اس سے پہلے کہ جرگہ بیٹھتا اور جرگے کا فیصلہ یقینا ان کے خلاف آتا،سجاول اور ناجی نے اپناپروگرام ترتیب دے لیا۔ اگلی رات ناجی نے مٹکے میں نشہ آور دوا ملادی ۔سب نے پانی پیا اورگھوڑے گدھے بیچ کر سوگئے تھے۔ ناجی نے اپنے کپڑے اٹھائے، کچھ زیور، کچھ پیسے جو تجوری میں رکھے تھے نکال کر سجاول کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ گئی ۔ سجاول نے اپنے ایک دوست کو کہہ رکھا تھا جو انہیں لے کر اڈے پر چھوڑ آتا اور وہیں سے یہ بس پکڑ کر شہر روانہ ہوجاتے۔ وہاں سجاول نے سارا انتظام پہلے سے ہی کروا رکھا تھا۔ گھر، نکاح خواں اور ملازمت۔ وہ راتوں رات ہی وہاں سے بھاگنے میں کام یاب ہوگئے۔
جھوک عشق میں بڑے زوروں کی آندھی چلی تھی، کئی لوگوں کی چھتیں اُڑگئی تھیں،بجلی کے کھمبے گر گئے تھے، جھوک پھر سے تاریک ہوگئی ۔ تاریکی تو ویسے بھی غالب آئی ہوئی تھی،اب حالات مزید سنگین صورت حال اختیار کرنے والے تھے۔
٭….٭….٭
صبح ہوئی تو صفیہ نے ناجی کو بستر پر ناپاکر ایک چیخ ماری۔
”روحیل دے ابا، روحیل دے ابا، اٹھو ناجی نئیں ہے گھر میں، میں نے پورا گھر چھان مارا ہے۔“ صفیہ مشتاق احمد کو جگاتے ہوئے بولی۔
”یہیں کہیں ہوگی اس نے کہاں جانا ہے۔“ مشتاق احمد نیند کے خمار میں تھا۔
”نئیں ہے ادھر،اٹھوجلدی کرو۔“ صفیہ نے زبردستی اسے جگایا۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے ناجی کی چارپائی کو دیکھنے گیا۔ ناجی غائب تھی۔ صفیہ اپنے خدشات کے زیر اثر اندر گئی اور جب باہر آئی تو….
”غضب ہوگیا مشتاق احمد!سب کچھ لے گئی ہے ناجی۔کپڑے، لتے، زیور، نقدی سب کچھ۔“ صفیہ زمین پر ڈھے گئی اور سینے پر دوہتڑمار کر بولی۔
”سب کچھ تیری وجہ سے ہوا ہے،اب ڈرامے کیوں کررہی ہے بدبخت عورت۔“
مشتاق چلا کر بولا۔ روحیل ماں کی آہ و بکا سن کر ناجی کو ڈھونڈنے باہر نکل گیاجب کہ ناجی اڑان بھرچکی تھی۔
٭….٭….٭