وہ سجاول کے دیے گئے وقت کے مطابق کھیتوں میں آگئی اور آم کے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھی ہاتھ میں لکڑی اٹھائے زمین پہ N اور S لکھتی مٹا رہی تھی۔ اسے یہاں آئے پندرہ منٹ ہوچکے تھے۔ سجاول کہیں نظر نہ آیا، وہ مایوس سی بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔
”مجھے بُلا کے خود آیا نہیں، میری مت ماری گئی ہے جو اس سے ملنے دے بہانے ایڈا وڈا رسک لیتی ہوں اسکول سے نکل آتی ہوں۔“ وہ بڑ بڑا رہی تھی۔
اب وہ دو زانوں ہوکر بیٹھ گئی اور سرگھٹنوں پر ٹکا دیا۔
”پینو اور بانو کتنی وڈی کمینیاں نکلیں۔“ وہ بڑبڑائی۔
”دوسروں میں کیڑے نکالنے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے، میکوں میرے عیب گنوا رہی تھیں مجھے سمجھا رہی تھیں کیا صحیح ہے کیا غلط۔“
”میڈی اپنی زندگی ہے، لوکاں نوں کی ہے۔ ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتے اور مشورے دیتے ہیں۔“
”سجاول میڈا ہے، ہور میں اُوندی (اس کی) اپنی محبت کو پانے دی خاطر میں سارے خطرے مول لے سکتی ہوں۔“
”کوئی میڈی راہ اچ روڑے اٹکا کے تاں وکھائے۔“
” آ آ آ آ بھو۔“ سجاول درخت کے پیچھے کب سے چھپا کھڑا تھا۔ اس نے اچانک ہی اسے آکے ڈرا دیا۔ ناجی نے زور دار چیخ ماری تھی۔
”اف میرا سا (سانس) نکال لیا سجاول تو نے۔“ ناجی نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”کدھر رہ گیا تھا ادھی چھٹی میں نکلنا کسی عذاب سے کم نہیں اوہ تو شکر ہے چوکی دار کرسی پر بیٹھا سو رہا تھا۔ چابی گلے میں لٹکائے میں نے مین گیٹ کی چابی اس کے گلے میں سے نکالی ہور تالا کھول کے بھاگ آئی۔ شکر ہے کہ کسی نے ویکھا نئیں۔“ ناجی نے مزے لے لے کر اسے بتایا کہ آج وہ اسکول سے بھاگ آنے میں کیسے کامیاب ہوئی۔
”ہا ہا ہا ہا ہا ناجی تو بھی نا۔“ سجاول ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔
”ہنس کیوں رہا ہے آج میں نے تجھے بڑی ضروری بات بتانی ہے۔“ناجی نے برا مناتے ہوئے کہا اور اسے مزید ہنسنے سے باز رکھنے کے لیے اصل عقدے کی جانب آئی۔
”کیا بات بتانی ہے ناجی خیر تو ہے۔“ سجاول نے سنجیدہ ہوکر پوچھا۔
”خیر ہی تاں نئیں ہے سجاول۔“ ناجی نے پریشان ہوکر کہا۔
”اوہ پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہے بتا نا۔“ سجاول نے گرجتے ہوئے کہا۔
”سجاول اب بات ڈھکی چھپی نہیں رہی سب کو معلوم ہوگیا ہے۔“ ناجی نے کہا۔
”اف کیا ڈھکا چھپا نئیں رہا کیا معلوم ہوگیا سب کو۔“ سجاول نے جھنجھلا کر کہا۔
”تیڈے میڈے عشق دا چرچہ ہورہا ہے۔ سجاول اسکول میں ساری کڑیوں کو پتا لگ گیا ہے۔ ساریاں میکوں میلی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ میرے بارے میں الٹی سیدھی بکواسیں کرتی ہیں۔ ہور اسکول دے باہروں کھڑے پھری والے وی میکوں مشکوک نگاہ واں نال دیکھتے ہیں۔“ ناجی بولی۔
