تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”خیر اب میں مزید کیا کہوں تم سے’ بس اس کا ذرا خیال رکھنا۔”
”پریشان نہ ہو۔ ویسے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔” ذیشان نے اسے جیسے اطمینان دلایا۔
”اچھا … ہاں … ایک بات اور … ” شائستہ نے یوں ظاہر کیا جیسے فون بند کرتے کرتے اسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔
”یہ نایاب کے ساتھ پہلے کمرشل میں ایک لڑکے نے کام کیا تھا۔ نایاب بہت ذکر کرتی ہے اس کا۔ کیا نام لیتی ہے… ” شائستہ نے فون پر یوں ظاہر کیا جیسے وہ اپنے ذہن پر زور ڈال رہی ہے۔
”اس کے ساتھ ایک لڑکا تو نہیں تھا کمرشل میں’ تین چار لڑکے تھے۔” ذیشان نے کہا۔
”ہاں مگر وہ جو سب سے زیادہ گڈ لکنگ تھا جس نے بہت اچھا کام کیا؟”
”او” ثمر کی بات کر رہی ہو گی وہ۔” ذیشان کو یاد آیا۔
”ہاں ہاں’ یہی نام لیتی ہے وہ۔” شائستہ نے اس کی تائید کی۔ ”کیا لڑکا ہے یہ ؟”
”کیوں’ کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں’ ویسے ہی پوچھ رہی ہوں۔ نایاب اکثر اس کا ذکر کرتی رہتی ہے اس لیے۔”
”اچھا لڑکا ہے بلکہ بہت اچھا لڑکا ہے۔” ذیشان نے کہا۔
”تم اس کا ایڈریس دے سکتے ہو مجھے؟” شائستہ نے لہجے کو بہت نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ ”ایڈریس اور فون نمبر؟”
”کیوں؟ ایسا کیا ہوا ہے کہ تمہیں اس کا ایڈریس اور فون نمبر لینے کی ضرورت آن پڑی۔” ذیشان چونکا۔ ”نایاب کو تنگ تو نہیں کر رہا وہ؟”
”نہیں نہیں’ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔” شائستہ نے فوراً کہا۔ ”بس نایاب کی کچھ دوستی ہے اس کے ساتھ اور میں ذرا پتا کروانا چاہتی ہوں اس کے بارے میں۔ نایاب کے دوستوں کے بارے میں’ میں ہمیشہ بہت محتاط رہتی ہوں۔” شائستہ نے وضاحتی انداز میں کہا۔
”اس سے اور اس کی فیملی سے کچھ دن پہلے میری پی سی میں نایاب نے ہی ملاقات کروائی تھی۔ میں نے سوچا کہ پھر بھی کچھ اور پتا کروانا چاہیے۔”
”میں پتا کروا دیتا ہوں۔” ذیشان نے آفر کی۔ ”ویسے جتنا میں اس کے بارے میں جانتا ہوں’ یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔”
”وہ تو ٹھیک ہے پھر بھی تم مجھے ایڈریس دے دو۔ نایاب کے سارے دوستوں کے ایڈریسز میں اپنے پاس ضرور رکھتی ہوں’ کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔” شائستہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔




”ٹھیک ہے’ میں تمہیں اس کا ایڈریس لکھوا دیتا ہوں۔ کانٹیکٹ نمبر تو نہیں ہے میرے پاس مگر اس کا ایڈریس ہے۔” ذیشان نے فون پر اسے ایڈریس لکھواتے ہوئے کہا۔
”شائستہ کاغذ پر نوٹ کرنے لگی۔
”اگلے دو کمرشلز میں بھی میں اسے ہی نایاب کے ساتھ لے رہا ہوں۔” ایڈریس لکھوانے کے بعد اس نے شائستہ کو جیسے اطلاع دی۔ ”دونوں کا پیئر بہت اچھا لگا تھا پہلے کمرشل میں۔ کچھ دنوں تک آن ایئر جانے والا ہے کمرشل۔ مجھے بتانا نایاب نے کیسا کام کیا ہے۔”
”ہاں ضرور۔” کچھ دیر دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے پھر شائستہ نے فون رکھ دیا۔ سامنے پڑے کاغذ کو اٹھا کر وہ اس پر نظر دوڑانے لگی۔ اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب سی ہو رہی تھی۔
٭٭٭
”ممی! اب آپ امبر کو کبھی اکیلے گھر سے باہر نہ جانے دیجئے گا۔” صبغہ نے قدرے دھیمی آواز میں کمرے کے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا’ اسے خدشہ تھا کہ امبر اس گفتگو کو نہ سن لے۔
