جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

نہ جانے اماں نے کیا دیکھا تھا تیرے پیو میں جو مجھے اس کے پلے باندھ دیا۔ نہ شکل نہ صورت تیں نہ سیرت، ہائے کیا ہوجاتا اگر اماں میرا ویاہ کرامت سے کردیتی۔ پوریاں باراں جماعتاں پاس تھا۔ ان دنوں باراں جماعتوں تک پڑھنے لکھنے والوں کی بڑی عزت ہوتی تھی اور کرامت کی تو ٹور ہی وکھری تھی اوچا لمبا قد، سوہنڑاں گھبرو جوان۔ ہر جگہ اس دی پڑھائی ہور ذہانت دا چرچہ تھا۔ میکوں (مجھے) بڑا چنگا (اچھا) لگتا تھا۔ پر اماں منتی تب نا۔

وہ اسکول جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ ابھی تیار ہوکر ناشتا کرنے کے لیے مٹی کے بنے چولہے کے پاس آکر بیٹھی ہی تھی کہ اماں نے پھر سے چاچا کرامت کا ذکر چھیڑ دیا اور خیالوں کی نگری میں کھوہی گئی اور وہ پراٹھے کے ترنوالے حلق میں اُتارتی چائے کے گھونٹ بھرتی اماں کو تکے گئی۔اماں کیا تُو محبت کرتی تھی چاچے کرامت سے۔آخر کار اس کی زبان پر وہ سوال آہی گیا جو وہ کئی دنوں سے اماں سے پوچھنا چاہ رہی تھی، لیکن اس کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔لے دس! اے وی کوئی پوچھنے آلی گل (بات) ہے، محبت نہیں عشق تھا مینوں اور وہ بھی اندروں اندروں (دل ہی دل میں) عشق کرتا تھا مجھ سے، پربڑا شرموتھا اور میں بڑی شوخی جئی۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ پکا کے لے جاتی اسدے واسطے کدی گاجر دا حلوہ، کدی سبونی (سوجی) تیں کدی گڑ والے چاول۔صفیہ نے چمٹے سے پراٹھا اتار کر چنگیر میں رکھا اور خود کو حیرت سے دیکھتی ناجی سے پھر مخاطب ہوئی۔

پتا ہے تیکوں(تجھے) ساری تھالی چٹ کرجانے کے بعد کہتا تھا صفیہ توںادھر نہ آیا کر کسی روز اماں کو بھنک پڑگئی کہ تو مجھ سے محبت کرتی ہے تو تیرا یہاں آنا جانا بند کردے گی۔ تیری بھی شامت آئے گی اور میری بھی۔صفیہ نے اک ادا سے کرامت کے جملے کو دہرایا اور لنگی قمیص پہنے اپنے شوہر پر نظر ڈالی جو ابھی ابھی بھینسوں کو چارہ ڈال کر آرہا تھا۔میں تاں تھی شیرنی تیرے ابے دی طرح تھوڑی گونگا میراثی ہے اے، میں کُڑی ہوکر ابے اماں دے ڈرشرتوں پرے اس سے ویسے ہی ملتی رہی جیسے پہلے اور اماں نے مَن جانا تھا جو اے وچوں روڑے نہ اٹکاتا۔اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ کر مشتاق احمد کی طرف دیکھا جو اب نلکے سے منہ ہاتھ دھو رہا تھا۔

کتنی بار کہا ہے تجھے نہ کیا کر اس طرح کی گلاں باتاں جو ان جہان کڑی سے، تیرا دماغ تو تھا ہی خراب اب میری دھی کا بھی کرے گی۔مشتاق احمد تار پر لٹکے تولیے سے ہاتھ منہ خشک کرتے ہوئے بولا۔

نہ کیوں نہ بتاں، ناجی کو اسے بھی تو ساری کہانی کا پتا چلے کہ کیسے تونے میری حیاتی خراب کردی۔ پہلی واری کسی کے ساتھ سچا عشق کیتاتیں توں متھے لگ گیا۔صفیہ اپنی روٹی پر مکھن کا پیڑا رکھتے ہوئے بولی۔ اس سارے جھنجھٹ میں ناجی اپنا پراٹھا ختم کرچکی تھی اور اس پل کو کوس رہی تھی کہ جب اس نے اماں سے، چاچے کرامت سے محبت کا پوچھ لیا۔

وڈی حیاتی خراب ہوگئی تیری سوکھی سڑی تھی۔ مجھ سے ویاہ کے بعد مکھن ہوردیسی گھیو کھا کھا کے موٹی سانڈہوگئی۔ اناں پچیس سالوں میں ہر عیش کرائی اچھا پویا، اچھا کھوایا پر تیری نا شکری ختم نہ ہوئی۔مشاق احمد نے احسان جتلایا۔

اوہ…. زیادہ احسان نہ جتا، میڈے پیوتے ماں نے وی تیری تھوڑی خدمت نئیں کیتی، سگے بیٹے سے بڑھ کر چاہا تیکوں، ماسی تیں ماسٹر دی کمی محسوس نئیں ہونڑدتی۔ او ہی تیڈے سگے ماں پیو بن گئے اور اب توں میکوں مکھن تیں گھیو یاد دلا رہا ہے۔صفیہ کی آواز اونچی ہوگئی اور پاس پڑوس والیوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ دیواروں سے سر نکال نکال کر ہر روز کا ڈراما دیکھنے لگیں۔ ناجی کو بے انتہا سبکی محسوس ہورہی تھی۔ وہ گھر سے نکلی اور اسکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ گھر کی دہلیز عبور کرتے ہوئے بھی اسے اماں اور ابے کی تکرار سنائی دے رہی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!