جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

سجاول کی تدفین ممکن نہ ہوسکی۔ ساری رات موسلادھار بارش جوہوئی تھی اور راشدہ کے رشتے دار جو مختلف شہروں میں رہتے تھے وہ بھی صبح ہی پہنچے تھے۔ اس کا پوسٹ مارٹم بھی ہوچکا تھا اور سجاول کی نمازجنازہ پڑھی جاچکی تھی اب اسے قبرستان کی طرف لے جایا جارہا تھا۔

ناکام عاشق کا لٹا ہو اقافلہ رواں دواں تھا۔صفیہ پاگلوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔ کرامت اور دوسرے لوگ بار بار سجاول کے جنازے کو کندھا دے ر ہے تھے۔

کدھرلے کرجارہے ہو میری دھی کوں،چھوڑو چھوڑو میکوں، میری دھی کو نہ جانے دو۔وہ کرامت کوگریبان سے پکڑے کہہ رہی تھی۔ کرامت بت بنا کھڑا اسے بنا پلک جھپکائے تکے جا رہا تھا۔

کرامت دیکھ تو میں تیرے لیے آج گاجر دا حلوہ پکاکر لائی ہوں، تجھے پسند ہے نا۔

کھالے نا کرامت ،زیادہ نخرے نہ کر۔ دیسی گھیو دی چوری ہے۔

کرامت تو شہر سے میرے لیے لان کا سوٹ لائے گا نا۔

راشدہ سے ڈرتا ہے؟ سڑتی ہے مجھ سے پر میں وی کسی سے کم نئیں،تیرا پیچھا کدی نئیں چھڈوں گی،تو مجھ سے ویاہکرے گا نا؟

کرامت کے ذہن میںیہ جملے باز گشت کررہے تھے۔ کرامت کے چھوٹے بیٹے نے اسے کہا ۔ابا یہ پاگل عورت کون ہے۔اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔

روحیل نے صفیہ کو بڑی مشکل سے سہارا دے کر پکڑا اور کھینچتے ہوئے لے جانے لگا۔

تین ماہ بعد….

ہولے ہولے سرکتی رات ایک انجانے سے خوف میں مبتلا کررہی تھی۔ دونوں ماں بیٹی کتنے عرصے سے نہ سوئی تھیں۔ انہیں ایک پل کا بھی چین یا قرار نہیں آتا تھا۔ وہ بھولی بھالی سی معصوم سی آنکھوں والی لڑکی اپنی چارپائی پر لیٹی آسمان کو گھور رہی تھی۔

روحیل کئی بار اس کے پاس آیا اورایک ہی فریاد بار بار کرچکا تھا،لیکن اس کا دل نہیں مانتا تھا۔ وہی اسے اپنے بھائی کا قاتل لگتا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھی کہ اس سارے معاملے میں روحیل کا قصور نہیں، لیکن اس کے باپ کا تو تھا نا۔

ابھی بھی وہ روحیل کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ اچانک راشدہ نے اس سے کچھ کہا۔ اسے کتنی ہی دیر لگی تھی یہ یقین کرنے میں کہ جو بات اس نے سنی تھی وہ اماں نے ہی کی تھی!

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!