محبت کے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر اسے ساری ریت روایات بھول بھال گئیں تھیں۔ اسے وہ سبق یاد نہ رہا جو اسکول میں استانی پڑھاتی تھی۔ اس نے بہت بڑا کٹھن اور دشوار سبق ازبر کرلیا تھا جسے ذہن نشین کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔ پر اس کا کیا جاتا تھا بھلا! اس کے خیال میں اسے کون پوچھنے والا تھا۔ بھلا! جو جی میں آئے کرتی پھرے عشق ہی تو کیا ہے کوئی گناہ تھوڑی…. بس یہی سوچ تھی اس کی اور یہی اس کی سوچ کا نقطہ…. نقطہ اوّل بھی یہی اور نقطہ آخر بھی یہی….
فقط آدھے گھنٹے کا تو سفر تھا اور اس آدھ گھنٹے کے سفر میں وہ ہنستی رہی، مسکاتی رہی اور چہچہاتی رہی۔ سجاول نے خود ہی تو کہا تھا کہ کس نے دیکھنا ہے ان دونوں کو سب اپنے اپنے کاموں میں محو اور مگن ہیں۔ اسے تو بس اِن حسین لمحات کی فکر تھی، ان حسین لمحات کو جتنا دلکش بناسکتی تھی، جتنے رنگ ان گھڑیوں میں بھرسکتی تھی۔ اس کی تگ ودو کرتی رہی۔
اور وہ من موجی سا،نٹ کھٹ سا،شریر سا،لاابالی سا اور جنونی سا سجاول سلطان احمد اس کے سنگ سنگ عشق وادی کی سیر کرتا رہا کرواتا رہا۔
وہ وادی جہاں سرسبز گیلی گیلی سی گھاس پر وہ دونوں چل رہے تھے اور گلاب کے پھولوں کی کیاریاں اور چنبیلی کے پھولوں سے اٹھتی بینی بینی مہک اور خوشبو ان کا استقبال کررہی تھی۔ دوسری جانب تونسہ بیراج میں بہتا کئی دریاﺅں کا سنگم اور اس کی تلاطم خیز موجیں انہیں بار بار اپنی طرف متوجہ کررہی تھیں۔
”سجاول مجھے کشتی میں بیٹھنے کا بڑا شوق ہے۔ چل نہ کشتی میں بیٹھتے ہیں۔“ ناجی نے کھوئے والی قلفی کی ڈنڈی پھینکتے ہوئے کہا۔
”میری شہزادی فرمائش کرے اور میں پوری نہ کروں یہ ہوسکتا ہے چل آجا۔“ اس نے اس کا نازک ہاتھ تھاما اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ اپنے پریت کی پریت میں جھومتی جھومتی کشتی میں سوار ہوگئی۔ کشتی والے نے کشتی چلادی اور لہروں کے ہمراہ گردش کرتی رہی۔
وہ بھولی سی، نادان سی، منچلی سی لڑکی دریا کی موجوں میں ہاتھ مارنے لگی اور اپنے محبوب پر پانی مٹھی بھر بھر پھینکنے لگی۔
”کتنا خوبصورت نظارہ ہے سجاول۔“
”تیرے ساتھ کٹتا ہر پل خوبصورت ہے ناجی۔“
”مخول نہ کر جھوٹا۔“
”تیری قسم۔“
”جھوٹی قسم کھاتا ہے میں مرگئی تو۔“
رب دی سوں جھوٹا نئیں میں۔“
”تیں اتنا سچا وی نئیں تُو۔“
”مجھے پہ یقین نہیں ہے تیرے کو۔“
”میں نے یہ کب کہا سجاول۔“
”قسم اٹھانے پر مجبور جو کرتی ہے۔ میری ان آنکھوں میں دیکھ صرف تو ہی تو بسی ہے۔“
”ڈرامے باز نہ ہووے تاں، سامنے جو بیٹھی ہوں تو میں ہی نظر آﺅں گی نہ۔“
