آج بڑے زوروں کی گرمی پڑرہی تھی۔ دوپٹے کا پلو جھل جھل کر اس کی حالت خراب ہوگئی تھی اور سب سے زیادہ ترس اسے ان بچوں پر آرہا تھا جو پسینے سے شرابور تھے۔ زمین سے آگ نکل رہی تھی اور ٹاٹوں پر بیٹھے وہ ننھے منے معصوم چہروں والے بچے بہ مشکل اتنی شدید گرمی برداشت کرپارہے تھے۔ اسکول کا معائنہ کرنے والی تحقیقاتی ٹیم بس آنے ہی والی تھی۔ اس نے رٹو طوطے کی طرح بچوں کو تمام باتیں رٹوادی تھیں۔ اس نے انہیں اردو کا سبق پڑھوا کر کتابیں بند ہی کروائیں تھیں کہ تمام بچے پیاس کی شدت سے بے چین ہونے لگے۔ ایک نے پانی پینے کی اجازت طلب کی تو سارے ہی باری باری اٹھتے رہے اور وہ اجازت دیتی رہی۔ برآمدے کی جانب دو مٹکے رکھے تھے۔ تمام بچے پانی پینے لگے۔ یہ جمگھٹا سا پانی پی ہی رہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم آگئی۔ اس نے سب سے پہلے جس شخص کو اسکول کی کھنڈر نما عمارت میں آتے دیکھا، تو دنگ رہ گئی۔ کتنی ہی دیر تک اسے یقین ہی نہ آیا کہ سامنے سے گزر کر بچوں کی طرف آنے والا شخص وہ ہے۔ اس کے پیچھے افسر تھے جو ایک ایک چیز کا بے حد باریک بینی سے مشاہدہ اور تجزیہ کررہے تھے اور اپنے ہمراہ لائی گئی فائلوں میں پوائنٹس درج کررہے تھے۔ اوورآل عمارت دیکھنے کے بعد اب ان کا رخ اس کی پولٹری فارم نما کلاس کی جانب تھا۔ اس نے اپنے ہوائیاں اڑتے چہرے کے تاثرات درست کیے اور وہ کسی حد تک کامیاب ہو بھی گئی تھی۔ پھر آنکھ کے اشارے سے تمام بچوں کو الرٹ کیا اور بازو باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس امر سے بے خبر کہ وہ چند قدم بڑھا کر اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ اس سے قبل کہ آفیسر کوئی سوال کرتے، ایک بچہ خود ہی کھڑے ہوکر ساری روداد سنانے لگا۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ رہے تھے اور وہ پھر بھی بول رہا تھا۔ کیوں کہ اسے اس بات پر سو فیصد یقین تھا کہ آج اگر اس نے سلے لب کھول لیے تو وہ یہاں کے کئی بچوں کی آواز بن جائے گا اور اس میں کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں تھی۔ پھٹے ہوئے ٹاٹ، دیواروں کی دراڑوں سے نکلتی چیونٹیوں، چھوٹا سا سلیٹ نما تختہ سیاہ جسے دو لکڑیوں کے سہارے مضبوطی سے کھڑا کردیا گیا تھا۔ ٹوٹی ہوئی گارے مٹی، بھوسے سے بنی برآمدے کی چھت کے نیچے بیٹھے وہ بچے پڑھ تو رہے تھے۔ پر ساتھ ہی ساتھ گھر میں واحد اور اکلوتے آنے والے چینل پی ٹی وی ہوم پر انہیں اس طرح کے کئی اسپانسر دیکھنے کو مل جاتے تھے۔ کئی معلوماتی پروگراموں کی صورت میں انہیں اس معمّے کا بہ خوبی ادراک ہوگیا تھا کہ اگر ان کے لیے تعلیم ضروری ہے تو تعلیم کے حصول کے لیے بنیادی اشیا کی صحیح طور پر فراہمی بھی ضروری ہے اور یہاں تو اک اک شے کا فقدان تھا اور سب سے بڑھ کر جب کمرا جماعت نہ ہو، سر پر سایہ نہ ہو، کھیلنے کی جگہ نہ ہو۔ وہاں ڈپریشن، پریشانی اور منفی سوچوں کے زیر اثر کیسے پڑھا جائے؟