صبغہ قدرے پریشانی کے عالم میں کمرے سے باہر آ کر صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ چند منٹوں بعد منیزہ بھی اٹھ کر باہر آ گئی تھیں۔ ان کے چہرے پر خفگی نمایاں تھی جبکہ صبغہ کے چہرے پر تشویش تھی۔
”امبر نے تو حد کر دی۔” منیزہ جیسے یک دم پھٹ پڑی تھیں۔ ”اتنی بڑی رقم فضول خرچی میں اڑا دی۔ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ فی الحال ہمیں پیسوں کی کتنی ضرورت ہے۔”
”ممی پلیز! آہستہ بولیں’ امبر سن لے گی۔” صبغہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”سنتی ہے تو سن لے۔ میں یہی چاہتی ہوں اسے پتا تو چلے کہ اس نے کتنی غلط حرکت کی ہے ‘ ان حالات میں اسے یہ فضول خرچی نہیں کرنا چاہیے تھی۔”
منیزہ اس وقت واقعی غصے میں تھیں۔ ”تم نے دیکھا کس طرح بے کار چیزوں پر پیسہ ضائع کیا ہے اس نے۔” وہ بڑبڑا رہی تھیں ”پرفیومز اور جیولری اس وقت ان سب چیزوں کی ضرورت ہے اسے؟”
”پلیز ممی! آہستہ بولیں۔ ”میں نہیں چاہتی کہ امبر سن لے اور دوبارہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہو۔” صبغہ نے ایک بار پھر انہیں ٹوکا۔ ”آپ کو اس کی ذہنی حالت کا احساس ہونا چاہیے۔ وہ ٹینشن لے گی تو…”
منیزہ نے اس کی بات کاٹ دی مگر اب ان کی آواز مدھم تھی۔ ”جانتی ہوں وہ ٹینشن لے گی تو کیا ہو گا۔ مگر جو ٹینشن ہمیں ہو رہی ہے اس کا کیا ہو گا۔ اسے ان پیسوں کو سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا۔ کسی وقت کام آتے۔” انہیں رہ رہ کر اسی رقم کا دکھ ہو رہا تھا۔
صبغہ نے گہرا سانس لیا۔ ”آپ کو اندازہ ہے کہ اس نے یہ شاپنگ کہاں سے کی ہے؟”
”کہاں سے کرنی ہے’ اس کے اکاؤنٹ میں جو پیسے تھے وہی خرچ کیے ہوں گے۔ بتایا تو ہے اس نے۔” منیزہ نے کہا۔
”اور آپ نے یقین کر لیا؟”
”صبغہ ظاہر ہے اور کہاں سے آئی ہیں یہ چیزیں۔” منیزہ نے تلخی سے کہا۔
”اس کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ یہ سب کچھ خرید سکتی۔” صبغہ نے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ”دس بیس ہزار ہوں گے اور بس اور یہ تمام چیزیں تقریباً ایک لاکھ روپے کی ہیں۔”
منیزہ کچھ بول نہ سکیں’ الجھے ہوئے انداز میں اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”اسے یہ شاپنگ کسی نے کروائی ہے۔”
”کس نے ؟ اور کوئی کیوں اسے اس طرح شاپنگ کروائے گا؟”
”یہی سوال مجھے پریشان کر رہا ہے کہ کوئی کیوں اسے اس طرح شاپنگ کروائے گا۔ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟” صبغہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”تمہیں کوئی غلط فہمی۔”
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی’ مجھے یقین ہے کہ امبر’ ہارون کمال سے ملنے گئی تھی اور یہ تمام چیزیں اسی نے اسے خرید کر دی ہیں۔” صبغہ نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”ہارون کمال؟” منیزہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔” مگر وہ کیوں اسے یہ سب کچھ خرید کر د یگا؟”
”آپ بتائیں وہ کیوں یہ سب کچھ خرید کر امبر کو دے سکتا ہے؟” صبغہ نے منیزہ کے سوال کا جواب دینے کے بجائے جواباً ان سے پوچھا۔
”میں کیسے بتا سکتی ہوں؟” منیزہ کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔
”آپ بتا سکتی ہیں ممی!” صبغہ کی آواز اب بھی مدھم تھی۔ ”آپ کم از کم یہ تو ضرور بتا سکتی ہیں کہ ہارون نے امبر کے علاج پر اتنا روپیہ کیوں خرچ کیا؟”
