تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”مگر وہ مجھ سے ملتی رہی۔” امبر نے جیسے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
”صرف ملتی رہی۔ اس نے تم لوگوں کے لیے منصور کا گھر نہیں چھوڑا … اس کو چھوڑ دینا چاہیے تھا۔”
امبر ہونٹ کاٹنے لگی پھر اس نے ہارون سے کہا۔ ”ممی نے ہی اس کو منع کیا تھا۔ انکل صفدر ہمارے ساتھ ساتھ ان کو نہیں رکھ سکتے تھے۔”
”یہ ایک اور کمزور جواز ہے۔ تمہارے انکل نے بعد میں بھی تو رکھا تھا ان سب کو … کیا گھر سے نکال دیا؟ یا گھر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا؟” ہارون کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”اور صبغہ کو تمہاری وجہ سے منصور نے نہیں نکالا۔ تم تو صرف ایک بہانہ تھیں۔ منصور نے ان سب کو وہاں سے نکال ہی دینا تھا۔ اگر میں اسے نہ روکتا رہتا تو وہ بہت پہلے نکال دیتا۔ یہ صرف میرے روکنے کی وجہ سے تھا کہ اس نے اتنا لمبا عرصہ انتظار کیا۔” ہارون نے اپنی اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
”اور روشان’ تم اسے دیکھو … اس نے کتنی سمجھ داری کا مظاہرہ کیا۔ موقع ملنے پر اس نے تم سب کو چھوڑ دیا … تمہارا اکلوتا بھائی … اور تم مجھے بتا رہی ہو کہ صبغہ کو تم سے محبت ہے کیونکہ تم اس کی بہن ہو”۔ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”بہن بھائی کی محبت بہت سی دوسری چیزوں کی طرح اپنے معنی اور اہمیت کھو چکی ہے … کم از کم تم اب مزید تو اس سے دھوکا مت کھاؤ۔”
”آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔” امبر نے یک دم اپنی کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے کہا۔ ”آپ مجھے ڈراپ کر دیں ۔ مجھے گھر جانا ہے۔”
ہارون کو یک دم اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ ایک دن میں امبر کے ذہن اور سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتا تھا اور وہ اس وقت یہی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”آئی ایم سوری۔ ” ہارون نے اچانک اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔ ”میں بھی فضول کی بحث میں الجھ گیا … ہمیں کیا باتیں کرنا چاہیے تھیں اور ہم کیا باتیں کر رہے ہیں۔” اس نے بڑے رومانٹک انداز میں کہتے ہوئے گاڑی کا رخ موڑ دیا تھا۔
”تم جانتی ہو میں لانگ ڈرائیو کے بعد تمہیں کہاں لے جانا چاہتا تھا؟” اس نے امبر سے پوچھا جو الجھی ہوئی نظروں سے اس کے بدلے ہوئے انداز کو دیکھ رہی تھی۔
”کہاں؟” امبر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”شاپنگ کے لیے۔”
”شاپنگ کے لیے؟” امبر نے قدرے حیرانی سے دہرایا۔ ”کیسی شاپنگ؟”
”تم اپنی ممی کو یہی بتا کر آئی ہو کہ تم کچھ شاپنگ کرنے جا رہی ہو۔” ہارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”تو اب میری خواہش ہے کہ تمہارا یہ جھوٹ سچ میں تبدیل ہو جائے۔”
”نہیں’ مجھے شاپنگ نہیں کرنی … میں نے تو ویسے ہی آنے کے لیے جھوٹ بولا تھا؟” امبر نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ تمہیں شاپنگ کروائی جائے کتنا عرصہ ہو گیا تمہیں شاپنگ کیے ؟” ہارون نے اس سے یک دم سوال کیا۔
”کتنا عرصہ؟” امبر بڑبڑاتے ہوئے سوچ میں پڑ گئی۔




