رات کا نزول ہوچکا تھا اور آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کا جھرمٹ تھا۔ ترتیب سے لگائی گئی چارپائیوں پر سوئے نفوس نیند کی وادیوں کے مزے لوٹ رہے تھے۔ چارپائیوں کے سامنے لگے پنکھے کی گھڑ گھڑ کا شور تیز تھا اور جالی کے اندر سے بھی گھس آنے والے مچھر نے ان کی نیند میں خلل ڈالنا ضروری سمجھا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ پنکھا بند ہوگیا۔ مچھروں کا جالیوں پر سے منڈلانا مزید سہل ہوگیا۔ ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی اور ان سب پر آئے پسینے کی ننھی ننھی بوندوں نے انہیں بھگونا شروع کردیا تھا۔
”بجلی والوں کا بیڑا غرق ذرا دیر کودی تیں پھر غائب۔“ صفیہ کے ماتھے پر مچھر نے کاٹا تھا۔ اس نے ایک پاﺅں سے دوسرے پاﺅں کو رگڑا اور غصے سے منمنائی ۔
”اماں ابے کو جگاکر بول خراٹے تو بند کرے اپنے ہک تو بجلی نئیں ہے اُتوں ابے دے خراٹے۔“ ناجی نے کان کے گرد منڈلانے والے مچھروں کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر کرتے کہا۔ اس نے صفیہ کی چارپائی کی طرف کمر کی ہوئی تھی۔ کمر سیدھی کرکے جالی میں جھانکا تو اماں بستر پر نہیں تھی۔ اس نے تکیے کے نیچے پڑی ٹارچ کی روشنی سے دیکھا تو وہ گھڑے کے پانی سے اپنا دوپٹا گیلا کرتی نظر آئی۔ وہ گیلے دوپٹے کو اپنی گردن پر پھیرتی چارپائی کی جانب آرہی تھی۔ قریب آئی تو ناجی نے جالی سے بازو نکال کر اپنا دوپٹا بھی اماں کے حوالے کرنا چاہا۔
”میرے کو بھی گیلا کردے نہ اماں! بڑی گرمی ہورہی ہے۔“ اماں نے کھینچنے والے انداز میں دوپٹا اس سے لیا اور گھڑوں کی طرف پلٹی۔
”یہ لے ہور تیکوں چنگی طرح پتا ہے پیو دا، ساری رات خراٹے مارے گا۔ کھا کھا کے ایڈا وڈا ڈیڈھ (پیٹ) جو نکال لیا ہے۔“ اس نے بے زاری سے جالی میں گھستے ہوئے شوہر کو دیکھ کر کہا۔
”اماں پھر چاچے کرامت کا قصہ لے کے نہ شروع ہوجانا۔ میکوں سونڑ دے۔“ ناجی نے بے دلی سے کہا اور دوپٹا اپنے اوپر پھیلالیا۔ ٹھنڈے دوپٹے نے گرمی کو توڑا۔ وہ سیدھی چت لیٹ کر تاروں کو تکے گئی۔ آسمان پر اسے سجاول کا عکس بنتا بگڑتا دکھائی دیا۔ پھر ایک فلم سی چلنے لگی۔ کشتی کی سیر، کھوئے والی قلفی، اس جوگی کی باتیں، اس کے گیت اسے سب یاد آنے لگا۔ صفیہ نے کروٹ بدل کر بازوﺅں کا تکیہ بناکر کرامت کو سوچا اور مسکاری۔ اس کے چہرے پر بکھرا ہوا تبسم عجیب سا تھا۔ دونوں ماں بیٹی نے خیالوں کی ڈور ڈھیلی چھوڑ دی اور اس کا سرا اپنے اپنے من پسندوں کو تھما دیا۔ ”میڈی محبت سچی ہے، سجاول دا عشق کھرا اور ساڑے جذبے سچل اسی ضرور ہک ہوں گیں۔“
کرامت کتھے جاکے وس گیاں تو اپنی جھوکاں کوں چھوڑ کے۔“ صفیہ منمنائی۔
شکر ہے آج بچ گئی اماں، ابے اور بھرا کو خبر ہوجاتی تو میرا سکول جانا بند ہوجاتا۔“ اس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔
”میرے ہتھ دا پکا سرسوں داساگ تیں جواردی روٹی کیویں شوق نال کھاتا تھا۔ میں اتنی لذیذ کھانے کھواندی رہی توں کسی ہور کو دل دے بیٹھا۔“ صفیہ کی آنکھوں سے آنسو چھلکے اور تکیے میں جذب ہوگئے۔
٭….٭….٭