اور پھر کشتی کنارے لگ گئی اور دونوں کے لب ساکت ہوگئے۔ آسمان پر بادلوں نے بسیرا کرلیا اور آہستہ آہستہ سارا نیلا آسمان بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔ پھر کہیں دور سے بانسری کی آواز سنائی دینے لگی۔ سرائیکی گیت گانے والے کی آواز میں بسا درد اور جنون ان دونوں کو کسی اور دنیا میں لے گیا۔
”ہرویلے خون رونیدے میکوں سانول بے وفا۔“
(ہر وقت خون کے آنسو رلاتے ہو مجھے اوسانول بے وفا)
”جے کر مائے کولوں تنگ ہیں مروناں کر دُعا۔“
(اگر مجھ سے تنگ ہو تو دُعا کرو کہ میں مرجاﺅں)
”سجاول اس کی آواز کتنی دردیلی ہے نہ۔“ ناجی بولی۔
”ہاں ناجی شوہدا عشق میں ناکام ہوا لگتا ہے۔“ سجاول بولا۔
”چل سجاول اس کے پاس چلتے ہیں دیکھیں تو عشق میں ٹھوکر کھانے کے بعد بندہ کیسا دکھتا ہے۔“ ناجی نے اس کے پاس چلنے کے لیے اصرار کیا۔
جھلی ہوئی ہے کیا پتا نئیں کون ہے کون نئیں میں نئیں جُلتا (چلتا)۔ سجاول نے انکار کیا۔
”کون کیا مطلب ہمیں کھائے گا تھوڑی چل۔“ ناجی نے ضد کی۔
”اچھا چل۔“ سجاول کو ماننا ہی پڑا۔
ریت کے ٹیلوں پر چلتے چلتے وہ دونوں کیکروں کے جھنڈ کے پاس آگئے اور وہ نماڑا وہیں بیٹھا نظر آگیا۔ بانسری والا اٹھ کر جارہا تھا جب کہ گانا گانے والے نے نیا گیت چھیڑ دیا تھا۔
پتا کائے نی حیاتی داولاہک وار آمیڈو
(پتا نہیں ہے زندگانی کا دوبارہ ایک بار میری طرف آﺅ)
طبیب آرین کہ نا ہے بچدا مائیں ہاں بیمار آمیڈو
(طبیب کہتے ہیں کہ تم نہیں بچتے میں ہوں بیمار میری طرف آﺅ)
اس کی آنکھوں میں ویرانی کا جال بکھرا تھا۔ ہونٹ پھٹے ہوئے، ہاتھوں پیروں پر میل جمی تھی اور کہیں کہیں پھٹی ہوئی ایڑیوں سے خون رس رہا تھا۔ بڑھی ہوئی شیو اور بالوں میں ریت اور مٹی کے ذرے بھرے تھے۔ اس کے نین نقش اچھے تھے، لیکن سگریٹ اور نشے کی زیادتی نے اس کے چہرے کے زاویوں کو بگاڑ دیا تھا۔ میلے، بوسیدہ گنجلک لباس پر داغوں کا ڈھیر تھا۔ وہ اتنی سریلی اور پیاری آواز کا مالک اپنا سب کچھ گنوادینے کے بعد اس آواز کو ہی بچا پایا تھا اور اس میں کہیں زیادہ ہاتھ اس کے ہجرو وصال کی داستان کا تھا۔
”تمہاری آواز کتنی سریلی ہے جو کانوں میں رس گھولتی ہے پر تیرا یہ حلیہ کیا گھر سے بھاگا ہے یا عشق کا مارا ہے۔“ سجاول نے اس سے سوال کیا اور وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا اور بولا۔
”میڈی آواز کیا! تیں میڈا حلیہ کیا! اے تساں بھلے لوکاں دی چنگائی ہے جو میڈی آواز تساں کوں چنگی لگدی ہے۔ نتاں جے میڈی آواز بہوں چنگی ہووے ہا مائیں سوہنڑا ہو واں ہا۔ تاں اومیکوں چھوڑے ہا۔“
(میری آواز کیا! اور میرا حلیہ کیا! یہ تم بھلے لوگوں کی اچھائی ہے جو میری آواز تم لوگوں کو اچھی لگتی ہے۔ اگر میری آواز بہت اچھی ہوتی یا میں خوبصورت ہوتا تو وہ مجھے چھوڑتی)۔ اس نے جملہ مکمل کرنے کے بعد جیب سے سگریٹ نکالی اور بے چارگی اور بے بسی سے اسے تکے گیا۔