”اس کا مطلب ہے بہت دن ہو گئے ہیں تمہیں۔” ہارون نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔” امبر نے ایک گہری سانس لی۔ ”بہت دن ہوئے شاپنگ میری زندگی سے نکل ہی گئی ہے کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ مجھے …” امبر نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”چلو دوبارہ سے اسے زندگی میں شامل کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ امبر پر کوئی اچھا اثر چھوڑتی ہے۔” ہارون نے شگفتگی سے کہا۔
وہ اب دوسری سڑک پر مڑ رہا تھا اور امبر کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
٭٭٭
”آپ کو آج کل کیا ہو گیا ہے ممی؟” نایاب نے اسی صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا جس پر شائستہ بیٹھی اسموکنگ کر رہی تھی۔ شائستہ اس کے سوال پر چونک گئی۔ گردن موڑ کر اس نے نایاب کو دیکھا جو بغور اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہو گیا ہے مجھے؟ کچھ بھی نہیں۔” شائستہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”کچھ بھی نہیں؟ آپ ذرا اپنی حالت دیکھیں۔” نایاب نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”میری حالت کو کیا ہوا؟ بالکل ٹھیک تو ہے۔” شائستہ نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
”آپ ذرا اپنے چہرے کو دیکھیں۔ کتنی خراب ہو رہی ہے آپ کی اسکن اور آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں۔ آپ کیا آج کل رات کو سو نہیں رہیں؟”نایاب کے لہجے میں تشویش تھی۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا صرف فیشل نہیں کروایا میں نے پچھلے دو ہفتے میں اسی لیے تمہیں میری اسکن خراب لگ رہی ہے۔” شائستہ نے اسی بے نیازی سے کہا۔
”نہیں کروایا؟ تو کیوں نہیں کروایا۔ جائیں جا کر کروائیں۔ ”نایاب نے ماں کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
”اب دو ہفتے کے بعد تمہیں یہ یاد آ گیا کہ تمہیں میری طبیعت کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔” شائستہ دھیرے سے مسکرائی۔
”آئی ایم سوری ممی! میں کچھ عرصے سے اتنی بزی ہوں کہ مجھے کچھ اور تو یاد ہی نہیں رہا۔ ” نایاب نے معذرت کی۔ ”یہ تو میں آپ کو مسلسل گھر پر دیکھ رہی ہوں تو میں کچھ پریشان ہو گئی۔”
”ہاں’ میں گھر پر نہیں رہتی اس لیے۔” شائستہ نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”نہیں … نہیں … ایسی بات نہیں ہے ۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ بہت فرسٹریٹڈ لگ رہی ہیں۔ نایاب نے جلدی سے اپنی بات کی تصحیح کی۔ ”پچھلے کچھ عرصہ سے گھر پر رہنے کے دوران … تو میں پریشان ہو گئی کہ شاید کوئی ٹینشن ہے آپ کو۔”
”بہت ساری ٹینشنز ہیں مجھے۔ تمہیں کس کس کے بارے میں بتاؤں؟” شائستہ نے نرمی سے اس کے ہاتھ کی پشت کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”تو آپ سائیکاٹرسٹ کے پاس جائیں نا … جیسے پہلے جاتی تھیں۔” نایاب نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”وہ کچھ نہیں کر سکتا۔” شائستہ نے سر کو جھٹکا۔
”پہلے تو آپ اس کے پاس جا کر ریلیکس ہو جاتی تھیں؟” نایاب نے کہا۔
”ہاں ہو جاتی تھی۔ اب نہیں ہو سکتی۔ ” شائستہ کے لہجے میں ہلکی سی مایوسی تھی۔
”کیوں … اب کیا ہو گیا ؟”
”کچھ نہیں … تمہارے پیپرز کیسے ہو رہے ہیں؟” شائستہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”ہو نہیں رہے … ہو گئے ہیں اور بہت اچھے ہوئے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے میں ان کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوتی۔ ”نایاب نے کہا۔
”این سی اے جوائن کرنے سے پہلے چھٹیوں میں کیا کرو گی۔” شائستہ نے پوچھا۔
”کچھ طے نہیں کیا۔”