”ہا ہا ہا ہا اوہ میری شوبدی جئی شہزادی۔ نکی جئی گل تیں اتنا پریشان ہوگئی تو عشق کے ہوروی بہت سے امتحان ابھی باقی ہیں۔ وہ کیسے پاس کرے گی۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی تُو۔“ سجاول کو جیسے یہ بات بے انتہا معمولی اور چھوٹی لگی تھی۔
”سجاول تو مرد ذات ہے تیرے لیے مسئلہ نہیں ہے پر میرے لیے ہے۔ اماں کو پہلے ہی شک ہے مجھ پر اور اگر پینو، بانو نے جاکے بتادیا تو اماں مجھے مار مار کے ادھ موا کردے گی۔ روحیل الگ گالیاں دے گا اور ابا تو میرا گلا ہی دبا دے گا۔“ ناجی نے ڈر کے مارے کہا۔
”کیوں مرد ذات پر انگلی کوئی نہیں اٹھاتا کیا۔ میرے سارے یار دوستوں کو پتا ہے۔ اوہ اپنا چاچا جمعہ ہے نہ ٹوکے والا اسے بھی پتا ہے۔ میکوں نئیں لگتا کوئی ایڈی وڈی بات ہے اساں نے پیار کیا ہے۔ گناہ تھوڑی تو کیوں ڈرتی ہے ہم نے سچا عشق کیا ہے۔“ سجاول نے دھیمی مسکان سے کہا۔
”تیری بات ٹھیک ہے سجاول پر یوں چوری چھپے ملنا وی صحیح نئیں ہے۔“ ناجی بولی۔
”تو نہ ملا کر ایک دو دن بعد مل لیتی ہے، تو احسان کرتی ہے میرے اوپر نا تجھے میری یاد بھی ستاتی ہے۔ تیرا دل بھی بے قرار ہوتا ہے نہ ملنے کے لیے، میری باتاں سننے کے لیے۔“ وہ اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
”سجاول غصے تو نہ ہو۔“ وہ خائف ہوتے ہوئے بولی۔
”تو بات ہی دل جلانے والی کرتی ہے ناجی۔“ وہ ذرا دیر کو رُکا پھر بولا۔ وہ لوگوں کو بولنے دے، جو بولتے ہیں۔ ڈھیٹ ہو کے سنتی رہ آپے چپ ہوجائیں گے۔“ اس نے آرام سے کہا۔ ناجی اس کے مزید قریب ہوگئی اور اس کے کندھے پر سر رکھ کے آنکھیں موندلیں۔
”سجاول اگر میرے گھر آلے تیرے سے شادی نہ کریں میری تو کیا ہوگا؟ میں تاں مرجاﺅں گی۔“ اس نے خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
”مریں تیرے دشمن ناجی اگر ہمارے گھر والوں نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو تیرے کو میں بھگا کر لے جاﺅں گا۔“ اس نے اسے اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے بازو پکڑ کر بولا۔ ناجی کا اوپر کا سانس اوپر تو نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سجاول کو تکے گئی تھی۔
جمعے کا دن تھا۔ وہ اسکول سے جلدی گھر آگئی۔ گھر میں عجب سی خاموشی چھائی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سلام کیا، تو ابے اور اماں دونوں کی طرف سے ”وعلیکم السلام“ کی صدا بلند نہ ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد روحیل نے جواب دیا تھا۔ جب وہ بوٹ اتار رہی تھی۔
