شام کے سائے بڑھے تو صفیہ کے وجود پر بھی اک شام سی اتر آئی۔ بکسے سے نواں جوڑا نکالا۔ اس پر پانی کے چھینٹے دیے۔ استری میں دہکتے ہوئے سرخ انگارہ کوئلے ڈالے ، اس کا ڈھکنا چڑھایا،کیل اٹکایا اور جوڑا استری کرنے لگی۔
”کدھر کی تیاری کررہی ہے میڈی دھی۔“ حسینہ ابھی ابھی روٹیاں پکا کر اندر آئی تھی۔
”اماں راشدہ کے گھر جارہی ہوں،اوہ نوے آئے ہیں ناجھوک میں۔“ وہ شلوارپراستری پھیرتے ہوئے بولی۔
”اوہ تو میکوں وی پتاہے ان کو آئے تو ہفتے توں وی اوتاں ہوگیا میں تاں مل آئی تھی۔ شوہدی راشد ہ دا ہکو ہک سہارا ہے کرامت،چنگا لڑکا ہے ماں پیوتاں بچپن وچ ای چھڈ گئے۔“یہ سن کر اسے افسوس ضرور ہوا،لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اسی بشاشت سے استری کررہی تھی۔
”اچھا ہے مل آ۔ بڑی اچھی کڑی ہے راشدہ پڑھی لکھی۔ سلیقہ مند میں تاں حیران رہ گئی کلی (اکیلی) کڑی نے اتنا اچھا گھر سنبھالا ہوا تھا۔“ حسینہ نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”اماں تیکوں کی پتامیں کس سے ملنے جارہی ہوں، راشدہ سے یا اس کے بھرا سے۔“ اس نے سوچا۔
کپڑے استری ہوگئے تو نک سک سے تیار ہوکر ،چہرے اور ہاتھوں پر تبت کریم لگائی،پھرپاﺅڈر چھڑک کر چل دی اور ایسی چلی جیسے آندھی ہو یا طوفان۔ گھر آئی تو کرامت اسے پہچان گیا۔ راشدہ حیرانی سے اس کی تیاریوں اور والہانہ انداز کو دیکھتی رہ گئی۔
”راشدہ یہ اپنی حسینہ ماسی کی بیٹی ہے صفیہ۔“ کرامت نے اس کا تعارف کروایا۔ راشدہ فٹ سے اٹھی اوراس سے لپٹ گئی۔
”ہائے میں تو دیکھتے ہی سوچ رہی تھی کہ یہ حسین لڑکی حسینہ ماسی کی ہی ہوسکتی ہے۔“ راشدہ اس کے گورے گورے گال دیکھ کر بولی ۔
”صفیہ کھڑی کیوں ہے بیٹھ نہ، یہ بتا کچھ کھاکے آئی ہے کہ نہیں؟میں نے ساگ پکایا ہے، کھاﺅگی؟“ راشدہ یوں پوچھ رہی تھی جیسے اس سے آٹھ دس سال بڑی ہو۔ اس میں اس کا بھی قصور نہیں تھا۔ اتنی کم عمری میں ہی اس پر تمام ذمے داریوں کا بوجھ آپڑا تھا۔ باپ نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب کر مرگیااور ماں کو ابے کی جدائی کھاگئی ۔ پھر راشدہ کو اس سے چار سال بڑے بھائی کرامت نے سہارا دیا۔
پہلے تو یہ دونوں اپنے مامے کے پاس ڈیرہ غازی خان رہے،مگر مامی بہت لڑاکاتھی،اس سے ان دونوں کا وہاں رہنا برداشت نہ ہوتا تھا۔ دن رات جلی کٹی سناتی اوران کے نوالے گنتی رہتی۔ کرامت کالج میں فرسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ یوں گھر چھوڑ کر جاتا تو پڑھائی چھوٹ جاتی،لہٰذا ایک سال مزید برداشت کیا اور جھوک میں اپنی زمین پر کام شروع کروادیا۔ مامے نے بیوی سے چوری چھپے بڑی امداد کی،جتنا ہوسکا پیسے لٹائے اور جو کمی رہ گئی وہ راشدہ کے سونے کے سیٹ سے پوری ہوگئی تھی۔ اینٹیں، سیمنٹ اوربجری لینے کی بساط نہ تھی، لیکن کچا گھر تو بنایا جاسکتا تھا، لہٰذا کچی اینٹوں اور گارے مٹی بھوسے سے کرامت نے دو کمروں والا گھر بنا لیا۔جیسے ہی پڑھائی مکمل ہوئی یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ جھوکیوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ پہلے سات دن کسی نے کچھ پکانے نہ دیا۔ کوئی گڑوالے چاول بھیج رہی ہے تو کوئی دیسی مرغی پکا کر اور کوئی جوار کی روٹی اور ساگ۔ راشدہ کو یہ سب عجیب لگتا تھا۔ کرامت سے کہہ کر سودا سلف منگوایا اور آج آٹھویں روز ہانڈی روٹی خود کی۔
