جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

عابی سے کہا جارہا تھا کہ اب وہ کوئی سرائیکی گیت گائے۔ جو دکھی نہ ہو عابی پھر سے ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔ پر اس کی ا یک نہ چلی اور اسے گیت گانا ہی پڑا تھا۔ 

اے گھسن پیسے اے گھسن کپڑے

جیویں توں درزی 

عیدتیں میڈے ماہی آنوڑئے

جوڑا جلدی سی

(یہ لو پیسے یہ لو کپڑے)

(جیئے توں درزی)

(عید پہ میرے ماہی نے آنا ہے)

(جوڑا جلدی سی

عابی نے گیت ختم کیا تو سب نے اسے تنگ کرنا شروع کردیا۔

کون ہے جس کے کپڑے دیے جارہے ہیں؟

کون ہے جس نے عید پر آنا ہے؟

اتنی فرماں برداری کہ ماہی کے آنے سے پہلے کپڑے بھی خود دیے جارہے ہیں۔

ائے ہائے کیا ہے۔

پڑھا لکھا ہوگا عابی جیسا۔

شرماتی کیوں ہے بتادے غیر تھوڑی ہیں ہم۔

ہائے کیسے سرخ پڑ رہی ہے۔

شرما مت عابی۔

اس نے تو اپنے منہ پر دونوں ہاتھ ہی رکھ لیے۔ پھر سب جان گئیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے اور اس کے عشق کا عقدہ کھل گیا تھا۔ راشدہ نے گھوری ڈال کر اسے دیکھا، وہ ڈر گئی اور اٹھ کر مختاراں کے کمرے میں چل دی جہاں اس سے پہلے تین فریق موجود تھے اور ایک کو دیکھنے کے بعد تو اس کی سٹی گم ہوگئی تھی۔

آ عبیرہ لنگ آ، اندر آجا اتنی بوکھلائی ہوئی کیوں ہے۔مختاراں کی دھی سویرا بولی۔

اوہ میں دودھ لینے آئی تھی آپا سکینہ کا پتر رو رہا ہے۔اس کے ہاتھ میں فیڈر تھا جو سکینہ نے اسے پکڑا دیا تھا۔

عابی بہن بیٹھ جاسویرا دودھ لے آتی ہے۔میدو نے کہا جو روحیل کے ساتھ بیٹھا شاید اپنی منگیتر سے گپیں ہانک رہا تھا۔ وہ اندر آئی اور خالی پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ 

میں دودھ لے کے آتی ہوں۔سویرا باہر چلی گئی۔ اسی اثنا میں میدو بھی موبائل کان سے لگائے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ نہ جانے کب روحیل اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ انگلیاں مروڑتے ایک ہی نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

اتنی محبت کرتی تھی مجھ سے اور کبھی اقرار کیا نہ اظہار۔روحیل نے ہلکی آواز میں کہا۔

اقرار تو برسوں سے کررکھا تھا میں نے پر نہ جانے کیوں تم ہی انجان بنے رہے۔اس نے کہا۔

تم ایک بار اپنی محبت کا اظہار تو کرتی عبیرہ۔

میں تو تمہیں بس ایک دوست ہی سمجھتا تھا۔“ 

اب بھی فقط ایک دوست ہی ہوں نہ۔عابی نے پہلی بار اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر کہا تھا۔ 

ہم ہم ہم اچھا سوال ہے سوچ کر بتاں گا۔اس نے مزہ لیتے ہوئے کہا۔

ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ سوچ بچار ٹھیک نہیں ہوتا روحیل۔

مجھے قائل کرنے کی کوشش کررہی ہو یا پھر مجھ سے سچ اگلوانے کی۔روحیل بولا۔

جو تم سمجھ لو….“

کتنا چاہتی ہو مجھے؟روحیل نے ایک بار پھر مشکل اور صبر آزما سوال کیا۔ وہ پریشان ہوگئی۔

اظہار کا موقع مل رہا ہے تو کردو نہ اظہار ایسے مواقع روز روز تھوڑی ملتے ہیں۔

ہاں چاہتی تھی اور چاہتی رہوں گی روک سکتے ہو مجھے۔

نہ بابا میری کیا مجال جو تمہیں روک سکوں۔ اس بندہ غلام نے تمہارے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اب جو چاہے سلوک کرو ہم اف نہ کریں گے۔

عابی بے حد بھولی ہو تم۔

وہ کیوں بھلا؟

اب دیکھو نہ اسی روز مجھے کہتی ہیں کہ شادی کرلوں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس گاں کی سب سے حسین، خوبصورت، سلیقہ شعار لڑکی میرے پہ مرتی ہے تو فٹ سے امی کو تمہارا بتادیتا ۔ روحیل نے شرارت سے کہا۔

پر روحیل وہ ….“ ابھی وہ آگے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ سویرا اندر آگئی۔ اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔ عابی نے گلاس اس سے لیا۔ دودھ فیڈر میں ڈالا اور باہر آگئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!