”آگئی میری بہن۔“ روحیل نے بہن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”ہا بھرا آگئی آپ سناﺅ کیسے ہو؟“ وہ ہمیشہ روحیل کو آپ کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی۔
”ہٹا کٹا ہوں تیرے سامنے یہ بتا پڑھائی کیسی جارہی ہے۔“ روحیل نے پوچھا۔
”پڑھائی بھی اچھی جارہی ہے بھرا۔“ اس نے بوٹ ایک طرف رکھے اور مٹکے سے پانی نکالتے ہوئے بولی۔
”بھرا ماں کہاں گئی ہے؟“ اس نے یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
”اماں خالہ مختاراں کے ہاں گئی ہے۔ خالہ کے بڑے بیٹے میدو کی شادی ہے۔ خالہ کے آج رات اس کے سہرے ہیں۔“ روحیل نے جواب دیا۔
”ہاں بھرا سچی یہ تو بڑی خوشی کی خبر سنائی آپ نے میں تو ہر رات کو جاﺅں گی۔ خوب سارے سہرے گاﺅں گی۔“ وہ کچھ دنوں سے جن الجھنوں کا شکار تھی۔ ساری بھول بھال گئی اور سر مستی سے بولی۔
”ہاں، ہاں ضرور جانا۔“ روحیل نے کہا۔
اتنے میں اماں بھی آگئی تھی۔
”آگئی میڈی دھی، میں صدقے میں واری۔“ صفیہ نے آتے ساتھ ہی اسے چمکارتے ہوئے کہا۔ آج سے قبل تو اماں کبھی یوں صدقے واری نہ ہوئی تھی۔
”اوہ اماں خیر تو ہے۔ لگتا ہے خالہ مختاراں نے تجھے بہت خوش کرکے بھیجا ہے۔“ روحیل نے شرارت سے کہا۔
”آ ہو ہور نئیں تو کیا۔ ناجی کیا بتاﺅں میں تیکوں، مختاراں نے انی سوہنڑی ورھی(شادی کے کپڑے دلہن کے) تیار کر رکھی تھی۔ میں تو حیران رہ گئی ڈیکھ کے، انی سوہنڑی کہ کی ڈساں پورے پنج(پانچ) تولے سونا ڈال رہی ہے نوں کو، حالی وی کہتی تھی میڈا ارمان تھا دس تولے ڈالتی۔ پھر وی خوش تھی۔ ایف سی دی نوکری کرکرکے سیاہ ہوگیا ہے۔ شوہدا جیا۔ بھاگ کے گیا میرے واسطے سا وی بوتل (سبز بوتل سپرائٹ) لے آیا۔ مختاراں نے ساگ تیں جوار دی روٹی کھوائی کہہ رہی تھی سہروں پر لازمی آنا۔ صفیہ ہورناجی کوں وی لانا۔“ صفیہ نے بولنا جو شروع کیا تو نان اسٹاپ بولے گئی۔
”ہا ہا ہا، میں تو لازمی جاﺅں گی، میکوں سہرے بھی اتنے آتے ہیں۔ سارے گاواں گی اور ایڈا اچھا گھڑا (مٹکا) بجاﺅں گی کہ بس۔“ اس نے جنونی ہوکر کہا۔
”روحیل توں وی سن مردوں میں محفل موسیقی دا اہتمام ہے۔ اپنا سردار خالد خان نے بلوایا ہے۔ میدو دے پیو نے وی تو ساری حیاتی سردار خالد خان دی جوتیاں سیدھی کرنے میں گزاردی۔ کیویں نہ بلواتا۔ میڈو کا ابا بتا رہا تھا۔ ولیمے میں روٹی پانڑی (پانی) دا اہتمام وی اس دے سر ہے۔“ صفیہ نے خوشی سے چہک کر کہا۔
”اماں کون آرہا ہے گلوکار۔“ روحیل نے دل چسپی سے پوچھا۔
”کی چنگا جیاناں ایں….ہاں وہ اپنا عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی دا پتر…. سانول عیسیٰ خیلوی آرہا ہے۔“ صفیہ نے کہا۔
