سردی کے یخ بستہ دنوں کا ایک دن ہے،دھند ابھی چھٹی نہیں ہے۔کھیت کھلیانوں میں شبنم سے بھیگی ہوئی فصل قطرہ قطرہ شبنم گراکر کچی زمین کو بھگو رہی ہے۔بیری کے درختوں پر بیر پک چکے ہیں، سرخ سرخ پکے بیر۔ کھیت کے بیچ و بیچ نصب ٹیوب ویل سے پانی چالو ہوچکا ہے۔گندم کی فصل پر شبنم کی اوس پڑی ہے۔سفید سفید سی خوب صورت بطخیں ایک ٹولی سی بنائے بیٹھی ہیں۔کوئل کی کو کو ہے اور چڑیاںچہچہا رہی ہیں۔ایک من چلا سا پھٹی پرانی چادر پہنے زمانے بھر کی خاک اپنے سر پرجمائے گیت گانے کی کوششوں میں ہے۔اس کا گلا اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ دوسری جانب اس کے بے حد قریب بیٹھے شخص نے بانسری بجانا شروع کردی ہے۔
بانسری کی آواز اس خوب صورت نظارے کو اور دل فریب بنارہی ہے۔
اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سینوں سے سپارے لگائے گزر رہے ہیں۔
سائیکل پرسوار لڑکے کی سائیکل کی چین اتر گئی ہے، وہ بہت عجلت میں لگ رہا ہے۔اس نے زردی مائل رنگ کی یونی فارم پہن رکھی ہے۔
ایک کسان اپنے کھیتوں میں ہل چلارہا ہے۔
کوئی چرواہا اپنی بکریوں کا ریوڑ لیے رواں دواں ہے۔
کچے گھروں کی چمنیوں اورانگیٹھیوں سے دھواں نکل رہا ہے۔
کہیں پراٹھے پک رہے ہیں،تو کہیں انڈے فرائی ہورہے ہیں۔
بستی کی شان، بستی کی خوب صورت سی حویلی میں ایک چہل پہل سی برپاہے۔ سب اپنی اپنی تیاریوں میں مگن ہیں۔چھوٹی عمر کی نوکرانیاں کہیں لسی بلورہی ہیں تو کہیں مکھن کے پیڑے بنا بنا نکال رہی ہیں۔ کوئی گندم کے دانے چھن رہی ہے تو کوئی چاول صاف کررہی ہے۔
وہ سفید کاٹن کا کلف شدہ سوٹ پہن کر آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ رہا ہے۔ اسے اپنی تصویر میں باپ کا عکس دکھائی دے رہا ہے۔وہ تلخ سی مسکراہٹ اچھال کر آئینے سے منہ پھیرلیتا اور گھڑی اٹھا لیتا ہے۔وہ اپنی کلائی پر گھڑی باندھ رہا ہے۔ اب وہ جرابیں پہن رہا ہے۔اس کی بیوی نے اس کے آگے شوز رکھ دیے ہیں۔ اب وہ بڑی تابع داری سے اپنے سرتاج کو بوٹ پہنا رہی ہے۔ بوٹ پہننے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اب وہ کمرے سے باہر نکل رہا ہے۔ سب نوکرانیوں کے ہاتھ رک گئے ہیں۔وہ شان کی شان ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ادب سے اٹھنا چاہ رہی ہیں۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا ہے، وہ بیٹھ گئیں ہیں۔اب وہ حویلی کے مین گیٹ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ماں نے اس کی بلائیں لی ہیں اور کچھ لگتے کو یاد کرکے دو ٹسوے بہا کر دوپٹے کے پلو سے صاف کیے ہیں۔وہ مین گیٹ کے پاس پہنچ چکا ہے۔دائیں بائیں کھڑے وزیر مشیر سرجھکائے کھڑے ہیں۔بڑی عمر کے بابا کے ہاتھ میں اونچی سفید پگڑی ہے۔اب وہ باہر نکل رہے ہیں۔جیسے ہی وہ باہر نکلتے ہیں،میراثی ڈھول بجانا شروع کردیتے ہیں۔ اب وہ اپنی جگہ پر جارہے ہیں،مردان خانے۔وہ وہاں پہنچنے کو ہیں۔پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جارہی ہیں۔سردار شان خان کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔اب وہ اپنی کرسی پر جاکے بیٹھ گئے ہیں،ڈھول بجنا بند ہوگیا ہے۔ٹاٹوں پر بیٹھے چھوٹے بچے انہیں دیکھ رہے ہیں۔چھوٹی چھوٹی چوکیوں پربیٹھے مرد اپنے دل کی دھڑکن کی رفتار کا اندازہ لگارہے ہیں،انہوں نے بولنا شروع کردیاہے۔
”میں شان خان ولد سردار خالد خان ایک جابر باپ کا بیٹا ضرور ہوں،لیکن میں آپ سب کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں۔میں اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط نہیں کروں گا۔ میں عدل و انصاف سے کام لے کر حق کو حق اور باطل کو باطل کہوں گا۔ میں اپنی سربراہی میں کسی بھی لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا فیصلہ ہرگز نہیں سناﺅں گا۔ میں مرد عورت دونوں کو یہ اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں۔ عشق کی راہیں تنگ نہ کریں،نفرتیں نہ پھیلائیں۔ میں نے اپنی عمر کے اٹھارہ برس دیارِ غیر میں گزارے ہیں۔ میں پڑھا لکھا نوجوان ہوں۔ میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے عقل اور دلیل کا سہارا لوں گا۔ میرے فیصلے بے بنیاد ثبوتوں یا شواہد کی بنیاد پر نہیں ہوں گے بلکہ میں خود معاملات کی کھوج لگا کر اصل واقعے تک پہنچ کر مجرم کو کٹہرے میں کھڑا کروا کے ملزم کو سزا دلواﺅں گا۔ میں نئے عہد،نئے دور، نئی نسل کا نوجوان ہوں۔ میں پرانی رسموں اور روایات کو نہیں مانتا۔“
تمام مرد تالیاں بجارہے تھے۔ سردار شان خان کی شان ان کی پگڑی ان کے سر پرپہنائی جاچکی تھی اور اب پھر سے ڈھول بج رہا تھا۔ لوگ انہیں مبارک باد دے رہے تھے۔ سہرے پہنارہے تھے۔ پھولوں کے ہار پہنارہے تھے۔
٭….٭….٭