ناجی کو اس نے پہچان لیا تھا۔
”آگئی میں اب شروع نہ ہوجانا۔ بڑی مشکل سے بچ بچا کے بھاگی ہوں۔“ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”نہیں ہوتا شروع اب جلدی چل۔“ سجاول نے پیار سے کہا۔
”ہائے سجاول! کیا گاتا ہے سانول عیسیٰ خیلوی۔“ ناجی کو اب آواز سنائی دینے لگی تھی۔
”آہو بہوں اچھا گاتا ہے سب جھوکیوں نے بڑا تنگ کیا ہوا ہے شوہدے کو۔ ہر کسی کو جلدی ہے اپنا پسندیدہ گانڑاں سننے کی۔“ سجاول نے ہنس کر کہا۔
”میری وی فرمائش پوری کروا دینا سجاول ۔“ ناجی بولی۔
”دعا کر جس جگہ کا بندوبست کیا ہے وہاں کوئی نہ ہو۔“ سجاول بولا۔ اب وہ خالد خان کی جگہ کے پاس ہی تھے۔ سجاول نے چادر سے اپنا چہرہ چھپالیا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے۔ ناجی نے بھی دوپٹے سے نقاب کرلیا تھا۔
”اس کمرے میں چل، میں صورت حال دا جائزہ لے کر آیا۔“ سجاول نے اسے کمرے میں بھیج دیا۔
”اف بڑا برا حال ہے ناجی! تو واپس چلی جا اگر جو کسی نے دیکھ لیا تو میں پھنس جاﺅں گا اور تو وہ….“ وہ فٹ سے اندر آکر بوکھلائے ہوئے انداز میں بولا کہ وہ ابھی چٹائی پر بیٹھی بھی نہ تھی۔
”میں کیوں جاﺅں، میکوں سانول کو قریب سے دیکھنا ہے اسدی آواز سننی ہے۔“ ناجی ضد کرنے لگی۔
”ناجی مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔ خالد خان بھی ادھری ہے اسے پتا چل گیا تو جرگہ بٹھالے گا تو ں وی ماری جائے گی ہور میں وی۔“ اس نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”لے کے کیوں آیا تھا مجھے اگر واپس بھیجنا تھا۔“ اس نے گلہ کیا۔
”میرا میٹر شارٹ نہ کر بھاگ جا یہاں سے۔“ اس نے زور سے گلہ پھاڑ کر کہا۔
”میں کدی وی نئیں جاﺅں گی۔“ ناجی بولی۔
”چھڈ نہ سجاول ایسے موقعے بار بار تھوڑی آتے ہیںکوئی پیار شیار دیاں باتاں کر۔“ ناجی نے اس کا خیال ہٹانے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
”میکوں ڈس کتنی محبت کرتا ہے تو مجھ سے۔“ ناجی نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
”بہت محبت کرتاہوں ناجی کہ تو سوچ وی نئیں سکدی۔“ سجاول دوسرے ہاتھ سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
پھر اچانک زور زور سے دروازہ پیٹا جانے لگا۔ دروازہ نان اسٹاپ کھٹکایا جارہا تھا۔ سجاول ڈر کے مارے اٹھ کھڑا ہوا۔ ناجی بھی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ سجاول مکمل طور پر پسینے میں بھیگ گیا۔ کنڈی آہستہ آہستہ خود بہ خود کھلنا شروع ہوگئی تھی۔
”دھڑام ۔“
”دھڑام ۔“
”دھڑام ۔“ اور بالآخر دروازہ کھل گیا۔ روحیل نے جو منظر دیکھا تو اسے یقین نہ آیا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ناجی کو تکے گیا۔ جب ہوش میں آیا تو اندر آکر ناجی کے منہ پر ایک ساتھ کئی تھپڑ رسید کردیے اور سجاول کو گریبان سے پکڑلیا۔
”تیری اتنی ہمت تو میری بہن کے ساتھ….“ اس نے سجاول کے منہ پر مکے مارنا شروع کردیے۔
”اور تو ناجی دھول جھونکتی رہی ہماری آنکھوں میں۔“ اس نے ایک اور تھپڑ ناجی کو مارا۔ کمرا جھوکیوں سے بھرنے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ سب مرد جمع ہورہے تھے۔ ان کی تیز تیز چلتی ہوئی زبانیں، باتیں، چہ میگوئیاں لعن طعن کررہی تھیں۔
آج روحیل کی عزت کا جنازہ سرِ بازار نکلا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ناجی کے ہونٹوں سے خون رس رہا تھا۔ سجاول کی حالت بھی ابتر تھی۔ وہ دونوں کچھ نہیں بول رہے تھے۔ صرف سن رہے تھے، مار کھا رہے تھے اور برداشت کررہے تھے۔
”توبہ توبہ کیسا زمانہ آگیا اپنا روحیل کی بہن ہے نہ یہ۔“
”ہاں ہور نئیں تو مشتاق احمد دی دھی ہے۔“
”اور کوئی مشتاق کو تو بلاﺅ آکے دیکھے اپنی دھی کے کارنامے۔“
”جو ماں نے گل کھلائے تھے دھی بھی وہی کھلائے گی۔“
”اپنے گناہ گار کانوں سے کتنی واری میں نے خود سنا ہے۔ صفیہ بہن اپنی دھی کو عشق و عاشقی دے قصے سنارہی تھی۔“
”غیرت تو مشتاقے دی وی مر گئی ہے جو مرد بن کے دکھا تا تو لگام نہ ڈال لیتا زال (بیوی) تیں۔“
”مرداں آلی کوئی گل ہے مشتاقے میں نراں مسخرہ۔“
”بس ساری ہیکڑی تیں آکڑ باہر آکر نکلتی ہے اندروں جو ہوتار ہے۔“
”اوہ جو وی تھا۔ صفیہ بہن نے یوں تو عزت نہ رولی پیو ماں دی جیویں دھی پئی کردی ہے، کرامت وی گھٹ نہ تھا۔“
”لے کرامت کو کی چاہیے تھا۔ انی حسین کڑی مل گئی تھی۔ ٹائم پاس کرلیتا تھا۔“
”آہو، آہو۔ ٹائم پاسی ہی کررہا تھا جے اسے وی عشق ہوتا تو ویاہ نہ رچا لیتا۔“
پرانی گلاں چھوڑو ہنڑ دی سوچو ایسی سزا دیو سجاول اور اس پھپھے کٹنی کو کہ یاد رکھیں دونوں۔“
بس صبر تو ہو ہی ختم گیا تھا۔ روحیل نے ناجی کو چٹیاسے پکڑا اور سجاول کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور انہیں گھسیٹے ہوئے میدو کے گھر کی طرف لے جانے لگا۔
”بھرا معافی دے دے۔“
”بھرا معاف کردے اور کتنا بے آبرو ہونے دے گا اپنی بہن کو۔“
”روحیل بھائی معاف کردے۔“
سجاول اور ناجی ایک ساتھ بولتے جارہے تھے۔ ناجی زاروقطار پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔ ان کے جاتے ساتھ ہی تمام مردوں نے لعنت دی تھی۔
٭….٭….٭