”باہر اسد کے پاس چلی جاؤ۔ اچھا وقت گزرے گا۔” شائستہ نے اسے مشورہ دیا۔
”نہیں’ اسد کے پاس میں نہیں جا سکتی۔” نایاب نے فوراً کہا۔ ”کم از کم پاکستان سے باہر جانے میں ابھی مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”کیوں؟” شائستہ نے ایک اور سگریٹ سلگایا۔
”آپ کو بتایا تو تھا کچھ کمرشلز کرنے ہیں مجھے۔” نایاب نے اسے یاد دلایا۔ شائستہ کے چہرے کا رنگ کچھ تبدیل ہوا۔
”انکل ذیشان بار بار فون کر رہے ہیں مجھے۔” نایاب نے سامنے سینٹر ٹیبل پر پڑا میگزین اٹھاتے ہوئے کہا۔
”تو پاکستان سے باہر جانا تو ان کمرشلز کی وجہ سے ممکن نہیں ہے … اب اس کے ساتھ ساتھ اس عرصہ میں مجھے اور کیا کرنا ہے … یہ ابھی مجھے طے کرنا ہے۔” اس نے میگزین کے صفحے پلٹتے ہوئے کہا۔
”آپ کا کیا خیال ہے مجھے بیوٹی پارلر جوائن کر لینا چاہیے؟” اس نے یک دم میگزین دیکھتے دیکھتے سر اٹھا کر شائستہ سے پوچھا۔
”کس لیے؟” وہ چونکی۔
”سدرہ نے جوائن کر لیا ہے۔ میک اپ کی کلاسز لے رہی ہے وہاں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اگر مجھے ماڈلنگ کرنی ہے تو پھر مجھے میک اپ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہونی چاہئیں اور یہ کلاسز جوائن کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔”
”تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟” شائستہ نے سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”تم پروفیشنل ماڈل بننے نہیں جا رہی ہو۔”
”پھر بھی ممی! کیا حرج ہے اگر کام کو سیکھ کر کر لیا جائے۔ مجھے کوئی نقصان تو نہیں ہو گا میک اپ کلاسز جوائن کرنے سے۔ بلکہ فائدہ ہی ہو گا۔ جب ماڈلنگ چھوڑدوں گی تب بھی۔”
”تم جو کرنا چاہتی ہو کرو مجھے اعتراض نہیں ہے۔ صرف اس بات کا خیال رکھنا کہ تم ہارون کمال کی بیٹی ہو… اور جس فیملی سے تعلق رکھتی ہو اسے پورا شہر جانتا ہے۔” شائستہ یک دم بہت سنجیدہ ہو گئی۔ ”تمہارا ایک غلط قدم تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا۔”
”کیسا غلط قدم؟” نایاب حیرت سے شائستہ کا چہرہ دیکھنے لگی۔ شائستہ نے ایک گہری سانس لی۔
”کوئی بھی غلط قدم ہو سکتا ہے۔ اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی’ تم صرف محتاط رہا کرو خاص طور پر لڑکوں کے معاملے میں۔”
نایاب اس کی بات پر بے اختیار ہنسی۔ ”کون سے لڑکے ممی؟”
”میں سنجیدہ ہوں نایاب۔” شائستہ نے ایک تیز نظر اس پر ڈالی۔ ”میں جانتی ہوں۔” نایاب پھر ہنسی۔ ”مگر کون سے لڑکے؟ پاپا کی طرح آپ بھی ثمر کی بات کر رہی ہیں؟”
”نہیں’ میں ثمر کی بات نہیں کر رہی۔” شائستہ کا لہجہ یک دم دھیما ہو گیا۔ ”میں تمہیں ویسے ہی سمجھا رہی ہوں۔”
”مگر کیوں …؟ میں نے آخر کیا کیا ہے؟”
”تم نے ابھی کچھ نہیں کیا نایاب! مگر پھر بھی میرا فرض ہے کہ میں تمہیں سمجھاؤں۔” شائستہ نے تحمل سے کہا۔
”آپ کو بھی پاپا کی طرح شاید یہ فوبیا ہو گیا ہے کہ میں ثمر میں انوالو ہوں … ” نایاب نے تلخی سے کہا۔ ”حالانکہ اس ایک کمرشل کے بعد میری اس سے بات تک نہیں ہوئی’ اس کے گھر میں فون تک نہیں ہے … تو میرا اس سے رابطہ کیسے ہو سکتا ہے۔’و
”میں تم سے کوئی وضاحت نہیں مانگ رہی ہوں۔”نایاب نے شائستہ کو اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”میں جانتی ہوں آپ وضاحت نہیں مانگ رہی ہیں مگر آپ چاہتی یہی ہیں کہ میں آپ کو وضاحت دوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ممی! پاپا کی طرح آپ بھی مجھ پر ٹرسٹ کیوں نہیں کرتیں؟”