خیر اس لڑکے کی ساری باتوں کا لب لباب یہی نکلتا تھا کہ ہر صورت تعلیمی نظام کو بدحالی سے بچانے کے لیے اسے بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر اس نے کہا کہ لاکھوں روپے کے آنے والے فنڈز کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ اسکول کی میڈم شہر میں مزے کررہی ہیں۔ یہاں آنے کی زحمت نہیں کرتیں اور گزشتہ سالوں سے تین ہزار روپے ماہوار پر مامور دو استانیاں ہی اسکول کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔
”تو استانی صاحبہ آج تو آپ کے یہ طالب علم بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ اچھی خاصی تربیت کی ہے آپ نے ان کی۔“ روحیل مشتاق نے مزہ لے کر کہا۔ وہ جو ابھی تک ہی اک ٹرانس کی سی کیفیت میں مبتلا کھڑی تھی۔ بری طرح سے چونک گئی اور گڑبڑا کر بولی۔
”یہ میری ٹریننگ نہیں ان بچوں کے اپنے بھی احساسات ہیں، روبوٹ نہیں ہیں یہ تعلیم ان کا بنیادی حق ہے اور پرسکون ماحول تلے حصولِ تعلیم اشد ضرورت۔“ وہ اک حساس دل کی مالک لڑکی تھی۔ بچوں کی کیفیت دیکھ کر اس کے لہجے میں تلخی حلول کر گئی۔
”درست فرمایا! فکر اور پریشانی کی ضرورت نہیں۔ نئے اسسٹنٹ کمشنر نیک نیت انسان ہیں اور اسی نیکی کے جذبے سے یہاں آئے ہیں۔ آنکھوں دیکھا حال ان کے سامنے ہے۔ بہتری ضرور آئے گی۔“ اس نے نرمی اور ملائمت سے کہا۔ اسے بھی شاید ایسے ہی تسلی آمیز لہجے کی ضرورت تھی۔
وہ بولی۔ ”دعا کرو روحیل مجھ سے یہ سب دیکھا نہیں جاتا۔ میں آرام سے گھر میں بیٹھ کر ابا کی پنشن پر عیش کرسکتی ہوں۔ ہم کھانے والے ہیں ہی کتنے صرف تین جی۔ پر گھر سے یہاں تک آنے کی مسافت صرف انہی کی خاطر طے کرتی ہوں یہ کچھ بن گئے تو میں سب کچھ پالوں گی۔“
”عابی مجھے تمہاری یہی سوچ پسند ہے۔ تم دوسروں کا احساس کرتی ہو، ان کے لیے دکھی رہتی ہو۔ خدا تمہاری مشکلیں ضرور آسان کرے گا۔ روحیل نے دُعائیہ انداز میں کہا۔
”(تم کیا جانو روحیل مشتاق کہ میرے لیے سب سے بڑی آزمائش، مشکل اور امتحان تو تم ہو۔ اگر تم میرے دل کا دریچہ کھول کر دیکھ لو تو جان جاﺅگے۔ کاش کہ میرا چہرہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ دھڑکتے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بھی بھانپ جاﺅ کاش)“ اس نے دل میں پلنے والی خواہش کا گلا دبوچا اور خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔ روحیل امان بیگ صاحب کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور عبیرہ نے چھلکتی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔
اگلے سیشن میں عبیرہ، روحیل اور عبیرہ کی کولیگ نادیہ اور امان بیگ کے درمیان طویل بحث ہوئی جس کا بیشتر حصہ اسکول کی عمارت کو (Re-build) کرنے اور تمام سہولیات فراہم کرنے پر تھا۔ عبیرہ پریقین تھی کہ امان بیگ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے اور ایسا بہت جلد ہونے والا تھا۔
٭….٭….٭