اسے عموماً سادہ رہنا ہی اچھا لگتا تھا۔ بھاری بھرکم کپڑوں، جیولری اور میک اپ کی تہیں جماتے اس کی جان جاتی تھی۔ کتنی ہی شادیوں میں اس نے بے حد عام سے لان، کا ٹن اور شفون کے سوٹ پہنے تھے اور فیئر اینڈ لولی کریم پر ہی گزارہ کیا تھا۔ لڑکیاں اسے دیکھ کر اس کا مذاق اڑاتی تھیں۔ وہ ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیتی تھی۔ پر آج کچھ خاص ضرور تھا اس کا بننے سنورنے کا دل کررہا تھا۔ سرخی پاﺅڈر لگانے کا من چاہ رہا تھا۔ اس نے آنکھوں میں کاجل لگایا۔ لمبے گھنے بالوں میں گھنگھرﺅں والا پراندہ ڈالا۔ ہونٹوں پہ لپ اسٹک کا شیڈ لگایا اور باہر نکل آئی۔ جہاں سجاول اور اماں بیٹھے اسی کا انتظار کررہے تھے۔
”بڑی دیر کردی آنے میں موسیقی شروع ہوگئی ہوگی ہک تو عورتوں کی تیاری وی نہ۔“ سجاول نے شکایت کی۔
”دیر سویر آ تو گئی اب چلو۔“ عبیرہ نے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے کہا۔
”تالا کدھر گیا عابی ۔“ اماں لالٹین جلائے برآمدے کی سیلفوں سے تالا تلاش کررہی تھیں۔
”اماں ریڈو کے پاس پڑا ہے۔“ عبیرہ نے ہانک لگائی۔
”مجھے نہیں مل رہا آڈھونڈ رے۔“ وہ اندر چلی گئی۔ اماں سے لالٹین لے لی اور اپنی ہی دھن میں اوپر تلے کی تینوں سیلفوں پر تالا دیکھنے لگی۔
لالٹین کی مدھم سی لو سے اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ جانے انجانے راشدہ نے اس کے ہونٹوں کی سرخی دیکھ لی تھی۔
”اسی مردود کے لیے تیار ہوئی ہے نہ تُو۔“ راشدہ نے دانت چبا چبا کر کہا مباداکہ سجاول نہ سن لے۔ وہ بیری کے درخت تلے ٹہل رہا تھا۔
”عابی میں تجھے کہہ رہی ہوں اگر تُو مختاراں کے گھر سے ادھر اُدھر ہوئی یا خان کی جگہ پر جانے کی کوشش کی تو ہڈی ہڈی توڑ دوں گی تیری۔“ راشدہ نے دھمکی دی۔ اس پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی ہی دُھن میں مگن رہی۔
”میں تجھ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔“ راشدہ نے اس کے بازو کو زور سے پکڑا اس کے ہاتھ سے لالٹین چھوٹتے چھوٹتے ہی بچی۔
”نہیں جاﺅں گی اماں کدھری نہیں جاﺅں گی پریشان نہ ہو۔“ اس نے ماں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ ارادے تو اس کے بھی خطرناک تھے۔
”مجھے بے وقوف نہ بنا پہرے داری کرواﺅں گی تیری میں۔“ راشدہ نے اسے ڈرایا۔
”اوہو اماں! اعتبار کرو میرا۔“ عبیرہ کو تالا مل گیا تھا۔ اس نے چابی لگا کے تالا کھول دیا۔ تب ہی سجاول کی غصے سے لیس آواز آئی۔
”آوی جاﺅ ماں دھی کون سے راز و نیاز میں لگ گئیں۔“
راشدہ آگے اور عبیرہ پیچھے نکل آئی تھی۔
٭….٭….٭