اسے ہم لوگوں سے ہمدردی تھی اس لیے۔ ”منیزہ نے بے حد کمزور لہجے میں کہا۔
”تو پھر اسی ہمدردی کے تحت اس نے امبر کو یہ شاپنگ بھی کروا دی ہے اور اس ہمدردی کی وجہ سمجھنا کم از کم اب تو آپ کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے۔” منیزہ کچھ نہیں بول سکیں۔ وہ چپ چاپ صبغہ کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ بہت دیر بعد وہ بولیں۔
”ہارون! امبر کے باپ کا دوست ہے۔ امبر کے باپ کی طرح ہے۔”
”رخشی’ پاپا کی بیٹی کی دوست تھی۔ پاپا کے لیے بیٹی کی طرح تھی۔ کیا پاپا اس کے لیے باپ جیسے ثابت ہوئے ؟”
”ہر مرد تمہاے باپ جیسا اور ہر لڑکی رخشی جیسی نہیں ہوتی۔” منیزہ کو یک دم غصہ آیا۔
”کسی بھی مرد کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ پاپا کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی کسی لڑکی کے ماتھے پر۔”
”تم امبر کا موازنہ رخشی جیسی لڑکی سے کر رہی ہو؟۔” منیزہ نے تاسف و بے یقینی سے کہا۔ ”وہ رخشی کی طرح گر سکتی ہے؟”
”یہ سوال مجھ سے نہ کریں۔” صبغہ مدھم لہجے میں بولی۔ ”اس سے پوچھیں’ وہ شاید آپ کو اس کا بہتر جواب دے۔”
”مجھے یقین ہے صبغہ! امبر ایسی نہیں ہے۔ یہ شاپنگ اگر ہارون نے بھی اسے کروائی ہے تب بھی کم از کم امبر کے دل میں ویسے کوئی خیالات نہیں ہیں جیسے تم کہہ رہی ہو۔” منیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میری خواہش ہے ممی کہ ایسا ہی ہو۔ مگر یہ میل جول اگر اسی طرح جاری رہا تو میری خواہش اور آپ کا یقین دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔”
”میں امبر سے ابھی بات کرتی ہوں۔” منیزہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”نہیں ممی! ابھی نہیں آج بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے کل بات کریں’ میری عدم موجودگی میں۔”
”کیوں؟ آج کیوں نہیں؟ جو بات بھی ہو گی اب تمہارے سامنے ہو گی۔
”آپ اس سے علیحدگی میں بات کریں تب جب وہ …”
منیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”نہیں جو بات بھی ہو گی تمہارے سامنے ہو گی کیونکہ تمہیں ہی شک ہے کہ وہ ہارون کمال کے ساتھ گئی تھی۔” منیزہ نے الزام لگانے والے انداز میں کہا۔
”آپ میرے سامنے بات کرنا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے’ میرے سامنے بات کر لیں۔ مگر اس وقت بات نہ کریں۔” صبغہ اب پچھتا رہی تھی کہ اس نے اس وقت منیزہ سے بات کیوں کی۔
”ابھی بات کرنے میں کیا حرج ہے؟”
”ممی پلیز’ کبھی تو آپ یہ بات سمجھ لیں کہ ہر موقع ہر بات کہنے کا نہیں ہوتا۔” صبغہ کے لہجے میں ہلکی سی ناراضی جھلک آئی۔ ”وہ ابھی کچھ گھنٹے باہر گزار کے آئی ہے اور خوش ہے تو فی الحال اسے خوش رہنے دیں۔ ابھی اس سے کچھ کہیں گی تو وہ ہنگامہ برپا کر دے گی۔ آپ نے دیکھا’ وہ تھوڑی دیر پہلے کس طرح بات کر رہی تھی۔”
صبغہ نے منیزہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ”آپ صرف ایک بات کا خیال رکھیں کہ دوبارہ اس کو اکیلے گھر سے نکلنے نہ دیں۔ وہ کہیں جائے تو آپ اس کے ساتھ جائیں۔”
”میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہ مجھے ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتی اور میں اسے زبردستی پکڑ کر تو گھر میں نہیں بٹھا سکتی۔ وہ مجھے تمہاری مثال دیتی ہے کہ تم بھی تو باہر جاتی ہو۔”
”آپ نے اس کو بتایا کہ میں جاب کی تلاش میں جا رہی ہوں؟”
