگا تمہارے لیے۔“
کم از کم آج کے دن وہ پھنس چکی تھی اور بڑی بری پھنسی تھی۔
”بولو خاموش کیوں ہو؟“
”گاﺅں، جھوک کا ہے اماں۔“ جھوٹ کا سہارا لینا آسان اور سہل ہوتا ہے اور سچ بولنا انتہائی مشکل…. کم از کم آج کے روز اسے ایسا ہی لگ رہا تھا۔
”اچھا گاﺅں کا ہے، اب یہ بھی بتادو کہ کیا سوچتی ہو اس کے بارے میں۔“ وہ کسی ماہر وکیل کی طرح سوال کررہی تھیں۔
”اب یہ نہ کہنا کہ یوں ہی سوچتی ہو زمانے کے چلن کا اچھی طرح سے اندازہ ہے مجھے، اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہوں۔ بیٹی کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر کیسے قیاس آرائیاں نہ کروں گی۔ اور ان قیاس آرائیوں کے سو فیصد درست ہونے پر بھی پورا پورا یقین ہے مجھے، اب اگر تم اپنے منہ سے بک دوگی تو میرے یقین کے اشٹام پیپر پر مہر لگ جائے گی۔“
”اچھا لگتا ہے وہ مجھے پسند کرتی ہوں اسے۔“ اس نے یہ الفاظ کہتے ہوئے خود کو پل صراط پر سے گزرتے پایا تھا۔
”چل جی شاباش دے مجھے، پچاس فی صد درست ہوئی ہوں فی الحال یہ بتا تو بھی اچھی لگتی ہے اُسے۔“ انہوں نے اب بال کی کھال نکالنے والا کام شروع کردیا تھا۔
”پتا نہیں۔“ اس نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”مخول کرتی ہے میرے ساتھ ماں کو الو بناتی ہے، سیدھی طرح یہ کیوں نئیں بتاتی کہ معاملہ یک طرفہ ہے۔“ انہوں نے بم پھوڑا۔ وہ دم بہ خود حیرت سے ماں کو تکے گئی۔
”بی بی جب عشق کی آگ دونوں جانب لگی ہوتی ہے تو دونوں فریقوں کے چہرے سرخ انار کی طرح گلنار ہورہے ہوتے ہیں۔ بات بے بات ہنستے ہیں، موقع بے موقع گنگناتے ہیں۔ قدم رکھتے کہیں اور پڑتے کہیں والی صورت ہوتی ہے اور تمہارا چہرہ تو ایسا پیلا پڑگیا ہے جیسے ہلدی کا رنگ چڑھ گیا ہو۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ٹہلنا، آنسو بہانا یک طرفہ محبت کرنے والوں کا شیوہ ہوتا ہے۔“ راشدہ خاتون نے ہولے ہولے کہا۔
”ہاں اماں صرف میں ہی۔“ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ راشدہ خاتون اٹھیں اور پانی بھر لائیں۔
”یہ لے پانی پی۔“ انہوں نے گلاس تھمایا۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی سارا پانی غٹاغٹ پی گئی۔
”اب مجھے اس کا نام بتا۔“ انہوں نے نام پوچھا۔
”رو، روح ی ل، روحیل۔“ اس نے ہچکیوں میں بندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
”رو، رو، رو، حیل، اپنا مشتاق احمد کا بیٹا، ناجی کا بھائی صفیہ دا پتر نا۔“ راشدہ خاتون نے اب کی بار پہلی مرتبہ لرزتی کانپتی آواز میں کہا تھا۔ عابی کو بھی پہلی دفعہ ان کے اس جملے میں عجیب سی لرزش کا احساس ہوا تھا۔
”ہائے میں مرگئی۔“ راشدہ خاتون نے چھاتی پر دو ہتھڑ مارے اور چارپائی پر ڈھے گئیں۔ عابی فوراً اٹھی اور پانی بھر لائی اور ماں کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔ وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آرہی تھیں۔
”عابی اے کدھر دل لگا بیٹھی، کتھے نین لڑا بیٹھی، کتھاں عشق راچن چڑھا بیٹھی توں بڑے اوکھے لوکاں دل دے بیٹھی، توں انپڑاں آپ گنوا بیٹھی، توں کیا کر بیٹھی، کیا کر بیٹھی۔“ راشدہ خاتون گاڑھی پنجابی میں بول رہی تھیں اور عابی کی حالت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی سی تھی۔ بیری کی شاخوں پر کوﺅں نے ڈیرا جمایا۔ ان کی کائیں کائیں تھیں، گلہریاں دندناتی پھرتی تھیں اور نلکے سے پانی موٹر کے بغیر بہے جارہا تھا۔ وہ اس سب سے بے خبر ماں کو تکے جاتی تھی۔
٭….٭….٭