جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

کدھر چھپا کے رکھا ہے تیرے بھرا نے میری دھی کو،بول۔صفیہ ننگے پیر بھاگتے ہوئے راشدہ کے دروازے پر آکھڑی ہوئی۔ دروازہ عابی نے کھولا تھا۔

خالہ ناجی ادھر نہیں ہے،سجاول وی رات کا گھر نہیں آیا۔عابی نے کہا۔

ہائے بے غیرت بھگا کر لے گیا میری دھی کو۔ہائے میں مرگئی، ہائے میں برباد ہوگئی۔صفیہ دہاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بولی۔

میں بتارہی ہوں اگر میری دھی کو تیرا پتر واپس نہ لایا،تو مروادوں گی تیرے پتر کو۔صفیہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔

جاجا جو کرنا ہے کرلے ،سارا کیتا کرایا تیرا ہے صفیہ۔جو تجھ سے ہوتا ہے کرلے۔راشدہ نے ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کیا۔

ٹھنڈی آہیں نہ بھر راشدہ، ایسا حساب لوں گی ساری حیاتی یاد رکھے گی۔ ہائے میری دھی کوں ورغلا کے لے گیا۔ جھوکیو سنو تاں صحیح!میری بھولی دھی کو ں پٹیاں پڑھا کے لے گیا۔ ہائے میں مرگئی، ہائے۔صفیہ گلی سے گزرتی ہوئی بے خبروں کو زور زور سے تازہ خبر سنارہی تھی۔

عابی کو اور جتنے غموں نے ڈسا ہوا تھا، وہیں روحیل کی یاد بھی ستاتی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہی تھی کہ ناجی اور سجاول کے اس عمل کے بعد اب ان کا کیا حشر ہوگا۔ راشدہ ہر وقت سجاول اور ناجی کو بددعائیں دیتی تھی، کوستی تھی اور برا بھلا کہتی تھی۔ دوسری جانب عابی سارا سارا دن بولائی بولائی رہتی، چپ چپ سی، اسے کسی چیز کاہوش ہی نہ تھا۔ جہاں اس نے یہ تک سوچا نہ تھا کہ ناجی اور سجاول بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں گے، وہیں وہ مامے کرامت کے ساتھ خالہ صفیہ کی محبت سے بھی ناواقف تھی۔ اس نے ہزارہا مرتبہ اماں سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں خائف ہیں خالہ صفیہ سے ،کیوں وہ روحیل کا نام سنتے ہی وہ یوںظاہر کرتی ہیں جیسے اسے زندہ کھا جائیں گی۔آج ایک لمبے عرصے بعد یہ عقدہ بھی کھل گیا۔گھر میں ہوکا سا عالم تھا،سجاول اور ناجی کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔

اور ایک دن….

ایک دن سجاول کا فون آیا،اس نے بتایا کہ وہ اور ناجی شادی کرچکے ہیں۔یہ سنتے ہی راشدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔وہ جب بھی ہوش میں آتی تویہی کہتی کہسجاول اب زندہ نہیں بچے گا،میرے بیٹے کو بچالو۔“ 

اور پھر ….

ایسی آندھی چلی کہ سب کچھ اڑا کے لے گئی،پیچھے کچھ نہ بچا ۔انسان ،جیتے جاگتے سانس لیتے انسانوں نے درندگی اور سفاکی کی حد کردی اور، اور ، اور ناجی….جھوک عشق پر خدا کی رحمت اور کرم کا سایہ ایک آس بن کر رہ گیا تھا۔ یہاں فیصلہ سنانے کا حق جرگے کے سرپنچ کو تھااور جھوکیوں کا حق یہ تھا کہ وہ اس فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔روحیل اور صفیہ کوعلم تک نہ تھا کہ جرگہ کب بیٹھا اور کب فیصلہ سنایا گیا۔ مشتاق فیصلہ سننے کے بعد بپھراٹھا تھا،وہ نہیں مان رہا تھا۔ اس کے لیے اتنا سنگین فیصلہ تسلیم کرنااتنا سہل بھی نہیں تھا۔وہ کیسے اس قدر بربریت کا ثبوت دے سکتا تھا۔وہ کیسے اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کے ساتھ….