”بتا چکی ہوں مگر وہ سننے پر تیار نہیں ہے۔”
اس سے پہلے کہ منیزہ کچھ اور کہتیں امبر یک دم کمرے سے باہر آ گئی۔ منیزہ اور صبغہ دونوں خاموش ہو گئیں۔ امبر کو ان کی یک دم خاموشی نے کچھ بے چین کیا مگر پھر وہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔ صبغہ نے اس کے ہاتھ میں کافی کا جار دیکھا تھا۔
کچن کے کھلے دروازے سے وہ دونوں امبر کو کافی بناتے دیکھتی رہیں۔ وہ بڑے مگن سے انداز میں کچھ گنگناتے ہوئے کافی بنانے میں مصروف تھی۔ صبغہ اور منیزہ نے نظروں کا تبادلہ کیا۔ وہ یقینا کافی مدت کے بعد اس طرح گنگناتے ہوئے خوشگوار موڈ میں تھی۔ منیزہ کو پہلی بار صبغہ کی باتوں میں سچائی کی کوئی رمق نظر آئی تھی۔
٭٭٭
”اس ایڈریس پر ایک عورت رہتی ہے۔ مجھے اس عورت اور اس کے بچوں کے علاوہ اس کی فیملی کے بارے میں معلومات چاہئیں۔”
اس شخص نے اس کاغذ پر نظر ڈالی جو اس کے سامنے ٹیبل پر بڑھایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے اس عورت کو دیکھا جو ٹیبل کے دوسری طرف اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس میک اپ سے مبرا چہرے ہونے کے باوجود بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں میں ایک سگریٹ دبا ہوا تھا اور وہ لاپروائی سے اس کے کش لگا رہی تھی۔
وہ کچھ دیر پہلے اس کے دفتر میں داخل ہوئی تھی اور وہاں داخل ہونے کے بعد اس شخص کو اپنا مسئلہ بتانے سے پہلے اس نے اس کا تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ اس شخص نے بڑے تحمل سے اس کے چھوٹے بڑے سوالات کے جواب دئیے تھے۔ پچھلے کئی سالوں سے وہ اس پروفیشن میں تھا اور اس تک آنے والا ہر کلائنٹ اسی قسم کے سوالات کرتا تھا جیسے سوالات اس کے عورت نے اس سے پوچھے تھے۔
ایک لمبے چوڑے انٹرویو کے بعد بالآخر اس نے قدرے مطمئن ہوتے ہوئے اپنے ہینڈ بیگ سے ایک کاغذ نکالا اور اسے ٹیبل پر اس شخص کی طرف بڑھا دیا۔
وہ عورت نروس تھی۔ اس شخص کو یہ اندازہ لگانے میں دقت نہیں ہوئی کیونکہ اس عورت کی انگلیوں پر سگریٹ پینے کی وجہ سے کوئی نشان نہیں تھے یا تو وہ سگریٹ ہولڈر استعمال کرتی تھی یا پھر وہ سگریٹ پینے کی عادی نہیں تھی۔ اگر وہ سگریٹ ہولڈر استعمال کرتی تو اسے اس وقت بھی کرنا چاہیے تھا اور اگر وہ سگریٹ پینے کی عادی نہیں تھی تو اس وقت کیوں پی رہی تھی، یقینا وہ نروس تھی۔ ایک عام سے محلے میں رہنے والی اس عورت اور تین بچوں سے اس عورت کا ایسا کیا تعلق تھا جو اسے نروس کر رہا تھا کوئی رشتہ؟ کیسا رشتہ؟ کوئی تعلق! کیسا تعلق؟
”اس عورت کے بارے میں آپ مجھے کیا بتا سکتی ہیں؟ ” اس شخص نے بالآخر سوال کیا۔
”آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟”
”آپ جو بھی بتا سکیں۔”
”میں اس عورت کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔” وہ عورت کچھ سوچتے ہوئے بولی۔ ”یہ جانتی ہوں کہ یہ کسی گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہے یہ کہ اس کا شوہر مرچکا ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔”
”اس عورت کا نام بتا سکتی ہیں؟”
”نام؟” وہ ایک بار پھر سوچ میںپڑی ”نہیں۔” اس نے بالآخر کہا۔
”بچوں کے نام؟”
”ہاں وہ جانتی ہوں۔” اس بار وہ بے ساختہ بولی۔
”دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑے بیٹے کا نام شہیر اور چھوٹے کا ثمر ہے او ربیٹی کا نام ثانیہ۔”
”آپ کو یقین ہے کہ یہ اسی ایڈریس پر رہتے ہیں؟”