”نہ کراماں، وہ تو میرا فیورٹ گلوکار ہے میں تو لازمی جاﺅں گا۔“ روحیل بولا۔
”کھتے جانے کی بات ہورہی ہے میکوں وی تاں ڈساﺅ (مجھے بھی تو بتاﺅ)۔“
اچانک مشتاق احمد نے گھر آتے ہوئے کہا۔ صفیہ کے چہرے کے زاویے بگڑے۔
”ہاہک تیڈی کمی تھی۔“ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ روحیل نے سارا قصہ گوش گزار کیا۔
”میکوں میدو دا ابا ملا تھا بتا رہا تھا۔ اے خوشی ہر ماں پیو کو دکھائے اللہ میاں۔“ مشتاق احمد نے آس سے ناجی اور سہیل روحیل کو دیکھ کر کہا۔
”آمین ابا۔“ روحیل نے آمین کہا۔
”ابا سانول عیسیٰ خیلوی بھی آرہا ہے۔“ ناجی بولی۔
”ہائے سچی میں تاں اوہ آلا گانڑاں (گانا) سنوں گا قمیص تیڈی کالی۔“
”ابا یہ تو پرانا ہوگیا ہے سانول نے خود بھی کتنے اچھے اچھے گیت گائے ہیں۔“ روحیل نے کہا۔
”پر عطا اللہ دے گا نڑوں دی گل ہی کوئی ہور ہے۔“ مشتاق احمد نے کہا۔
”ابا سہرے بھی ہیں رات کو میں مہندی بھی لگواﺅں گی۔“ ناجی چہک کر بولی۔
”ضرور میڈی لاڈو ضرور، اچھا ہک گلاس پانی پلا۔“ مشتاق احمد نے کہا اور وہ پانی کا گلاس بھر لائی۔
”یہ لو ابا۔“ مشتاق احمد نے گلاس لیا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔
”اماں یہ نئیں بتایا کہ کس دی جگہ ہے موسیقی۔“ روحیل نے سوال کیا۔
”میدو دے مامے دی زمین ہے۔“ صفیہ نے جواب نہ دیا، تو مشتاق احمد نے کہا۔
”اچھا شامیانے کب لگیں گے۔“ روحیل نے پوچھا۔
”کہہ تو رہا تھا میدو کہ رات کو جلدی لگا لیں گے۔ عشا تو بعد موسیقی شروع ہوجائے گی۔“ مشتاق احمد نے جواب دیا۔
”(ہائے میدو دے مامے دی جگہ تو بالکل نزدیک ہے میدو کے گھر سے، سجاول وی آئے گا چوری چھپے مل آﺅں گی۔) ناجی نے دل ہی دل میں منصوبہ گھڑا۔
”اماں میں تیکوں وی مہندی لگاﺅں گی آخر تیری سہیلی دے پتر دے سہرے ہیں۔“ ناجی نے اماں کو مخاطب کرکے کہا جو ابے کی انٹری کے بعد خاموش ہوگئی تھی۔
”ضرور لگواﺅں گی میں وی، کرامت وی کہتا تھا۔ کہ صفیہ تیرے ہتھ مہندی بغیر اچھے نہیں لگتے ہور میں وی گول گول ٹکوں والی مہندی لگا لیتی تھی۔“ صفیہ نے جان بوجھ کر مشتاق احمد کا دل جلانے کے لیے کہا۔ مشتاق احمد کا رواں رواں سلگ اٹھا اور ناجی اور روحیل کو بھی دھچکا لگا تھا۔
”کہتا تھا صفیہ مہندی ہر ویلے لگائی رکھی کر…. اور میں ہرویلے لگا لیتی تھی۔“ صفیہ نے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کب سدھرے گی تو صفیہ، جوان اولاد کے آگے۔“ مشتاق احمد کو صفیہ نے بات مکمل کرنے نہ دی تھی اور بولی۔
”ہوگیا نہ تیرا سبق شروع۔ جمعے دی تیاری کر میکوں نہ پڑھا۔“ صفیہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ مشتاق احمد غسل خانے کی طرف چل دیا۔ جمعے کی اذان کی آواز گونج رہی تھی۔
٭….٭….٭