”ایہاں سگریٹ ہے میڈا سب کج بس، پیواں تاں سارے غم بھل و ناں ناں پیواں تاں مروناں۔“
(یہی سگریٹ ہے میرا سب کچھ بس پیوﺅں تو سارے غم بھول جاﺅں نا پیوﺅں تو مر جاﺅں۔)
اس نے ماچس کی تیلی جلائی سگریٹ سلگائی اور لمبے لمبے کش بھرنے لگا۔
”اماں آکھاہا اُکوں پیار نہ کر، ابے آکھے جھتاں مائیں آکھے،اتھاں پرنیج یتیں اوں آکھے میڈا پیچھا کر نڑ چھوڑ ڈے تیں مائیں آکھے مائیں تہاکوں سارے کوں چھوڑ ڈینداں۔“
(امی نے کہا تھا اس کو پیار نہ کر ابو نے کہا جہاں میں نے کہا وہاں شادی کرو اور اس نے کہا میرا پیچھا کرنا چھوڑ دو اور میں نے کہا میں تم سب کو چھوڑ دیتاہوں۔)
اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں لہجے کی کاٹ اور تلخی بڑھ رہی تھی اور وہ وحشت زدہ سا ناجی اور سجاول کو خوف زدہ کررہا تھا۔
”میکوں لگدے توں ایکوں پسند کر یندے، میڈا بھرا میڈی من تاں چھوڑ اے عشق وشق کوئی کائے نی پیار کر نڑ آلیں دامیڈی کار رُل ولیں ۔“
(مجھے لگتا ہے تم اسے پسند کرتے ہو میرے بھائی میری مانو تو چھوڑ دو یہ عشق وشق کوئی نہیں ہے پیار کرنے والوں کا ۔ میری طرح رُل جاﺅگے) اس نے سجاول کی طرف اچٹتی سی نگاہ ڈال کر کہا۔
”کیوں رُلے گا یہ پاگل تو تم ہو جو ذرا سی تکلیف وی نئیں سہ پایا ہور سب کچھ تیاگ کرکے اے روگ پال لیا۔ میں ہور سجاول بڑے صبر والے ہیں۔ اپنے عشق پہ آنچ وی نہ آنے دیں گے۔ زمانہ بھاویں جو مرضی کہے ہم ایک ہوکے رہیں گے۔ وڈا آیا خود ناکام عاشق اور ہمیں لگا عاشقی کا قاعدہ پڑھانے۔“ ناجی کو اس کی کہی بات ہضم نہ ہوئی تھی اور نہ برداشت تب ہی آگ بگولا ہوگئی۔ ”چل سجاول چھوڑ اس جھلے کو میری مت ماری گئی جو تجھے لیے یہاں آگئی۔“ ناجی نے سجاول کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے جانے لگی۔ سجاول کے قدم اٹھ نہیں پارہے تھے۔ اس کا ارادہ یہاں ٹھہر کر اس بھولے بادشاہ سے اس پر بیتی کہانی کا احوال سننے کا تھا۔ پرناجی شدید غصے میں لگ رہی تھی اور وہ اپنے عزائم کی بڑی پکی تھی اس لیے چل دیا۔ سجاول نے چلتے چلتے مڑ کر دیکھا تو کوﺅں کی فوج نے اس نوجوان کے دوسری جانب پڑی ہڈیوں پر دھاوا بول دیا تھا اور وہ سب سے بے نیاز کسی نئے گیت کو گانے کی تیاری کررہا تھا۔ ابھی وہ دونوں اس سے چند قدم ہی دور ہوئے تھے کہ اُس کی آواز گونجنے لگی۔
ساڈی تاں خیر اے ڈھولا میڈا
(ہماری تو خیر ہے ڈھولا میرے)
غیراں دے سنگ توں عیداں منا
(غیروں کے سنگ تم عیدیں مناﺅ)
ساڑھی نبھے سی ساڈا خدا
(ہماری ہمارا خدا نبھائے گا)
غیراں دے سنگ توں عیداں منا
(غیروں کے سنگ تم عیدیں مناﺅ)
٭….٭….٭