”ہاں بالکل یہ اسی ایڈریس پر رہ رہے ہیں۔”
”اگر آپ ان کا فون نمبر دے سکیں تو۔”
”نہیں۔ میرے پاس ان کا فون نمبرنہیں ہے۔ صرف ایڈریس تھا۔”
”مجھے خاص طور پر اس کے بڑے بیٹے کے بارے میں معلومات چاہئیں اس کی تاریخ پیدائش؟ کہاں پیدا ہوا؟ وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اس کی پیدائش ریکارڈ اگر آپ حاصل کر سکیں تو زیادہ بہتر ہے۔”
”اور یہ ساری معلومات آپ کو کب تک چاہئیں؟”
”مجھے کوئی جلدی نہیں ہے آپ جتنا وقت چاہیں لیں مگر مجھے صحیح معلومات چاہئیں اور جتنی زیادہ اکٹھی کر سکیں۔ اتنا ہی بہتر ہو گا۔” اس نے سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے کو ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔
”کیا فیس ہے آپ کی؟” اس نے اپنے بیگ کے اندر ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔
”یہ کام معلومات کی نوعیت پرمنحصر ہے۔ آپ کو زیادہ معلومات چاہئیں اور آپ خود مجھے کچھ نہیں بتا سکیں جس کا مطلب ہے مجھے بہت زیادہ کام کرنا پڑے گا اور زیادہ کام کرنے کا مطلب…”
اس عورت نے لاپرواہی سے اس کی بات کاٹ دی۔
اس کامطلب ہے کہ فیس زیادہ ہوگی، مجھے پرواہ نہیں۔ آپ صرف کام کریں۔” نوٹوں کی ایک گڈی جس کو لپیٹ کر اس پر ربڑ بینڈ چڑھایا گیا تھا اس کے سامنے ٹیبل پر پھینک دی۔ ”یہ تیس ہزار ہیں۔” وہ بیگ بند کرتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ”مزید رقم اس وقت ملے گی جب مجھے کام ہوتا ہوا نظر آئے گا۔”
”مجھے آپ کا فون نمبر اور نام چاہیے۔” عورت کو کھڑے ہوئے دیکھ کر اس نے ٹیبل پر پڑا ایک رائٹنگ پیڈ اس کی طرف بڑھایا۔
”نام؟” عورت نے کچھ سوچتے ہوئے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔ ”نام ضروری ہے؟”
”فون پر میں آپ کو کیا کہہ کر بلاؤں گا؟”
”میں آپ کو اپناموبائل نمبر دے رہی ہوں۔ میرے علاوہ کوئی کال ریسیو نہیں کرتا۔ آپ آواز سے تو پہچان ہی لیں گے یا پھر ضروری ہے کہ میں آپ کو اپنا غلط نام بتاؤں۔” اس نے پیڈ پر نمبر گھسیٹتے ہوئے کہا۔
”غلط یا صحیح مجھے صرف نام سے غرض ہوتی ہے۔” اس شخص نے اسی انداز میں کہا۔
”اوکے پھر آپ مجھے فریدہ کہہ لیں۔” اس نے اسے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
”فریدہ؟” وہ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔ وہ عورت اب کمرے سے نکل چکی تھی۔
”اس شخص نے ٹیبل پر پڑے کاغذ کے ٹکڑے کو ایک نظر دیکھا اور پھر دروازہ کھول کر وہاں سے ایک لفافہ نکال کر اسے کھولنے لگا۔ اس کے ہاتھوں میں اب ایک اور کاغذ تھا جس پر اس نے دو دن پہلے کچھ نوٹ کیا تھا۔
”دو دن پہلے آنے والی ان دو عورتوں نے بھی ایک عورت کا ہی ذکر کیا تھا۔ وہ بھی اسکول ٹیچر تھی مگر کہاں؟ یہ وہ نہیں جانتی تھیں ہاں وہ نام جانتی تھیں۔ فاطمہ۔ انہیں عورت سے زیادہ اس کے بچوں میں دلچسپی تھی مگر وہ ان کے نام نہیں جانتی تھیں۔ آج آنے والی عورت نے اسے تین نام دیے تھے۔ ان عورتوں کو فاطمہ کے دونوں چھوٹے بچوں میں دلچسپی تھی۔ اس عورت کو بڑے میں۔
وہاں بیٹھے ہوئے اس آدمی کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دونوں ایک ہی معاملے کی کڑیاں تھیں اور وہ دونوں عورتیں فاطمہ نامی ایک ہی عورت کو تلاش کر رہی تھیں اور اب اسے فاطمہ نامی اس عوت کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرنا تھیں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!