”میری جان! یہ کس نے کہا تم سے کہ میں یا تمہارے پاپا تم پر ٹرسٹ نہیں کرتے۔” شائستہ یک دم کچھ گڑبڑا گئی۔
”مجھے کون کہے گا۔ میں خود سمجھ سکتی ہوں … آفٹر آل میں اب بچی تو نہیں ہوں۔” نایاب نروٹھے انداز میں بولی۔
”اس سے پہلے آج تک آپ نے یا پاپا نے کبھی مجھے اس طرح سمجھانے یا روکنے کی کوشش نہیں کی اور اب آپ یک دم مجھے وارننگ دینے لگ گئی ہیں۔ غلط قدم نہ اٹھاؤں۔ لڑکوں سے محتاط رہوں … یہ سب کیا ہے؟ کیا مجھے کھا جائیں گے وہ” وہ برہمی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تم خوامخواہ ناراض ہو رہی ہو نایاب! شائستہ نے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی مگر نایاب نے اس کی بات ان سنی کر دی۔
”ہاں میں خوامخواہ ناراض ہو رہی ہوں۔ احمق ہوں اس لیے۔ ” وہ کہتے ہوئے تیز قدموں سے لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
شائستہ نے سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں اچھال دیا۔ وہ اپنی کنپٹیوں کو آہستہ آہستہ مسل رہی تھی جہاں درد کی شدت اسے یک دم بے حال کرنے لگی تھی۔
٭٭٭
”ثمر! تمہیں ایک بہت اچھے پورٹ فولیو کی ضرورت ہے کسی پروفیشنل فوٹوگرافر کے ہاتھ کے بنے ہوئے پورٹ فولیو کی۔”
ذیشان نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تصویروں کو ٹیبل پر دوسری طرف بیٹھے ہوئے ثمر کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا۔ ”یہ فوٹو گرافس اچھی ہیں … تمہاری شکل اتنی اچھی ہے کہ تم ہر تصویر میں اچھے آؤ گے … مگر ان کو ہم پورٹ فولیو کا حصہ نہیں بنا سکتے۔” اس نے ثمر کی طرف دیکھا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کی گفتگو سننے میں مصروف تھا۔
”اگر ہم ان کو انلارج کروالیں تو؟”
ذیشان اس کی بات پر ہولے سے ہنسا۔ ”کتنا انلارج کرواؤ گے؟ کیا دروازے جتنا … سائز کی اہمیت نہیں ہے یہ تمہارے بیٹھنے کا انداز’ تمہارا ایکسپریشن’ اینگل’ لائٹ ‘ ہیراسٹائل ‘ کپڑے یہ ساری چیزیں ہیں جو ان Shots میں دیکھی جاتی ہیں… کس اینگل میں تم زیادہ بہتر نظر آؤ گے تمہارے چہرے اور جسم کی خاص چیزیں جنہیں زیادہ نمایاں کر کے تمہیں اٹریکٹو بنا جا سکتا ہے …”
ذیشان نے اسے تفصیل سے بتایا۔ ”یہ گلی محلے میں فوٹو گرافی کرنے والے تمہارا کیا پورٹ فولیو بنائیں گے۔” ثمر کے چہرے پر ہلکی سی کھسیانی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن ذیشان نے اسے بولنے نہیں دیا۔ ”دیکھو میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اب پھر کہہ رہا ہوں تم میں ایک ٹاپ ماڈل بننے کی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تمہیں صرف ایک گاڈ فادر کی ضرورت ہے اور آج کل کے زمانے میں گاڈفادر خود نہیں ملتا ڈھونڈنا پڑتا ہے۔”
ذیشان اپنی دراز کھول کر اس میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ کچھ دیر کی تلاش کے بعد اس نے سر اٹھایا اور ایک وزیٹنگ کارڈ ثمر کی طرف بڑھایا پھر اچانک جیسے اسے کچھ خیال آیا اور اس نے اس کارڈ کو ٹیبل پر رکھ کر اس کی پشت پر کچھ لکھا اور ثمر کی طرف کھسکا دیا۔
ثمر نے اس کارڈ کو اٹھاتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔ پچھلے کچھ ماہ میں اس کا والٹ ایسے بہت سے کارڈز سے بھر گیا تھا اور ان میں سے کوئی ایک کارڈ بھی ایسا نہیں تھا جو اس کے لیے کسی کام کا ہوتا۔ ذیشان کے علاوہ کسی نے اسے کام نہیں دیا تھا اور صرف ذیشان سے ملنے والا کام اس کے لیے کافی نہیں تھا اس صورت میں جبکہ وہ شوبز کو ایک مستقل پروفیشن بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
