ڈھولکی اب بھی بج جارہی تھی اور سب لڑکیاںگیت گا رہی تھیں،پھر اچانک شور شرابے سے وہ بوکھلا گئیں ۔
”کدھر ہے اماں؟بڑا اعتبار تھا نہ تجھے اپنی دھی پر۔یہ دیکھ رنگے ہاتھوں پکڑکر لارہا ہوں۔“ روحیل نے ناجی کو پھینکتے ہوئے کہا۔وہ دور جاگری اور اس کا سر چارپائی سے ٹکرایا۔ وہ کراہ کر رہ گئی۔
صفیہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کچھ بتا وی صحیح کیا ہوا کہ پہیلیاں بھجواتا رہے گا۔“ صفیہ بولی۔ تمام لڑکیاں اوربڑی بوڑھیاں منہ پر ہاتھ رکھے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ راشدہ اور عبیرہ تو روحیل کے شکنجے میں جکڑے سجاول کو دیکھ کر ششدر رہ گئی تھیں۔
”مجھ سے کیا پوچھتی ہو اماں،اپنی دھی سے پوچھ۔“ روحیل بولا۔ صفیہ دوڑی اور ناجی کے سر پر جاکھڑی ہوئی اوراسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
”بول کمینی! بتا کیا کہہ رہا ہے روحیل،بتا کون ساگل کھلایا ہے تو نے۔“ صفیہ اب ناجی کو مار رہی تھی۔ مختاراں روحیل کے پاس آگئی۔
”روحیل پتر بتا کیا ہوا ہے،کیوں ہولا رہا ہے سب کو۔“ مختاراں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہی تھی۔
”تماشادیکھ رہے ہو سارے؟دفع ہوجاﺅ ادھر سے۔عزت کے جنازے کو کندھا دینے آئے ہو۔“ روحیل پہلی بار اتنی زور سے چیخا تھا۔ تمام بڑی بوڑھیاں، عورتیں اورلڑکیاں نکلنا شروع ہوگئیں۔ ان میں پینو اور بانو بھی تھیں۔ وہ عجیب سی نظروں سے ناجی کو دیکھتے اورکانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے نکل رہی تھیں۔ ناجی کی آنکھیں شرم سے نیچے گڑی جارہی تھیں۔
”بول کمینی، بے غیرت، بتا کیا کر آئی ہے، کون سا نواں چن چڑھا آئی ہے،بول۔“ صفیہ نے اس کے گال پر تھپڑ رسید کیا۔ وہ پھر سے سر کے بل چارپائی سے ٹکرائی۔
”بتاتی ہے کہ نہیں،کمینی بدذات….“ وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دیدہ دلیری سے ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
”اوہ ہی چن چڑھایا ہے اماں جو تونے اپنی جوانی میں چڑھایا تھا۔ اوہ ہی گل کھلایا ہے اماں جو تو نے کھلایا تھا۔ عشق دی بوٹی، پیار دی بیل، بول گناہ ہے پیار کرنا؟بول بدفعلی ہے اپنے محبوب سے ملنا، بول اگر گناہ ہے تو تو کیوں میکوں اب تک عشق دا سبق پڑھاتی رہی؟کیوں میرے آگے کرامت کرامت دا ورد کرتی رہی۔ کرامت ایسا تھا، کرامت ویسا تھا، کرامت کو یہ پسند تھا، کرامت کو وہ پسند تھا۔ پھر تیری دیکھا دیکھی اے روگ کیسے نہ لگاتی میں اماں! بول میں نہ چکھتی عشقے دی لذت، میں سوچتی تھی کہ جو اماںہرویلے عشق عشق کردی ہے میں وہ کر ڈیکھاں عشق ہوتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے۔ پھر میکوں وی عشق ہوگیا۔ اس سے جو تیرے سامنے کھڑا ہے۔ تو کرامت کرامت کرتی ہے میں سجاول سجاول کرتی ہوں، بول منع ہے یہ سب تو توں نے کیوں نہ باز رکھا خود کو بول بتا۔“ وہ ایک ہی سانس میں کہے گئی۔ صفیہ کو سچ کڑوا لگا تھا۔ جھٹ سے دوسرا تھپڑ رسید کردیا۔ اب راشدہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔روحیل کے پاس آئی اور سجاول کو گریبان سے پکڑ لیا۔
”اوہ تجھے یہی ملی تھی ساری جھوک میں، جیسی ماں ویسی دھی، ماں کو میرا ویر ملا تھا اور دھی نے میرے پتر کو دم چھلا بنادیا۔میں پوچھتی ہوں صفیہ تم دونوں کو میرا ہی گھر ملا تھا، میرا ہی گھر ملا تھا کیا۔“ راشدہ ہانپتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ عابی تو سن ہوکر رہ گئی ،جیسے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوگئی تھی۔
”کیوں خالہ کیوں تڑپ رہی ہے۔میری ماں سے چاچے کرامت کو چھینا اور اب سجاول کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہے۔میری بات سن لے ،یہ اماں تھی جو ہار گئی میں تجھے بازی جیت کردکھاﺅں گی۔ سجاول میرا ہے اور میرا ہی رہے گا، تو اسے مجھ سے علیحدہ نہیں کرسکتی۔“ صفیہ آگے بڑھی ،اسے بازو سے پکڑا اور ایک اور تھپڑ رسید کردیا۔
”چپ کر منحوس ماری،تیری غیرت کہاں مرگئی۔جوان بھرا کے آگے عشق معشوقی کی باتاں کررہی ہے۔“
” ہا ہا ہا، واہ اماں واہ میری واری غیرت یاد آرہی ہے۔ مولوی سے جاکرفتویٰ لے آ اماں کہ نکاح کے بعد تو بجائے اپنے کھسم (شوہر) کے،نامحرم کا نام لیتی رہی تھی،تو تب ٹھیک کرتی تھی کیا۔ مجھے غیرت بتارہی ہے،تو جو کرتی رہی ٹھیک کرتی رہی۔ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے، ہر ویلے ساڈے گھرکرامت دے ناں دی گونج گونجدی رہی،اوہ ٹھیک تھا۔ شکر کر اماں میرا پیوبھلا مانس ہے کوئی ہور ہوتا ابے کی جگہ تو تین لفظ کہہ کر چلتا کرتا تجھے۔“
آج ناجی نے تہیہ کررکھا تھا چپ نہ کرنے کا ، آج اس کے اندر کا لاوا ابل رہا تھا۔ اس کے کان پک گئے تھے کرامت کرامت سن سن کر، اس کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ پھر آج سارا حساب کتاب ہورہا تھا تو وہ ماں کا حساب چکتاکیسے نہ کرتی۔
”بول بھرا میں جھوٹ بول رہی ہوں! بول نہ اب چپ کیوں ہوگیا۔ مجھ پرہاتھ اٹھایا،میکوں سزا دی کیا، اماں سزا دی حق دار نئیں،بول نا۔“ وہ اب بالکل جنونی اور پاگل سی ہوکر روحیل کوگریبان سے پکڑ کر کہہ رہی تھی۔ روحیل نے سجاول کو چھوڑ دیا۔ وہ نیچے دیکھ رہا تھا ،ناجی سے آنکھیں ملا پارہا تھانہ ماں سے۔
”بس اب فیصلہ جرگہ سنائے گا،چپ کر جاﺅ سارے۔“ یک دم مشتاق احمد اندر آیااورآتے ہی گرجا۔ یہ کہتے ہی وہ شکست خوردگی سے زمین پر بیٹھ گیااور دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
٭….٭….٭