صفیہ ساگ کھا رہی تھی،کبھی کبھار وہ کرامت کو بھی دیکھ لیتی ۔
”اور دوں صفیہ، کھاﺅگی؟“ صفیہ تو پوری تھالی چٹ کرگئی تھی،گھر سے بھی کھا کر آئی تھی۔ ”نا میڈی بس ہے۔“ اس نے چنگیرراشدہ کو پکڑائی۔
”صفیہ اسکول شکول جاتی ہو یا نہیں۔“ کرامت اس سے پوچھ رہا تھا۔ اس کی تو باچھیں ہی کھل گئیں۔ وہ تو کب سے یہ چاہ رہی تھی کہ کرامت سے سلسلہ کلام جوڑے۔”ناں جی کتھاں،میکوں پڑھنا اچھا نئیں لگدا۔“ اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ کرامت ہنسنے لگا۔
”ہائے کنا سوہنڑا کِھلدا ہے (ہنستا ہے)۔“ صفیہ نے سوچا اور بنا پلک جھپکائے اسے دیکھے گئی۔
”میری بہن تو پڑھی لکھی ہے ،پتاہے تجھے۔“ کرامت فخر سے راشدہ کو دیکھ کر بولا۔
”اوہ جی تساں شہر میں رہے ہو نا،ادھر آسان ہے پڑھائی وڑھائی پر مجھ سے نئیں ہوتی۔“ وہ بولی۔
”اُدھر بھی آسان نہیں ہے پڑھنا صفیہ اور جن حالات میں ہم دونوں بہن بھائیوں نے تعلیم حاصل کی ہے اگر تمہیں بتائیں تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔“
راشدہ بولی۔
”کیا کھڑے ہوجائیں؟ “صفیہ کو سمجھ نہ آیا تھا۔
”ہاہاہا،کچھ نئیں صفیہ۔“ کرامت ہنس دیا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد صفیہ کویہ گھر جیسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔اس کا بالکل جی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ پہلے کی طرح راشدہ کے سوالوں کاجواب نہیں دے رہی تھی اور نہ ہی گفتگو میں گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ یہ بات راشدہ نے محسوس کرلی تھی۔ وہ اسے اس وقت تک جانے نہیں دے رہی تھی کہ جب تک کرامت نہ آجائے اور وہ ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تھا۔ وہ پھر سے اس کے ساتھ خوش گپیوں میں لگ گئی۔ کرامت بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔جب خاصی دیر ہوگئی تو چارو ناچار راشدہ کو خود ہی کہنا پڑا۔
”صفیہ بہت دیر ہوگئی ہے تمہیں اب گھر جانا چاہیے،پر اکیلی کیسے جاﺅگی۔ باہر تو کتے ہوں گے،کرامت چھوڑ آئے گا۔“ اس کا نام سن کر تو وہ پھر سے کھل اٹھی تھی،آج تو جیسے اس کی ساری مرادیں ہی پوری ہورہی تھیں۔
کرامت اٹھ کھڑا ہوا۔
”چل صفیہ اچھا موقع ہے،جو کہنا ہے آج ہی کہہ دے۔“ وہ اٹھتے ہوئے سوچنے لگی۔
”ہمت کر صفیہ پیار میں ڈرنا کیسا۔“ وہ اب اس کے ساتھ گھر سے نکل رہی تھی۔ دو چار منٹ تو خاموشی میں ہی کٹ گئے۔ نہ کرامت نے کوئی بات کی اور نہ اس نے۔ نہ جانے اس میں اتنی ہمت کیسے آگئی کہ اس نے کرامت کا ہاتھ پکڑ لیا،وہ ساکت ہوگیا تھا۔
٭….٭….٭