اور اب ایک اور کارڈ اس کے سامنے تھا’ اس نے کارڈ پر نظر ڈالی۔ نام شناسا تھا۔
”میں چاہتا ہوں تم عادل منہاس سے جا کر ملو۔ یہ وہ آدمی ہو سکتا ہے جس کی تمہیں ضرورت ہے۔”
ثمر نے سر اٹھا کر ذیشان کو دیکھا۔
”میل ماڈلز کے حوالے سے اس شہر میں اس کا بہت نام ہے … بلکہ صرف لاہور میں نہیں کراچی اور اسلام آباد میں بھی جس کو نئے میل ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی شخص کے پاس جاتا ہے’ تو کام کی اس کے پاس کمی نہیں ہوتی۔” اس نے بتایا۔
”میں اس سے جا کر کیا کہوں۔” ثمر نے سنجیدگی سے پوچھا۔ ”کام مانگوں؟”
”ہاں’ بالکل کام مانگو جا کر … تاکہ وہ اپنے ملازم سے کہے کہ تمہیں بازو سے پکڑ کر اس کے آفس سے باہر نکال دے۔” ذیشان کچھ ناراض ہوا۔
”تو پھر ؟” ثمر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ذیشان کس بات پر ناراض ہوا تھا۔
”یار جا کر اس سے اپنا پورٹ فولیو بنواؤ … دس پندرہ ہزار روپے لگیں گے۔ تمہاری شکل اتنی اچھی ہے کہ شاید یہ اتنی زیادہ رقم نہ لے اور مفت میں یا بہت کم پیسوں پر تمہارا کام کر دے۔” ذیشان کہہ رہا تھا۔
”اس کے بعد ؟” ثمر کا ذہن اب اس رقم کے بارے میں تگ و دو کرنے میں مصروف تھا جس کا انتظام کرنا تھا۔
”اس کے بعد یہ کہ اگر اسے فوری ضرورت ہوئی یا تم اسے پسند آ گئے تو یہ تمہیں کام دلا دے گا… مگر اس سے پہلے تمہاری گرومنگ کرے گا’ جس کی تم کو اشد ضرورت ہے۔” ذیشان نے تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ ”میں نے کارڈ پر اپنا ریفرنس دیا ہے’ وہ میرا دوست تو نہیں ہے مگر اچھی ہیلوہائے ہے اس کے ساتھ۔ مجھے امید ہے تمہارے کام آئے گا۔” ثمر نے کارڈ پر نظر ڈالی۔ ذیشان نے عادل منہاس سے اس کی سفارش کی تھی۔
”وہ تم سے شروع کے کچھ عرصہ کے لیے کانٹریکٹ کر لے گا اور تمہارے ایجنٹ کے طور پر کام کرے گا’ ہراسائنمنٹ کے لیے تم سے کچھ رقم لیا کرے گا … اس رقم کی پرسنٹیج خاصی زیادہ ہے۔” ذیشان اب اسے مالی معاملات کے بارے میں مشاورت دے رہا تھا۔ ”مگر اچھی بات یہ ہے کہ وہ ہر پارٹی یا کلائنٹ سے خود ہی رقم وصول کرتا ہے’ سو تمہیں اپنے معاوضے کے لیے کسی کے پیچھے خوار نہیں ہونا پڑے گا۔’و ذیشان اب اپنے چائے کے کپ میں چمچ ہلا رہا تھا۔
”مگر بااخلاق آدمی نہیں ہے … بڑا تیکھا ہے … زبان کا کڑوا … بے مروت’ وغیرہ وغیرہ اور یہ سب اس لیے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے فی الحال وہ سب کی ضرورت ہے۔” ذیشان مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔ ”بہت سے میل ماڈلز کا کیریئر ختم بھی کروا چکا ہے … عادل منہاس سے جھگڑے کا مطلب ہے کہ وہ کام نہیں دے گا اور عادل کے کام نہ دینے کا مطلب ہے کہ کوئی بھی کام نہیں دے گا … اس لیے اس کے سامنے اپنے آپ کو جتنا نرم مزاج بنا کر پیش کر سکتے ہو’ کرنا۔” ذیشان نے اسے نصیحت کی۔
”اب ان ساری برائیوں کے بعد ایک اچھائی کہ عادل منہاس کو اپنے کام کا اچھی طرح پتہ ہے۔ وہ بہت مہارت سے کام کرنے والا آدمی ہے اور کتنا اچھا کام کرتا ہے۔ یہ تمہیں اس کے ساتھ کام کر کے پتہ چل جائے گا۔ ایک بات تم اچھی طرح جان لو کہ عادل منہاس کے ساتھ کام کرنے کے بعد تمہیں کام کرنا آ جائے گا۔ پھر تم کہیں مار نہیں کھاؤ گے۔” ثمر ایک بار پھر اس کارڈ پر لکھے نام اور ایڈریس کو پڑھنے پر مجبور ہو گیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!