نہیں نہیں میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔میں نئیں مانتا اس فیصلے کو۔وہ چلاا ٹھا۔

مشتاقے شرم کر،آج تک کسی نے جرگے کے فیصلے کے خلاف کوئی کم کیا ہے جو تو کررہا ہے۔ سردار خالد خان ہمارے سرپینچ ہیں۔ ہمارے بڑے ہیں یہ جو فیصلہ سنائیں گے، ہمیں مانناہوگا۔کرم دین بولا۔

ہاں مشتاق بھرا اپنی دھی کے کرتوت بھی تو ڈیکھ،بھاگ کر نکاح کیا ہے۔ توبہ توبہ! پوری جھوک کی کڑیوں کو بدنام کرگئی۔ سب کہیں گی جھوک کی کڑیاں نس کر ویاہ رچاتی ہیں۔گامو سنار بولا۔

آہو بھائی مشتاق،ہماری جھوک میں یہ پہلا واقع ہوا ہے اگر ابھی کوئی سزاتجویزنہ کی گئی تو آنے والے وقتوں میں بڑا برا ہوگا۔ سب کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔

نواب رمضو بولا۔

ایسی کڑی کو ابھی بھی سینے سے لگا کر رکھے گا؟ واری صدقے جائے گا،تیری غیرت کہاں چلی گئی۔ مشتاق احمد پہلے محفل موسیقی میں رنگے ہتھوں پکڑی گئی۔ ساڈا نک (ناک) کٹوایا اور اب تو بے غیرتی دی حد پار کردی۔میری سرپنچی میں اے پہلی دفعہ ہوا ہے ،گر میں رناں والی چوڑیاں چڑھا کہ بیٹھ جاں گا، تو ہوگیا سب کچھ۔ میری نئیںمنے گا تو تیری ساری زمین تتر بتر کردوں گا، تیری ساری گاں واں منجھیاں رول دوں گا۔توں تیں تیر اپتر تیں تیری بھاگ بھری ووہٹی ہک ہک روٹی دے لقمے وستے ترسوگے۔سردار خالد گرجا۔

اوہ پہلے تیری ووہٹی تیرے ہتھ سے نکل گئی۔نکاح تیرے ساتھ اورعشق معشوقی کدھرے ہور۔ اگر تب کچھ کرتا نہ تو آج یہ دن نہ دیکھتا تو۔کرم دین ایک بار پھر سے بول پڑا۔ مشتاق احمد سے برداشت نہ ہوا تھا۔ جھٹ سے اٹھا اور کرم دین کا گریبان پکڑ لیا۔

میری ووہٹی کا نام نہ لے کر مو ،لگام دے اپنی زبان کو۔

اوہ کیوں لگام دوں،ساری جھوک گواہ کھڑی ہے،بتا میں مخول کررہا ہوں۔ جھوٹ بول رہا ہوں، ساری کیتی کرائی اسدی ہے۔اگر اب اتنی تپ چڑھ رہی ہے ،اتنا برا لگ رہا ہے سچ سننا،تو پہلے کچھ کرتا نہ تیرے سامنے غیر مرد دا ناں لیتی رہی ہور توں لعنت تیرے تیں لعنت، لعنت۔کرم دین نے گریبان چھڑوا کر زو رسے دھکا دیااوروہ سردار خالد خان کے پیروں میں جاگرا۔ سردار نے بھی پانچ انگلیاں دکھا کر لعنت برسادی اور بالوں سے پکڑ لیا۔

بے غیرتاکچھ عقل کر ورنہ تجھے بھٹی میں جلادوں گا۔سردار خالد خان نے اُسے ٹھڈا مارا۔ وہ لڑھک کر دور جاپڑا۔ دونوں مٹھیوں میں مٹی بھر بھر اپنے وجود پر ڈالنے لگا۔ اپنے منہ پر چانٹے مارنے لگا۔

میں رل گیا،میں برباد ہوگیا۔ناجی توں میکوں برباد کرگئی۔ ناجی تیرا خانہ خراب،ناجی تیرا سیتاناس،ناجی میکوں جیڈی جان کوں مار گئی۔

تمام جھوکیوں نے اس کے پاس تھوک دیا جہاں وہ پڑا تھااور ایک ایک کرکے جانے لگے تھے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!